سہیل وڑائچ
ماجد نظامی
فیض سیفی، وجیہہ اسلم
عبد اللہ لیاقت، حافظ شیراز قریشی
کسی بھی ملک کا مرکزی بینک اس کے عوام کیلئے نہ صرف مالی پالیسیوں کو ترتیب دیتا ہے بلکہ اس کی فلاح و خوشحالی کیلئے بھی مناسب اقدامات عمل میں لاتاہے ۔سینٹرل بینک کو ریاست سے الگ کرنا کبھی بھی ریاست اور ریاستی اداروں کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوتا۔ریاست اورریاستی بینک کی الگ الگ پالیسیاں مکمل عوامی مفاد تودرکنار عوام کی بنیادی ضروریات کو بھی پیش نظر نہیں رکھتیں۔
دوسری جانب اگر اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سیاسی حکومت کے ہاتھو ںیرغمال بنانے کی کوشش کی جائے تو اسٹیٹ بینک اپنی خودمختاری برقرار نہیں رکھ سکتا۔ قیام پاکستان سے اب تک اسٹیٹ بینک کسی نہ کسی صورت میں سیاسی حکومتوں کے ہاتھوں اپنی خودمختاری کی قربانی دیتا رہا ہے۔ اسی تناظر میں نومارچ 2021 کوا سٹیٹ بینک آف پاکستان کے آرڈیننس میں ترمیم کرکے "اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ2021" کا اجرا کیاگیا۔اس ایکٹ میں ترمیم کے بعد ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ۔اسٹیٹ بینک اور حکومت کی جانب سے اس کو مثبت اقدام اور خودمختاری قرار دیاجبکہ ناقدین کا کہناہے کہ یہ ایکٹ ملکی مالی خودمختاری کو نہ صرف ختم کرے گا بلکہ مستقبل میں آئی ایم ایف کی مستقل زنجیر پائوں میں پہننے کا باعث بھی بنے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت اس قانون کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد اس پر کس حد تک بحث کی اجازت دے گی۔اس ترمیمی ایکٹ کے مندرجات میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں اس کے حوالے سے ماہرین معاشیات کی رائے یکسر مختلف ہے جبکہ کچھ نے تو اسے عوام کیلئے مہنگائی کے بم اور معاشی انتشارسے تشبیہ دی ہے۔قارئین کی آسانی کیلئے اس کے ہر نکتے کو الگ الگ سمجھناضروری ہے ۔
1-بنیادی طورپر حکومت اور اسٹیٹ بینک کا استحکام ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔موجودہ پاکستانی معاشی نظام میں حکومت کا اسٹیٹ بینک پر مکمل اختیار ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے حکومت اپنے اخراجات یا ترقیاتی اخراجات کی مد میں جب چاہے اسٹیٹ بینک سے قرضہ حاصل کرسکتی ہے ۔نئی کی جانے والے ترمیم کے مطابق اسٹیٹ بینک حکومت کواب کوئی قرضہ جاری نہیں کرے گا اور اسٹیٹ بینک صرف اپنے بنیادی مقصد کے تحت مقامی سطح پر قیمتوں کو مستحکم ، معاشی استحکام اور اسٹیٹ بینک حکومت کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرے گا۔
حامی کیا کہتے ہیں :
ترمیمی مندرجات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک حکومت کو لامحدود قرضے جاری نہیں کرے گی۔اسٹیٹ بینک کی حکومتی آزادی کے بعد ممکن یہی ہے کہ معاشی استحکام پیدا ہوگا اور حکومتی شاہ خرچیاں کم ہوں گی۔ ماضی میں ہونے والے بے جا اخراجات کی ایک وجہ حکومتی قرضہ جات ہیں جو کوئی بھی حکومت اسٹیٹ بینک سے حاصل کرتی تھی جو اقرباپروری یا مخصوص پراجیکٹس پر لگاتی رہی جس کا براہ راست عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتاتھا۔
ناقدین کیا کہتے ہیں:
دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ اگر قرضہ جات بند کردئیے گئے تو حکومت کمرشل بینکوں سے زیادہ شرح سود پر قرضہ لے گی جس کا براہ راست بوجھ عوام پر ہی پڑے گا،یعنی قرضے اتارنے کیلئے لئے جانے والے قرضوں پر بھی زائدشرح سے سود دیناپڑے گا۔اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں حکومت تنخواہوں و دیگر اخراجات کیلئے کمرشل بینکوں سے قرضے لے گی
2-گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری اور معزولی کا اختیارصدر مملکت کے پاس ہے جبکہ ترمیم کے بعد گورنر کو صدر مملکت حکومت کی سفارش پر تقرری کریں گے اور صدر ہی گورنر کومعزول کرسکتے ہیں اور معزولی کی تائید عدالت عالیہ کی جانب سے ضروری ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ گورنر اور ڈپٹی گورنر کی مدت ملازمت تین تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے جبکہ پانچ سال ہی اس میں توسیع دی جاسکے گی۔اسٹیٹ بینک کی خودمختارانہ پالیسی جاری رکھنے کیلئے ڈپٹی گورنرز کی تعداد تین کرنے کی بھی تجویز دی گئی جن کی مدت ملازمت میں مزید پانچ سال کی توسیع دی جا سکے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک وزیرخزانہ کی مشاورت سے ڈپٹی گورنرز کے نام تجویز کریں گے۔
حامی کیا کہتے ہیں:
اس ترمیم کے بعد اسٹیٹ بینک اپنی پالیسی کا آزاد اور خود مختار تسلسل جاری رکھ سکے گا ۔اگر بینک کے ملازمین سیاسی بھرتیوں سے مقرر ہوں گے تو حکومت کی جائز ناجائز پالیسیوں کو رائج کرناپڑتا ہے جس کا فائدہ عوام کو کم اور حکومتی لابیوں کو زیادہ ہوتاہے ۔ساتھ ہی ساتھ مدت ملازمت میں اضافے سےا سٹیٹ بینک کے فیصلے آزاد اور خودمختار ہوں گے اور پالیسیوں کا تسلسل بھی جاری رہے گا۔
اس شِق میں ایک اضافہ یہ بھی ہوا ہے کہ صدر مملکت گورنر کو معزول تو کرسکیں گے مگر عدالت اس کا فیصلہ کرے گی۔اس اقدام سے گورنر اسٹیٹ بینک بغیر کسی دبائو کے معاشی پہیہ تیز تر کریں گے اور حکومتی کنٹرول سے آزاد فیصلے کرسکیں گے۔اسٹیٹ بینک کے بنیادی ڈھانچے میں یہ ایک نیااضافہ ہے جس کے بعد فیصلے ادارہ جاتی ہونے کیساتھ ساتھ معاشی ترقی کو بھی ایک سمت لانےمیں مددگار ہوگا۔
ناقدین کیا کہتے ہیں:
ترمیم کے بعد ناقدین کہتے ہیں کہ مدت ملازمت میں اضافہ اور توسیع سے بیرونی ایجنڈا واضح طور پر سامنے آگیاہے ۔خودمختاری کی آڑ میں تقرری اور معزولی میں حکومت کا کردار برائےنام ہو گا ۔
اسٹیٹ بینک کے تنظیمی ڈھانچے میں اضافے سے آئی ایم ایف کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ سے نکل کر بیرونی ہاتھوں میں جائے گا۔
3-قانونی کارروائی سے استثنا سے متعلق ترمیم میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے کسی بھی ملازم بشمول گورنر ،ڈپٹی گورنر اور بورڈ ممبران پر قانون نافذ کرنے والے اور تفتیشی اداروں کو کارروائی کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔اس ضمن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان خود ہی اس عمل کو شفاف بنائے گا۔
حامی کیا کہتے ہیں :
ایکٹ کے حامی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طر ح آزادانہ فیصلوں میں مدد مل سکے گی اور پالیسیوں کا تسلسل کسی سیاسی دبائو کی نذر نہیں ہوگا۔گزشتہ چند سالوں میں بیوروکریسی پر نیب کی تحقیقات سے انتظامی مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے جس کے بعدترقی کی رفتار کم ہوئی ہے۔نیب اور قانون نافذ کرنے والے ادارے محض شکایت پر ملازمین کو ہراساں کریں گے تو ممکن ہے کہ مالی مسائل پیداہوں ۔لہذا معاشی خود مختاری کیلئے ادارہ جاتی احتسابی نظام کو یقینی بنانااسٹیٹ بینک کا کام ہوگا۔
ناقدین کہا کہتے ہیں :
قانونی کارروائی سے بالاتر ہونے کو مخصوص زاویے سے تنقید کا نشانہ بنایاجارہاہے ۔یاد رہے کہ اس شِق سے نہ صرف شکوک و شبہات پیداہوئے ہیں بلکہ کسی حد تک تعمیری تنقید کی جارہی ہے ۔ملکی قانون سے بالاتر کوئی فرد نہیں اور نہ ہی کوئی بھی فرد یا ادارہ اس سے راہ فرار اختیار کرسکتاہے ۔اگر اسی طرح ہر ادارے کو قانون سے استثنا دیاجانے لگے تو ہر ادارہ ترقی کم اور مخصوص ایجنڈوں پر زیادہ کام کرے گا۔
4-ایک اور بڑی تبدیل اس ایکٹ میں کی گئی ہے جس کے تحت اسٹیٹ بینک نے حکومتی پالیسیوں کے تسلسل کیلئے کچھ مانیٹری ایکشنز کو منقطع کردیاہے ۔حکومت وقت کسی بھی وقت کوئی پالیسی ترتیب دیتی تھی جس کی بدولت انڈسٹریز کو سبسڈی دینااور اسٹیٹ بینک سے قرضہ جات فراہم کئے جاتے تھے جو اب نہیں کئے جائیں گے البتہ ایسی انڈسٹریز یا شعبے جن کو مالی معاونت کی ضرورت ہوگی اسٹیٹ بینک ان کیلئے ری فنانسنگ کا بندوبست خود کرے گی۔
حامی کیا کہتے ہیں :
اس ترمیم کو جہاں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہیں اس کے حامی بھی اس کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ مخصوص انڈسٹریز اور بے جا سبسڈی کی مد میں جو اربوں روپوں کا ضیاع ہورہاہے وہیں حکومتوں کی جانب سے نوازشوں کا سلسلہ بھی بند ہوگا۔ساتھ ہی ساتھ سیاسی چالوں کے ذریعے اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ بھی بندہوگا ۔
ناقدین کیا کہتے ہیں:
ناقدین کہتے ہیں کہ اگر ایسے ہی اسٹیٹ بینک کو حکومتی کنٹرول سے آزاد رکھاگیا تو بیرونی ایجنڈے عوام کیخلاف کھل کر سامنے آئیں گے اور ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیٹ بینک اس ترمیمی ایکٹ کے بعد ملکی خودمختاری پر سمجھوتہ ہوجائے گا یا ملک کی معاشی ترقی میں تیزی آئے گی۔ناقدین کا کہناہے کہ ٘ملکی خودمختاری گروی رکھ دی گئی ہے اور مالیاتی امور حکومتی کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔یہی نہیں حکومت کی اسٹیٹ بینک میں بظاہر کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا کنٹرول مکمل طور پر حکومتی نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کا اختیار ہوگا۔مزید براں ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کی تعیناتی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہوگی اور وہ چاہے گا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں جلد از جلد کی جائیں ۔اس مقصد کیلئے مرکزی بینک قومی آمدنی کی شرح کو محدود کردے گا ،ادارہ جاتی اور انڈسٹریز کو دئیے جانے والے قرضہ جات اور حکومت کی جانب سے عوام کو سبسڈی کی سہولت ختم کردی جائے گی۔
بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی کیلئے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیاجائے گا جس میں نہ صرف مہنگائی ہوگی بلکہ عوام کی قوت خرید مزید کم ہوجائے گی۔اس کے علاوہ مانیٹری پالیسی ،مہنگائی میں کمی یا اضافہ اور ایکسچینج ریٹ کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ سے نکل کر سٹیٹ بینک کی اتھارٹی ہوگی ۔
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ....
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ کے بارے میں کہتے ہیں کہ گورنر اسٹیٹ بینک " فرد واحد "کو طاقت کا سر چشمہ بنا دیا گیا ہے۔ دوسرا اہم نقطہ یہ کہ اسٹیٹ بینک کی بورڈ آف میٹنگ میں حکومت کی جانب سے ایک بھی نمائندہ موجود نہیں ہوگا ۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو حکومت کے علاوہ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے بھی کسی قسم کی پوچھ گوچھ بھی نہیں کر سکتے جبکہ ایک ادارہ جو ملک کی معیشت کو دیکھ رہا ہو اس کی پالیسیوں پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کہا جا رہا ہے اگر یہ قانون اتنا ہی اچھا ہے تو 180ممالک میں سے ایک بھی ملک ایسا بتا دیں جس نے ایسے جانبدار قوانین کے حامل قانون کواپنے ملک میں رائج کیا ہو کیونکہ ایسے قوانین سے ریاست کی معاشی ساخت متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کی ملازمت کی مدت تین سال کی بجائے پانچ کر دی جائے ،سوال یہ ہے کہ جس ملک کامنتخب وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت مکمل نہیں کر سکتا وہاں اس قسم کی شق کا ہونا کا فی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ معیشت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور معیشت کا انحصار ڈالر کے اتار چڑھاؤ پر منحصر ہوتا ہے اس ایکٹ میں ڈالر کی قیمت کا فیصلہ وفاقی حکومت نہیں بلکہ گورنر آف اسٹیٹ بینک متعین کرے گا۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق ترمیمی ایکٹ میں جس قدر گورنر کو اختیارات دے دئے گئے ہیں انہیں " وائسرائے اسٹیٹ بینک "کا ٹائٹل دے دینا چاہیے۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ....
ماہر معاشیات ڈاکٹر سلمان شاہ کا اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 کے بارے میں کہنا ہے کہ نئے ترمیمی ایکٹ میں مانیٹری پالیسی کے ذریعے روپے کے استحکام جیسے معاملات ٹھیک کئے جائیں گے جس سے عام آدمی کو فائد ہ ہو گا۔اس نظام سےملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگاجس سے ملکی ترقی کیساتھ ساتھ عام آدمی کی آمدنی، روزگار اور غربت میں واضح کمی ہو گی۔اس ترمیمی ایکٹ 2021 کی طرح دنیا کے بہت سے ممالک اس طرح کے نظام کی طرف جا رہے ہیں۔
حال ہی میں برازیل کی پارلیمنٹ نے اسی طرح کا قانون پاس کیا ہے۔ ان کا مزید کہناتھا کہ یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ اس ایکٹ کے بعدگورنر اسٹیٹ بینک کو زیادہ اختیارات دئیے گئے ہیں اور کوئی بھی احتسابی ادارہ ان کے خلاف تحقیقات نہیں کر سکتامگر صورتحال یکسر مختلف ہے ۔صدر پاکستان کے پاس اختیارہے کہ وہ گورنر اسٹیٹ بینک کو انکے عہدے سے ہٹا دیں۔ڈاکٹر سلمان شاہ نے ترکی کے حالیہ معاشی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے سینٹرل بینک کے گورنر کو انکے عہدے سے معزول کردیا، اس عمل کے بعد ترکی کی کرنسی بری طرح متاثر ہوئی۔
جہاں تک ڈالر کی قیمتوں کے اتار چڑھاو کی بات ہے تو اسٹیٹ بینک ایسی پالیسی بنارہا ہے کہ ڈالر کے ریٹ ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کے مطابق چلائیں گے جبکہ مصنوعی طریقوں سے ڈالر کو اونچی اور نچلی سطح پر نہیں رکھاجائے گا۔ انہیں مصنوعی طریقوں سے حکومت کو قرضے لینے پڑتے ہیں ،ایکسپورٹ کو دھچکا لگتا ہے اور بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نئی پالیسی بنا رہی ہے جس کے مطابق روپے کی قدر کو مناسب سطح پر رکھا جائے گا تاکہ ڈالر مستحکم رہے۔