• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھر کابینہ میں ردوبدل۔ کیا اس میوزیکل چیئر کھیلنے سے وزراء متحرک ہوتے ہیں؟ کیا ان میں توانائی آجاتی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے تو پھر کیوں آئے دن وزارتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ کیا یہ تاش کے پتے ہیں کہ " پھٹنے کےبعد زیادہ بہتر رہیں گے"۔ مزے کی بات یہ کہ گھوم پھر کے وہی چہرے کوئی نیا چہرہ بھی نہیں تلاش کیا جاتا۔ ایسے میں تبدیلی تو دور کی بات کچھ بہتری کی بھی امید نظر نہیں آتی۔ ڈھائی سال میں ایک شخص گھوم پھر کے پانچ سے چھ وزارتوں کا وزیر رہتا ہے۔ کیسے ممکن ہے وہ اس قلیل مدت میں ان میں سے کسی وزارت کو اور اس کے معاملات کو درست طور پر سمجھ بھی پائے ۔ بتا نہیں کیوں وزارتوں کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے کہ اب اس کھیلونے سے کھیلتے ہیں اور دل بھر جائے تو کسی اور سے ۔ہمارے ہاں ہر بات میں مثال ترقی یافتہ ممالک کی دی جاتی۔ خاص طور پر امریکہ کی۔ ذرا معلوم کرلیں وہاں کس طرح وزارت کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر وزیر اپنی وزارت کا ماہر ہو، خارجہ کا وزیر خارجی امور پر مہارت رکھتا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر اس میدان کا ماہر ہوتا ہے، خزانہ اور مرکزی بنک کے ذمہ دار معاشی امور کے ماہرین ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام وزیر اپنی اپنی وزارت ماہر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں طرح نہیں کہ جس نے پارٹی فنڈز زیادہ دیئے وہ وزارت کا حق دار ، جس نے جلسے جلوسوں میں بڑھ بڑھ کر نعرے لگائے وزارت کا حق دار، جس نے ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر پارٹی لیڈر کی شخصیت کا دفاع کیا وزارت کا مستحق قرار، جس نے میڈیا سے گفتگو میں مخالفین پر کیچڑ اچھالے اور پارٹی لیڈر کی شان میں قصیدے پڑھے وزارت کا اہل قرار۔کیا اہلیت کے صرف یہی پیمانے ہیں؟ کیا شخصیت پرست ہی ملکی معاملات کی زیادہ بہتر سمجھ رکھتا ہے یا وہ اپنے لیے راستہ ہموار کرنا جانتا ہے۔ اس کو پتا ہوتا کہ اس کو اپنی مطلوبہ منزل حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا ہے کس طرح لیڈر کی خوشامدی بن کر منظور نظر رہنا۔ کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ خوشامد ہر کسی کو پسند ہوتی اور جب خوشامدی صرف تعریفوں کے پل ہی باندھتا ہو تو کس کو برا لگے گا؟ ایسے میں وزارت پکی ہونی ہی ہے۔ ملکی معاملات درست ہوں یا نہ ہوں اس سے کس کو غرض ۔ اپنے مصاحبین(خوشامدی ) سلامت رہیں ۔ جو ہر دم صرف سب اچھا ہے کی گردان کرتے ہوں اور ساتھ ساتھ یہ لقمہ بھی لگاتے ہوں کہ حضور کا اقبال بلند ہو ، حضور کی بدولت ہی حالات بہت تیزی بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ حضور کا وجود قوم کے لیے بے حد اہم ہے۔ اور حضرت اس خوش فہمی میں "میں میں" کی گردان بڑھاتے جارہے ہیں۔ یہ "میوزیکل چیئر کھیلنے والے" وزراء حضور والا کو اتنا "چین چین" دکھاتے ہیں کہ "تبدیلی کی خواہش" صرف انہیں "عظیم وزراء" کی وزارت کی تبدیلی سے پوری ہوجاتی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کب تک وہی چہرے گھوم پھر آتے رہیں گے؟ کب تک "خوشامد پسندی میرٹ " پر حاوی رہے گی؟ کب یہاں میرٹ کی بنیاد یعنی قابلیت کی بنیاد پر وزارتیں ملیں گی؟ کب قومی اداروں کی سربراہی اہل افراد کریں گے؟ کب ہم ترقی کا سفر شروع کریں گے؟ کب ہم تعلیم اور عوامی صحت کو ہر حال میں فوقیت دیں گے؟ کب سروسز سیکٹر ز کے مقابلہ میں پیداوار کے شعبہ کو زیادہ اہمیت دیں گے؟ فیشن میں نمبر ون نہیں سائنس کے میدان میں نمبر ون ہونا ہے۔ ہر کسی کو پہلے گھر نہیں پینے کا صاف پانی دینا ہے۔ امپورٹڈ گاڑیاں نہیں بنیادی سہولیات ہر کسی کو فراہم کرنا ہے۔ بھیک مانگنے کی بجائے اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے انہیں استعمال کرنا ہے۔ لیکن کب؟ جب تبدیلی زبانی نہیں دماغی طور پر لانی ہوگی۔ اپنے حالات کے مطابق معاشی پالیسیاں بنانا ہونگی کسی سے ڈکٹیشن لیکر نہیں۔ صرف اس کے لیے ہمت چاہیے حالات سازگار ہیں۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین