آئی ایم ایف کے معاہدے کی رو سے 500ملین ڈالر کی ملنے والی قسط کے اجرا کے ساتھ بجلی میں دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے اور اس کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے کی خبروں نے مجھے آج اس اہم موضوع پر لکھنےپر مجبور کیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے ایک آرڈیننس کے ذریعے بجلی کے نرخوں میں 5.65 روپے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق کے الیکٹرک کے صارفین پر بھی ہوگا اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے حکومت کو آئی ایم ایف سے معاہدے کے مطابق اپریل 2021سے جون 2023تک 6مرحلوں میں884ارب روپے صارفین سے وصول کرنا ہوں گے۔ اس آرڈیننس میں حکومت نے گردشی قرضوں کو کم کرنے کیلئے 10فیصد یعنی 1.40روپے فی یونٹ اضافی سرچارج بھی لگایا ہے جس سے بجلی کے نرخوں میں 7فیصد اضافے سے صارفین پر 934ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ بجلی کے نرخوں میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی قسط کی ادائیگی سے مشروط تھاجس پر آئی ایم ایف کے نمائندے تھریسا ڈابا نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ ٹوئٹ کیا ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ ماہ بجلی کے نرخوں میں 1.95پیسے فی یونٹ اضافہ کیا تھا جسے شامل کرکے بجلی کے نرخوں میں مجموعی طور پر 8.95روپے فی یونٹ اضافہ ہوجائے گا اور صارفین کو 1.134کھرب روپے کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
پاکستان کا سب سے بڑا معاشی چیلنج انرجی سیکٹر ہے،بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نااہلی کا خمیازہ ملک بھر کے عوام بھگتنے پر مجبور ہیں۔ بجلی کی ترسیل کے باعث ہونے والے نقصانات، بجلی کی چوری، بلوں کی عدم ادائیگی اور اِن کمپنیوں کی نااہلی کا بوجھ بجلی کے نرخ بڑھاکر عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بروقت بجلی کے بل ادا کرنے والے صارفین سے ماضی کے گردشی قرضوں کی ادائیگی اور اس کے سود کی مد میں پیسے وصول کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے صارفین بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ اربوں روپے ماہانہ اضافی ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت پی ٹی وی فیس اور ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر 17.5فیصد جی ایس ٹی بھی وصول کررہی ہے جبکہ پیک آورز (شام 6سے رات 11 بجے تک) میں صارفین سے 23روپے فی یونٹ چارج کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سےبجلی کے 300یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے ٹیرف میں بھی مرحلہ وار اضافہ کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط اور نیپرا کے طے کردہ ٹیرف میں آنے والے مہینوں میں4.5روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔ نیپرا کے مطابق بجلی کی ترسیل کے تکنیکی نقصانات 17فیصد ہیں جبکہ وزارت پانی و بجلی کے مطابق یہ 23سے 25فیصد ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق یہ نقصانات 7سے 8فیصد تک قابل قبول ہیں اور اس سے زیادہ نقصانات بجلی کی چوری، ٹرانسمیشن کے ناقص نظام اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہیں۔ سسٹم سے ایک فیصد تکنیکی نقصان کم کرنے سے حکومت کو 6ارب روپے کی بچت ہوتی ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ تکنیکی نقصانات کو 17فیصد سے کم کرکے15.5 فیصد تک لے آئی ہے اور بجلی کے بلوں کی وصولی 90فیصد ہے۔ بلوں کی 10فیصد عدم ادائیگی ایماندار صارفین کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ حکومت کو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو بلوں کی وصولی کو بڑھاکر کم از کم 96فیصد تک لے جانا ہوگا جس پر عمل کرکے 2023تک150ارب روپے کے نقصانات کم کئے جاسکتے ہیں ،نہیں تو صارفین کو بجلی کے نرخوں میں مزید 440ارب روپے تک کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا انرجی مکس خطے میں سب سے مہنگا ہے۔ ملک میں 50فیصد بجلی گیس، 29فیصد فرنس آئل، 11فیصد ہائیڈرو، 8فیصد نیوکلیئر اور 2فیصد کوئلے کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ ہمیں سستی بجلی پیدا کرنے کیلئے نیوکلیئر، کوئلے، ہوا، شمسی توانائی اور ہائیڈرو کے ذرائع سے بجلی پیدا کرنا ہوگی۔ حکومت کو بجلی کے جدید ترسیلی نظام سے بجلی کی چوری روکنے کے علاوہ بلوں کی وصولی کو بھی یقینی بنانا ہوگی تاکہ بجلی کا ہریونٹ استعمال کرنے والےسے بل وصول کیا جا سکے۔
دنیا میں سب سے سستی بجلی پانی سے بنتی ہے جس پر لاگت سب سے کم 4روپے فی یونٹ آتی ہےجس کیلئے ہمیں نئے ڈیمز تعمیر کرنے ہوں گے۔ یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ بھارت ہمارے پانی پر سینکڑوں ڈیم بناچکا ہے لیکن ہم اس پانی سے بجلی بنائے بغیر اسے سمندر میں گرارہے ہیں جس سے نہ صرف ہماری زراعت متاثر ہورہی ہے بلکہ ہم سب سے سستی بجلی پیدا کرنے کے اہم ذریعے سے فائدہ نہیں اٹھارہے۔
ماضی میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ آئی پی پیز کا 50 سے 70فیصد غیر معمولی منافع تھا جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں گردشی قرضے 4200ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ موجودہ حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی معاہدے میں کیپسٹی سرچارج اور روپے کے مقابلے میں ڈالر میں بجلی کے نرخ ادا کرنے کے سابقہ معاہدے میں ترمیم کی ہے جس سے اِن آئی پی پیز کے بجلی کے نرخوں میں کمی آئیگی۔ موجودہ حالات میں ملکی معیشت کو سب سے بڑے چیلنجز انرجی سیکٹر، گردشی قرضے اور بجلی کے مسلسل بڑھتے ہوئے نرخ ہیں۔ اگر ان پر جلد قابو نہیں پایا جاسکا تو ہمارا انرجی سیکٹر ملکی معیشت کو مفلوج کرسکتا ہے۔ میری وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پالیسی میکرز سے درخواست ہے کہ بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ اور ناقابل برداشت گردشی قرضوں کو روکنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اہم اقدامات کئے جائیں۔