ڈاکٹر جمیل جالبی کا شمار دنیائے ادب کی اُن ہستیوں میں ہوتا ہے ،جن سے متعلق علّامہ اقبال نے کہا ؎بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ ادبی ناقدین کو نقد و نظر کی بصیرت کے آئینے میں سمجھنا دشوار ترین امرہے کہ وہ ادب تخلیق کرنے کے لیے اپنی تمام شخصی جہات بروئے کار لانے میں کوئی کسر اُٹھانہیں رکھتے۔
ڈاکٹر جالبی کی تحقیقی خدمات نے اپنے ہم عصروں کے لیے ادبی اقدار کی راہ ہم وار کی ۔ اس سلسلے میں ان کے ادبی رسالے ’’ نیا دَور ‘‘ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ پھرپاکستانی ثقافت پر ان کے قابلِ ذکر کام نے بھی بائیں اور دائیں بازو کے افراد کے تحفّظات دور کیے۔ ڈاکٹر جالبی ایک منجھے ہوئے ٹیکسٹ ایڈیٹر تھے۔
ان کے ذریعے اردو کا ایک نایاب کلاسیکی متن ’’کدم راؤ پدم راؤ (مثنوی)‘‘ ترمیم کیا گیا۔ یہ کام کسی بھی ٹیکسٹ ایڈیٹر کے لیے آسان نہ تھا، مگرڈاکٹر جالبی سُرخ رُو ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف مہارت کے ساتھ متن میں ترمیم کی، بلکہ ایک تفصیلی پیش لفظ بھی تحریر کیا۔تدوین میں ان کی ذیلی کا وشوں میں ’’دیوانِ حسن شوقی‘‘ ، ’’دیوانِ نصرتی‘‘اور میر تقی میر، جرأت وغیرہ پر ان کی تصانیف میں اُن کی محنت صاف جھلکتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ایک ادیب ہونے کے ساتھ سرکاری افسر بھی تھے۔
نیز، انہوں نے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر جالبی اور ڈاکٹر اشتیاق حُسین قریشی بیرونِ ممالک بھی ایک عالم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور آج بھی ان کے تحقیقی کام کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقات کوجنوبی ایشیاکے ادبی علوم پر مرتّب کتابیات میں کثرت سے شامل کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر جالبی نےجامعہ کراچی میں کئی مثبت اقدامات کیے، جن کے سبب جامعہ کا شورش زدہ ماحول پُر سکون ہو گیا۔ انہی کی کاوشوں سے یونی وَرسٹی نے اپنے معیارات بلند کیے ، خصوصاً لائبریری بہت بہتر ہوئی۔ وہ ہر ہفتے خودلائبریری کا دَورہ کیاکرتے تھے۔ مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد کے صدر نام زد ہونے کے بعد ایک قابلِ ذکر کام یہ کیاکہ انگریزی سے اردو لغت مرتّب کی ۔ ان کی ایک مشہور تصنیف ’’تاریخِ ادبِ اردو ‘‘ ، چار بھاری جِلدوں پر مشتمل ہے۔ تاہم، اس تاریخ کی تکمیل میں ابھی بھی کچھ کام باقی ہے۔
کلاسیکی اردو شاعری اور نثر کی ادبی شخصیات کے حوالے سے ہم عصر اور جدید محقّقین کے بیانات کا تنقیدی انداز میں فیصلہ کوئی آسان کام نہیں ، لیکن ڈاکٹر جالبی کے تفصیلی تجزیات نے اس کام کو سہل بنا دیا۔ ڈاکٹر جالبی نےادبی تاریخ میں اردو کلاسیکی ادب کو نظم و نثر کے کچھ حصّوں میں نہیں دیکھا، در حقیقت وہ ادب کی تخلیق کے پیچھے سیاسی اور معاشرتی محرکات بھی دیکھتے تھے۔ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی کتاب ’’ اردو ادب کی تاریخیں ‘‘ میں 50 سے زیادہ اردو تواریخ کا مطالعہ کیا، اور ڈاکٹر جالبی کے کام کو اردو ادب اور اس کے رجحانات میں لکھی جانےوالی تمام تاریخوں میں سب سے متاثر کُن قرار دیا۔
پاکستان کے مختلف فورمز ڈاکٹر جمیل جالبی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، لیکن ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹر جالبی جیسے محقّق، ادیب اور علم دوست انسان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا طریقۂ کار کیا ہونا چاہیے؟ ایک دن کوئی بزم سجا کے، ان کی خدمات کو یاد کیا جانا بہتر ہوگا یا یہ کہ ہم سب ان کےعلمی و تحقیقی کام کو آگے بڑھائیں، نامکمل کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔
تاریخِ ادب اردو کی چوتھی جلد کی طباعت کے فوری بعد ڈاکٹر جالبی نے پانچویں جِلد پر کام کا تہیہ کرلیا تھااوراس سلسلے میں انہوں نے کچھ کام شروع بھی کیا ،تو اب ان کے ورثاء، طلبہ اور مقلّدین کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اُن کے تمام تر ادھورے کاموں کوپایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔