یوں تو تاج محل بھارت کے شہر آگرہ میں ہے، جسے محبت کی یادگار کہا جاتا ہے۔ لیکن سندھ کے دو شہروں میں اس کی نقل تیار کی گئی ہے۔ضلع بدین کے شہر ٹنڈو باگو میں تالپور حکم رانوں کی نسل میں سے میر خدا بخش تالپور نے1947ء میں اپنی مرحومہ بیوی ’’صاحب خاتون ‘‘ کی یاد میں’’ صاحب محل‘‘ بنوایا تھا، جس کی تعمیر سے قبل انہوں نے آگرہ میں قیام کرکے شاہ جہاں کے بنوائے ہوئے تاج محل کا مشاہدہ کیا تھا ۔
شاہ جہاں او ر میر خدا بخش تالپور کی تقلید کرتے ہوئے سندھ کے صوبے میں ہی عمرکوٹ کے ایک رہائشی نے بھی محبت کی عظیم نشانی تعمیر کروائی ہے ۔ عمر کوٹ کے نزدیک گاؤں راجہ رستی کے دیہہ ڈھیبو کے رہائشی عبدالرسول پلی نے اپنی اہلیہ مریم کی وفات کے بعد گاؤں کے قبرستان میں ہی اس کی تدفین کی۔ اس کی قبر پر اپنی محبت کی یادگار تعمیر کرنے کاخیال آیا۔اپنے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس نے آگرہ کے تاج محل کی قد آدم تصویریں خریدیں۔ متعدد بار وہ خود بھارت گیا اور آگرہ میں کئی روز تک قیام کرکے وہ تاج محل کی عمارت کا چہار اطراف سے جائزہ لیتا رہا۔
گاؤں واپس آکراس نے اس کا نقشہ تیار کیا۔اس مرحلے کے بعد اس نے راج مستریوں کو ہدایات دیتے ہوئے مقبرے کی تعمیر شروع کرائی۔معماروں کے ساتھ وہ خود بھی تعمیری کاموں میں معاونت کرتا رہا۔ ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں محبت کےاس شاہ کار کی تعمیر مکمل ہوئی، جس پر تقریباً 20 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد عبدالرسول پلی نے راج ، مستری اور مزدوروں کو دوگنے معاوضے کے علاوہ انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ سندھ میں محبت کے دوسرے شاہ کار کو دیکھنے کے لیے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔
عمر کوٹ کے تاج محل کے تخلیق کار، عبدارسول پلی، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیںاور انہوں نے پوسٹ گریجویشن کے ساتھ قانون میں بیچلر زکی ڈگری بھی لی ہوئی ہے۔وکیل ہونے کے باوجود انہوں نے زمینداری کا پیشہ اپنایا تھا، جب کہ سیاست سے بھی ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔
اہلیہ کی وفات کے بعدانہوں نے سیاست اور دیگر دنیاوی امورکو خیرباد کہہ کر روحانیت اور ذکر و اذکاراور مراقبہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیااور اپنے شب و روز کا زیادہ حصہ مقبرے میں گزارتے ہیں۔۔ عبدالرسول پلی کے دادا، عبدالعلیم پلی ، برصغیر کے آخری انگریز حکمراں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے قریبی ساتھی تھے۔ وہ اپنے وقت کے بہترین نشانہ باز اور شکاری تھے۔