ہمارے عزیز یاسر پیرزادہ نے اپنے 31مارچ 2021کے کالم بعنوان ”صالحین کے گروہ کے پاس کون سا نسخہ ہے؟“ میں جماعت اسلامی کے سامنے ایک سوال نامہ رکھ دیا ہے تاہم انہوں نے جواب دینے کے لئے زیادہ آزادانہ انتخاب کا موقع بھی نہیں دیا اور خود ہی چند مفروضوں پر جواب قائم کرکے ان کو پہلے ہی مسترد کردیا ہے۔ پیرزادہ صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے ہمارے لئے متوقع اقتدار کو ”ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ کوئی معجزہ برپا ہو گیا ہے اور ملک میں صالحین کا گروہ برسراقتدار آگیا ہے“ کے جملہ کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔ پھر انہوں نے صالحین کے اس گروہ کے تقویٰ، دیانتداری اور ہوس مال و زر سے بےنیازی پر چند کلماتِ تحسین بھی ارشاد فرمائے ہیں اور آخر میں نتیجہ یہ نکالا ہے کہ صالحین کے اس گروہ کے پاس فحاشی و عریانی، مخلوط تعلیم، عورت مارچ اور سودی نظام کے خاتمے وغیرہ کے علاوہ کوئی لائحہ عمل، کوئی منشور، کوئی انقلابی نظریہ موجود نہیں۔ میں اپنے قابلِ قدر اور دانشور عزیز یاسر پیرزادہ اور دیگر سنجیدہ اہلِ فکر و نظر کی توجہ کے لئے چند باتیں عرض کر رہا ہوں لیکن اس سے پہلے ہم یہ غور کر لیں کہ ہماری 70سالہ تاریخ کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت چاہے جمہوری تھی یا نیم جمہوری، عسکری اور غیرآئنی تھی یا مارشل لائی، باری باری برسراقتدار آنے والی پارٹیوں کی حکومت تھی یا اتحادی سیاست کے نتیجہ میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت سوائے کرپشن اور بیڈ گورننس کے انہوں نے ملک کو کچھ نہیں دیا۔ گویا کہ اگر کوئی جماعت ایسی ہو کہ جس کی قیادت کرپشن سے پاک ہو، گڈگورننس کا تجربہ و سلیقہ رکھتی ہو اور کسی آئیڈیالوجی پر مضبوط یقین کی حامل ہو تو ان کا بجائے خود برسراقتدار آنا ہی مسائل کا حل ہوتا ہے اور اگر ان کے پاس مسائل کے حل کے لئے بہترین اور قابلِ عمل منشور ہو تو ان کی کامیابی مزید یقینی ہو جاتی ہے۔ یاسر پیرزادہ کو فرض کر لیجئے کی تمہید باندھنے اور مفروضہ قائم کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس لئے کہ جن صالحین کے لئے انہوں نے کالم لکھا ہے، وہ تو محدود پیمانے پر ہی سہی پہلے ہی برسراقتدار آچکے ہیں اور اپنے دعوؤں کی صداقت کا عملی ثبوت دے چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کو تین مرتبہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ضلعی حکومت کا اقتدار مل چکا ہے۔ دو مرتبہ میئر بننے والے عبدالستار افغانی اور ایک مرتبہ ناظم کراچی بننے والے نعمت اللہ خان نے کراچی کی قسمت و تقدیر بدلنے کاایک ناقابل تردید معجزاتی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ویسے تو بجائے خود یہ ایک بڑا وسیع موضوع ہے۔ تاہم اس سلسلہ کے دو پہلو قابل ذکر ہیں۔ جماعت اسلامی کی ضلعی حکومت نے کراچی کے بجٹ کو 6ارب روپے سالانہ سے بڑھا کر 46ارب روپے سالانہ تک پہنچادیا اور کراچی کے شہریوں پر ایک روپے کا بھی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کی ضلعی حکومتوں پر ایک روپے کی کرپشن، میرٹ کی خلاف ورزی یا جانبدارانہ طرز عمل کا کوئی جھوٹا الزام بھی عائد نہیں ہو سکا جبکہ ان حکومتوں کی کارکردگی کا اعتراف اور ان کے لئے کلماتِ تحسین کہنے والوں میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سمیت تمام اہلیانِ کراچی شامل ہیں۔
ترکی سمیت دنیا بھر میں ضلعی حکومتوں میں کامیاب ہونے والوں کا یہ استحقاق تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ ملک کے انتظام و انصرام کو بھی بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں۔ صدر ترکی رجب طیب اردگان کی کامیابیوں کا سفر استنبول کی میئر شپ سے ہی شروع ہوا ہے۔ ”صالحین“ کی کامیاب گڈگورننس کی ایک اور مثال الخدمت فاؤنڈیشن ہے کہ جو ملک بھر میں اربوں روپے کے خدمت خلق کے بہترین پروجیکٹس پوری کامیابی سے چلا رہی ہے۔ معزز کالم نگار نے ہمارے منشورکا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ ہمیں ناکام ثابت کرنے کے لئے مخلوط تعلیم، فحاشی و عریانی اور عورت مارچ کا حوالہ نہ دیتے۔ ظاہر ہے کہ ملک کے معاشی استحکام میں ان موضوعات کا کوئی فوری عمل دخل نہیں۔ یہ وہ معاشرتی تبدیلیاں ہیں جو از خود وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ تاہم سودی معیشت کا خاتمہ فی الواقع گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم اسے محض سیاسی نعرے کے طور پر استعمال نہیں کرتے۔ میں اپنی تحریر کو طوالت سے بچاتے ہوئے اتنا عرض کرتا ہوں کہ ہمارے منشور میں تمام اہم مسائل کا قابلِ عمل حل موجود ہے جو میں پیرزادہ صاحب کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ اس میں جاگیردار انہ طرز سیاست کے خاتمے، گڈ گورننس، معاشی استحکام، توانائی، درآمدات، برآمدات، ٹیکسیشن کے بہترین نظام، زراعت میں فی ایکڑ پیداوار کو بتدریج دو گنا کرنے، شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں، سولر پینل ملک میں تیارکرنے، آئی ایم ایف پر انحصار ختم کرکے بیرون ملک پاکستانیوں سے زر مبادلہ حاصل کرنے کے پُرکشش پراجیکٹ کا اجراء، گیس ٹیرف کے پانچ سلیب کے خاتمہ بجلی وغیرہ پر ڈیوٹیوں کو ختم کرنے وغیرہ کے بہترین قابل عمل۔ پروگرام موجود ہیں۔ پیرزادہ صاحب سمیت تمام اصحابِ فکر و دانش جماعت اسلامی کے بارے میں کم ازکم حسب ذیل امور پر متفق ہیں کہ جماعت اسلامی موروثیت سے پاک ہے، داخلی جمہوریت صرف جماعت اسلامی میں موجود ہے، جماعت اسلامی کی قیادت، ارکان، کارکنان وغیرہ کرپشن سے مکمل پاک ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت جدید پڑھے لکھے اور دینی علوم پر دسترس رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے اور اگر عوام آزمائے ہوؤں کو آزمانے اور انیس بیس کے فرق سے ایک ہی طرح کے سیاست دانوں کو ہی باری باری برسراقتدار لانے کے طرز عمل کو چھوڑ دیں تو یقیناً جماعت اسلامی ہی ملک کے حالات کو یکسر تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
(صاحب تحریر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں)