• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب نے اب تک گندم اور شوگر مافیا کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی

اسلام آباد (انصار عباسی) گزشتہ سال اپریل میں نیب نے گندم اور چینی اسکینڈل کے تمام پہلوئوں کے حوالے سے ایک جامع انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بیورو کی طرف سے اب تک اس معاملے پر کوئی نمایاں کارروائی نہیں کی گئی۔ رابطہ کرنے پر نیب کے ترجمان نے بتایا کہ بیورو کے راولپنڈی آفس کو اس انکوائری کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ 

اس معاملے پر اب تک ہونے والی پیشرفت کے متعلق پوچھے گئے سوال پر ترجمان نے بتایا کہ نیب میرٹ اور قانون کے مطابق گندم اور چینی اسکینڈل پر تحقیقات کر رہا ہے اور سرکاری کارروائی کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم کرنا تحقیقات پر اثر ڈال سکتا ہے، میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے پر کسی بھی طرح کی قیاس آرائی سے گریز کریں۔

 اپریل 2020ء میں بیورو نے اسکینڈل کے حوالے سے تحقیقات کرنے کے فیصلے کے حوالے سے میڈیا کیلئے بیان جاری کیا تھا۔ تاہم، صورتحال سست روی کا شکار ہے اور نیب نے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی۔ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں چینی اسکینڈل میں ملوث جن بڑی مچھلیوں کا ذکر کیا گیا تھا؛ وہ نیب نہیں بلکہ ایف آئی اے کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ 

چینی اور گندم اسکینڈل پر سرکاری رپورٹس نے بھی کئی سرکاری عہدیداروں بشمول وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، اسد عمر، رزاق دائود اور دیگر کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

 بیورو نے شاید ہی ان میں سے کسی کو اب تک طلب کیا ہو۔ جون 2020ء میں شوگر کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں حکومت نے نیب کو ریفرنس بھیجا تھا کہ وہ شوگر انڈسٹری کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ پانچ سال بشمول پی ٹی آئی حکومت کے دور میں مختص کی گئی 29؍ ارب روپے کی سبسڈی کے محرکات کی تحقیقات کرے۔ 

کہا گیا تھا کہ نیب سے 1985ء سے لیکر دی جانے والی سبسڈیوں کے متعلق تحقیقات کیلئے بھی کہا جائے گا تاکہ جہاں بھی اختیارات کے ناجائز استعمال کا ثبوت سامنے آئے وہاں فوجداری کارروائی کی جا سکے۔ اس صورتحال میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار توجہ کا مرکز تھے کیونکہ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے شوگر ملوں کو دی گئی تین ارب روپے کی سبسڈی نہ صرف بلاجواز تھی بلکہ کمیشن کو دیا جانے والا وزیراعلیٰ کا بیان بھی مشکوک تھا۔ 

کمیشن نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ صوبائی کابینہ میں یہ معاملہ زیر غور لائے جانے سے قبل اور ای سی سی کے شوگر سبسڈی کے حوالے سے اہم نکات کا انتظار کیے بغیر ہی بزدار کی زیر قیادت ہونے والے اجلاس میں پنجاب حکومت نے شوگر ملوں کو تین ارب روپے سبسڈی دینے کا اصولی فیصلہ کرلیا تھا۔ 

کمیشن کی رائے ہے کہ سبسڈی بلاجواز ہے، وزیراعلیٰ نے اپنا موقف پیش کیا کہ سبسڈی کابینہ نے دی اور یہ مشترکہ فیصلہ تھا تاہم 6 دسمبر 2018ء کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے اہم نکات (منٹس) کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں۔

رپورٹ میں اسد عمر کے کردار پر بھی تشویش کا ا ظہار کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ سبسڈی دینے کا معاملہ صوبوں کی صوابدید پر چھوڑنے کا اسد عمر کا فیصلہ کمیشن کو قائل نہ کر سکا۔ 

ان کی جانب سے جو وجہ بتائی گئی تھی وہ یہ تھی کہ وفاق صوبوں کے معاملات کا فیصلہ کر سکے اس کا کوئی قانونی دائرہ اختیار نہیں ہے۔ لیکن جب ای سی سی کا اجلاس ہوا تو یہ وجہ اس میں نہیں بتائی گئی اور جو فیصلہ کیا گیا وہ مکمل طور پر مختلف تھا۔

 رزاق دائود کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قیمتیں بڑھنے کے باجوجود چینی کی مسلسل برآمد کے حوالے سے رزاق دائود کا ر د عمل قابل قبول نہیں تھا۔ 

کمیشن کے پاس ثبوت ہیں کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ چینی کی برآمد کی وجہ سے ہی مقامی مارکیٹس میں اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اس کے علاوہ مارکیٹ میں کی جانے والی ہیرا پھیری، ذخیرہ اندوزی سٹہ وغیرہ کی وجہ سے بھی قیمتیں بڑھیں۔

 اسی طرح ایف آئی اے کی گندم کے اسکینڈل پر ضمنی رپورٹ میں بھی وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف دھماکا خیز مواد موجود ہے کہ فوڈ ڈپارٹمنٹ میں کی جانے والی زبردست تبدیلیوں کی وجہ سے ملک میں آٹے کا سنگین بحران پیدا ہوا۔ ایف آئی اے کمیٹی نے عثمان بزدار سے سوالات کیے جنہوں نے دلچسپ انداز سے اعتراف کیا کہ انہوں نے فوڈ ڈپارٹمنٹ میں سیاسی دبائو میں آ کر تبدیلیاں کیں۔

 رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فوڈ ڈپارٹمنٹ کے درجنوں افسران کو متعدد مرتبہ وزیراعلیٰ کے کہنے پر تبدیل کیا گیا، انہوں نے سات ماہ میں چار فوڈ سیکریٹریز بھی تبدیل کیے۔ 

ایک فوڈ سیکریٹری نے ایف آئی اے کو بتایا کہ محکمے کے افسران کو وزیراعلیٰ کے زبانی احکامات پر تبدیل کیا جاتا تھا۔ ضمنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انکوائری ٹیم نے وزیراعلیٰ سے سوالات کیے جنہوں نے بتایا کہ ’’یہ درست ہے کہ سیاسی لوگ وزیراعلیٰ آفس سے رابطہ کرکے ٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے کہتے ہیں۔‘‘ بزردار حکومت نے اپریل 2019 سے نومبر 2019 تک چار فوڈ سیکریٹریز تبدیل کیے۔ 

یہ تمام لوگ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے تبدیل کیے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نسیم صادق کے علاوہ باقی تین فوڈ سیکریٹریز نے بھی بڑے پیمانے پر ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کو تبدیل کیا۔ ان میں سے ایک سیکریٹری نے صرف مارچ 2019ء کے ایک مہینے میں 35؍ ڈی ایف سیز کو تبدیل کیا۔ ایک اور سیکریٹری نے 9؍ ڈپٹی سیکریٹریز کو اور 32؍ ڈی ایف سیز کو تبدیل کیا۔ 

دونوں سیکریٹریز شوکت علی اور ظفر نصر اللہ نے بتایا کہ ٹرانسفر پوسٹنگ وزیراعلیٰ کی منظوری سے ہوئیں۔ ظفر نصر اللہ نے تبدیلیوں کے حوالے سے انتظامی وجوہات بیان کیں لیکن اعتراف کیا کہ آدھی پوسٹنگز وزیراعلیٰ آفس سے زبانی ملنے والی ہدایات پر تجویز کی گئی تھیں۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چار سیکریٹریز کیلئے بھیجی جانے والی سمریوں میں سے کسی میں بھی فوڈ ڈپارٹمنٹ میں ہونے والی مسلسل تبدیلیوں کو وجوہات بیان نہیں کی گئی تھیں۔ رپورٹ میں لکھا تھا کہ ٹرانسفر پوسٹنگز کے حوالے سے تمام سمریاں مجاز اتھارٹی کی ہدایات کے مطابق بھیجی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق، پنجاب کے سابق اور موجودہ چیف سیکریٹری نے بھی اسی موقف کی تصدیق کی۔

تازہ ترین