• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتِ ترکی کی جانب سے گزشتہ دنوںیک طرفہ طور پر’’ معاہدہ استنبول‘‘ کو ختم کرنے کے بعد جب صحافیوں نے ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ’’ مصطفیٰ شَن توپ‘‘ سے سوال کیا کہ کیا ترکی دیگر بین الاقوامی معاہدوں، جن میں ’’معاہدہ مونتریو‘‘ بھی شامل ہے اور جس کی وجہ سے ترکی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، کو منسوخ کیا جاسکتا ہے؟ تو اس کے جواب میں اسپیکر اسمبلی مصطفیٰ شَن توپ نے کہا کہ ترکی ان تمام معاہدوں کو منسوخ کرسکتا ہے جو ترکی کے مفاد میں نہیں ہیں۔ اس جواب کے بعد ترکی میں ایک بھونچال ساآگیا اور ترکی کے معاہدہ مونتریوکو جلد منسوخ کرنے کی خبروں نے میڈیا میں نمایاں جگہ بنانا شروع کردی۔ اس کے علاوہ چند روز قبل ہی ترک بحریہ کے رئیر ایڈمرل ’’مہمت ساری‘‘ کی ایک درگاہ پر پگڑی اور جبہ پہنےسوشل میڈیاپر تصویرپر انہیں اور ایردوان حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا کیونکہ اس سےقبل ترک فوج میں ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا گیا تھا۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ترک فوج بڑی منظم فوج ہے اور وہ سیکولرازم پر سختی سے کاربند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی فوجی کو داڑھی یا مونچھ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اوپردرج دو واقعات پرترکی میں طویل عرصے بعد ترک بحریہ کے 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز کے دستخطوں سے ایردوان حکومت کے خلاف ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اعلامیےمیں کہا گیا کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران استنبول کینال اور بین الاقوامی معاہدوں کومنسوخ کرنے کے اختیارات کے دائرہ کار میں معاہدہ مونترویو پر بحث و مباحثہ کرنا دراصل ہم سب ریٹائرڈ ایڈمرلز کےلئے خدشات کا باعث بن رہا ہے۔ترکی کی آبنائیں دنیا کی اہم آبی گزرگاہیں ہیں اورانسانی تاریخ میں کثیر القومی معاہدوں کے زیر اثر اس پر عمل درآمد ہوتا آیا ہے۔ان تمام معاہدوں میں سے آخری معاہدہ جسے معاہدہ مونترویو کے نام سے جانا جاتا ہےترکی کے حقوق کا بہترین طریقے سے تحفظ کرتا ہے جوصرف ترکی کی آبنائوں سے گزرنے والے بحری جہازوں کی آمدورفت کو منظم کرنے والے معاہدے کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ترکی کی آبنائوں ، استنبول ، چناق قلعے، بحیرہ مرمرہ اور باسفورس پر تمام حقوق ترکی کو واپس دلوانے والے معاہدہ لوزان کو حتمی شکل دینے اور ترکی کو سفارتی فتح دلوانے والے معاہدے کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور یہ بحیرہ اسود کو امن کا سمندر بنانے والا معاہدہ بھی ہے۔ معاہدہ مونترویو ہی کے نتیجے میں ترکی دوسری جنگ عظیم میں غیرجانبدار رہتے ہوئے جنگ سے دور رہا۔ بحریہ کے ریٹائرڈ ایڈمرلز نے اس طرف بھی حکومت کی توجہ مبذول کروائی کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران میڈیا میں ایک رئیر ایڈمرل مہمت ساری کی ایک درگاہ پر پگڑی اور جبہ پہن کر حاضری دینے والی تصویر سےفوج کو شدید دکھ پہنچا ہے۔ ان ریٹائرڈ ایڈمرلز نے حکومت کو متنبہ کیا ہےکہ وہ کسی ایسی کارروائی سے باز رہے جس سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور اتاترک کے اصولوں کو نظر انداز کیا جاتا ہو۔

صدر ایردوان نے 104ریٹائرڈ ایڈمرلز کی جانب سے آدھی رات کے وقت جاری کردہ میمورنڈم کو ماضی میں ملک میں مارشل لا لگائے جانے کے وقت جاری کردہ میمورنڈم کے مماثل قرار دیا اور کہا کہ یہ میمورنڈم بد نیتی پر مبنی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کئی بار سول حکومت کا تختہ الٹا جا چکا ہے۔ 104ریٹائرڈ ایڈمرلز کے اس میمورنڈم کو کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بےشک یہ میمورنڈم ریٹائرڈ ایڈمرلز کی جانب سے جاری کیا گیا ہے لیکن یہ ترک مسلح افواج پر ایک دھبہ اور بہتان ہے۔ ترکی میں ہمیشہ مارشل لااسی قسم کے میمورنڈم جاری کیے جانے کے بعد ہی لگایا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں واضح طور پر بتادوں کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل 1936میں طے پانے والے معاہدہ مونتریو ہی کے نتیجے میں ترکی بڑے پیمانے پر اپنےمفادات کا تحفظ کرتا آیا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اگرچہ ترکی کو اس جنگ میں جھونکنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن ترکی غیرجانبدار رہتے ہوئےاس سے دور رہا ۔صدر ایردوان نے کہا کہ جب تک ہم اس سے بہتر معاہدہ تیار کرنے کے لئے حالات سازگار نہیں بنالیتے اس وقت تک اس معاہدے پر عمل درآمد جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اُس وقت اِن ایڈمرلز کے حکومت کے حق میں بیانات نہیں دیکھے جب 15جولائی 2016میں سول حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میمورنڈم کو نصف رات کو جاری کرنے کے بعد ترکی کے تمام سیاستدانوں کو اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے چند سیاستدانوں نے اس میمورنڈم کی حمایت کی۔ انہوں نےکہا کہ رئیر ایڈمرل مہمت ساری نے فوج کے یونی فارم کی خلاف ورزی کی ہے اور وزارتِ دفاع ان کے خلاف فوری طور پر کارروائی کرےگی۔

تازہ ترین