• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جرنیل راحیل شریف کے حالیہ اقدامات ساری قوم کے لئے فخر و انبساط کا باعث ہیں۔ ان اقدامات نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ مقدس گائے کوئی نہیں ہے۔ احتساب سب کے لئے ہے۔کرپشن کی اب اجازت نہیں ہے۔ لوٹا ہو ا مال برآمد بھی کروایا جا سکتا ہے۔لوگوں کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اس ملک میں انصاف بھی ہو سکتا ہے۔ عدل کی تلوار کسی پر بھی وار کر سکتی ہے۔ عہدے ، رینک ، سماجی حیثیت سے ماورا انصاف کا کٹہرا ہے۔ جہاں سب ایک ہیں۔ لوگ چاروں دانگ تحسین کے ڈونگرے بجا رہے ہیں۔ زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ شکریئے کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ پاک فوج پر فخر کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس لاجواب ادارے کی عظمت کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ لوگ اس لئے خوش ہیں کہ یہ مسرت انکو پہلے میسر نہیں آئی تھی۔ لوگ بے خبر تھے، دھند میں رہتے تھے۔ اس ایک اقدام سے انہیں روشنی ملی ہے زندگی ملی ہے۔ بہتری کا احساس ہوا ہے۔ ترقی کی امید ملی ہے۔ انصاف سے شناسائی ہوئی ہے۔ فرد کے اختیار کی رہنمائی ہوئی ہےاحتساب سب کا ہونا چاہئے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ، بیوروکریٹ ہو یا بزنس مین،وزیر اعظم ہو یا لیڈر آف دی اپوزیشن۔بے لوث احتساب میں اس قوم کی ترقی پوشیدہ ہے ۔ بے خوف عدل میں ہی اس ملک کا مستقبل دمک رہا ہے۔ حکومت کے کسی فرد کی کرپشن ثابت ہو تو اس کو سزا ملنی چاہئے۔ سیاستدان سے صرف الیکشن کا ووٹ احتساب نہ کرے۔ انکے اثاثوں کی تفصیلات بھی عوام کے اختیار میں ہوں ۔ بیوروکریٹ صرف سفید فائلوں کو سرمئی کر کے ریٹائر نہ ہو جائیں انکو بھی بے خوف عدل کا خوف ہو۔ بزنس مین امپورٹ ایکسپورٹ کے نام پر جو چاہے کریں اسکی اجازت نہ ہو۔ چند بدنام این جی اوز کے نام پر ملک کی بدنامی نہ ہو۔ سماجی کارکن چندے کی مد میں گھپلے نہ کریں اس کا بھی احتساب ہو۔ ٹیکس چور پس زنداں ہو۔ ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کی گرفتاری ہو۔ ایسا ہو جائے تو اس ملک کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ غربت مٹ سکتی ہے۔ افلاس ختم ہوسکتی ہے۔ تعلیم عام ہو سکتی ہے۔ صحت عامہ بہتر ہو سکتی ہے۔ انفرا سٹرکچر بن سکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہو سکتی ہے۔ گیس کے ذخائر دریافت کئے جا سکتے ہیں۔ بے روزگاروں کو ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ پاکستان دنیا کی نظروں میں معتبر ہو سکتا ہے۔چند لوگ جو یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ جن افسران کو برطرف کیا گیا ہے انکی پنشن اور میڈیکل کیوں قائم رکھی گئی ہے۔ایسے احباب سے درخواست ہے احتساب ، انقلاب نہیں ہوتا۔ ایک جادو کی چھڑی سے نہیں ہوتا۔شفافیت کے اس عمل سے گزرنے کے لئے نسلیں درکار ہوتی ہیں۔ زمانے لگ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم قدم پہلا قدم ہوتا ہے۔ یہ قدم جنرل راحیل شریف نے اٹھا لیا ہے۔ یہی راستہ متعین کرے گا۔ یہی منزل کی طرف لے جائے گا۔ اب جو سوال ہے کہ پہلے وزیر اعظم کا احتساب ہو یا دو سو لوگوں کا۔ سب کرپٹ پکڑے جائیں یا تفتیش، کیادھبہ کسی ایک در پر لگایا جائے ۔ یہ فروعی بات ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے اور جلد ہونا چاہئے۔ جیسے گھر سے آپ نے آغاز کیا ہے اسی طرح سب کو اپنے گھر صاف کرنے پڑیں گے۔ پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے آپ نے آغاز کر دیا ہے اوراب دیگر شعبہ جات میں بھی آپ سے اسی انصاف کی توقع ہے۔انصاف کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنے کی جسارت چاہتا ہوں۔سو ، دو سو کروڑ کا ٹیکہ اس ملک میں قومی خزانے کو لگتا ہی رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سے الاٹمنٹوں میں جو گھپلا ہوا ہے اسی سے اس کام کا آغاز ہوا ہے۔ حکومتیں آتی گئیں ذاتی خزانے بھرتے گئے۔ داد دیجئے اس ملک کو اور اس کے عوام کو جو اب تک نظریہ پاکستان پر قائم ہیں۔جو اب بھی بہتری کے خواہشمند ہیں۔ جو اب بھی روشن مستقبل کے لئے پر امید ہیں۔ جو اب بھی ووٹ ڈال کر جمہوریت کے ثمرات دیکھنے کے لئے فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ لوگ اور یہ ملک بڑا حوصلہ مند ہے۔ ایسے جھٹکے برداشت کرنے کی اب اسے عادت ہو گئی ہے۔کروڑوں، اربوں کے ہندسے اب پریشان نہیں کرتے۔اب اس ملک کے عوام کا حوصلہ دکھ اور غم میں بھی قائم رہتا ہے۔جناب والا آپ سے بس اتنی درخواست ہے کہ جب آپ نے یہ احتسابی عمل شروع کر ہی دیا ہے تو ایک نظر ان طالع آزمائوں کی طرف بھی ڈال دیجئے۔ جو ہر چند سالوں کے بعد ایوان حکومت میں چڑھ دوڑتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں کو اپنے بھاری بوٹوں تلے روند ڈالتے ہیں۔ آئین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ قانون کواپنی باندی کی طرح سمجھتے ہیں۔ لوگوں کے ووٹ کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ رائے عامہ کی تضحیک کرتے ہیں۔ عوام کو اپنی مرضی سے لگام دیتے ہیں۔ کرپشن اس وجہ سے پنپتی ہے۔ جھوٹے اور چھوٹے سیاستدان یہاں سے جنم لیتے ہیں۔ فیکٹریاں، شوگر ملیں، فارن اکائونٹ اور آف شور کمپنیاں ان سیاسی طور پر کمزور اور اقتدار کے بھوکے طالع آزمائوں کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔جناب اعلیٰ جب آپ اس مشن پر نکلے ہی ہیں تو ایک نظر ان دانشوروں پر بھی ڈالیں جو ملک میں جمہوریت کے خلاف فوج کو اکساتے ہیں۔ جو چند ٹکوں کی نوکری کے لئے ملک کو بیچ ڈالتے ہیں۔ لوگوں کے ووٹ لینے والوں کو، جمہوریت کا نام لینے والوں کو اس حد تک گراتے ہیں کہ سیاستدان اور ملک دوبارہ اپنے قدموں پر برسوں کھڑے نہیں ہو پاتے۔ پھرجب دوبارہ اس ملک میں ووٹ کا شور پڑتا ہے تو پھر کرپشن کا زور بڑھتا ہے۔ فیکٹریاں اور شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہی لگتی ہیں۔ مگر اس غلاظت کو صرف وقت ہی صاف کر سکتا ہے۔ عوام کا ووٹ ہی نیک و بد میں چھلنی کا کام کر سکتا ہے۔ اس چھلنی کو موقع ضرور دیجئے۔حضور عالی وقار جب آپ نے اس مقصد سے کرپشن کے خلاف جہاد کا آغاز کر ہی لیا تو ایک نگاہ دھرنے کے منصوبہ سازوں پر بھی ڈال لیجیے ۔ جمہوری حکومتوں کو کمزور کرنے کی روایت کو بھی توڑ ڈالئے۔موقع پرستوں اور طالع آزمائوںکا قلع قمع بھی کر ڈالئے۔دورن خانہ سازشوںکا منہ توڑ جواب دیجئے۔ سیاستدانوں کو رزیل سمجھنے والوں کو سمجھائیے۔
چیف جسٹس درست کہتے ہیں جمہوریت لولی لنگڑی سہی مگر یہی حل ہے ۔ اس سے بہتری ہوگی اسی سے ترقی ہو گی۔یہ آخری رستہ ہے۔ اس ملک نے بہت دکھ دیکھا ہے۔ اس وطن نے کرپشن کے بہت زخم سہے ہیں۔ مفاد پرستوں نے جی بھر کر اس ارض پاک کو لوٹا ہے۔اب اس کی درست سمت متعین کیجئے۔ جمہوریت کی گاڑی کو ٹوٹی پھوٹی پٹری پر چلنے میں مدد کیجئے۔ شکریہ راحیل شریف کہنے کا اصل موقع دیجئے۔
تازہ ترین