• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس عیسیٰ فیملی کی لندن جائیداوں پر FBR رپورٹ طلب

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار سے جسٹس عیسیٰ کے اہلخانہ کی لندن جائیداوں پر ایف بی آر کی رپورٹ طلب کرلی، جسٹس عیسیٰ نے رپورٹ خفیہ رکھنے پر اعتراض اٹھا دیا اور دلائل دیے کہ ان کے خلاف کیس تاخیر کا شکار کرنے کے لیے کئی بار ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی، سماعت میں قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فروغ نسیم عدالت میں جھوٹ بول کر جرم کے مرتکب ہوئے، فروغ نسیم نے طنز کیا کہ کیا سلائی مشین چلا کر اتنے پاؤنڈ کی پراپرٹی بنائی،میں فروغ نسیم کو تضحیک آمیز دلائل سے روکنے پر جسٹس قاضی امین کا شکر گزار ہوں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ سرینا عیسیٰ کو ذاتی کام کی بنا پر دلائل کی اجازت دی جائے، جس کے بعد سرینا عیسیٰ روسٹرم پر آگئیں، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ اپنے دلائل کو جتنا ممکن ہو مختصر رکھیں۔

سرینا عیسیٰ نے دلائل میں کہا کہ مرکزی کیس فیصلے میں 194 بار میرا اور میرے بچوں کا تذکرہ کیا گیا، ہم تو مرکزی مقدمے میں فریق ہی نہیں تھے، عوامی سطح پر ہمارے اہلخانہ کی تضحیک کی گئی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ مرکزی مقدمے میں آپ کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ موجود ہے، آپ مرکزی کیس کے ریکارڈ سے دلائل دیں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی، آپ اس کیس میں تھرڈ پارٹی ہیں، آپ کو دفاع کا موقع دیا تھا، آپ کابراہ راست اس کیس سے تعلق نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس فائز عیسیٰ کا نام لیے بغیر ریمارکس میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جج کا کنڈکٹ زیربحث رہا، درخواست گزار تو سپریم جوڈیشل کونسل جانا ہی نہیں چاہتے،اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میرے سپریم جوڈیشل کونسل میں نہ جانے سے متعلق بات حقائق کے منافی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے بتایا کہ مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس دیا لیکن مکمل دفاع کا حق نہیں دیا گیا، میں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں مجموعی طور پر 5 جوابات جمع کرائے، میں نے جوڈیشل کونسل کارروائی ملتوی کرنے کیلئے ایک درخواست بھی نہیں دی۔

سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ میں نے مرکزی کیس کی ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ کیلئے رجسٹرارسپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، مجھے رجسٹرارسپریم کورٹ کی طرف سے کیس کا ٹرانسکرپٹ ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ کیس کا ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ فراہم کرنے کا توعدالتی فیصلہ موجود تھا، تسلیم کرتے ہیں آپ عدالتی کارروائی کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، یہ کیس غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذریعہ آمدن کا ہے، کیا آپ نے ایف بی آر کی طرف سے عائد کردہ جرمانہ ادا کیا؟

سرینا عیسیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جرمانہ ادا نہیں کیا، جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایف بی آر کے آرڈر کو چیلنج کیا؟ سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ جی ہم نے ایف بی آر آرڈر کو متعلقہ فورم پر چیلنج کر رکھا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب غیر ملکی جائیدادیں خریدی گئیں اس وقت میرے بچے بالغ تھے۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کیوں اپنی 3 بیویوں اور3 بچوں کے اثاثے ظاہرنہیں کر رہے؟وزیراعظم عمران خان آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اترتے، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیس فیصلے میں لکھا انکم ٹیکس شق 116مبہم ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون کی شق116 کو مبہم قرار دینا آپ کے حق میں ہے، سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ میں 1982 سے ٹیکس ادا کررہی ہوں، کمرہ عدالت میں موجود ایسے کتنے افراد ہیں جو 1982سے ٹیکس دے رہے ہیں؟

جسٹس منیب اختر نے سرینا عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ میں کہا گیا آپ کے بیان میں تضاد ہے، آپ کا موقف ہے کہ ایک بیرون ملک جائیداد آپ کی ہے، دیگر دو بیرون ملک جائیدادیں بچوں کی ہیں، ایف بی آر کہہ رہا ہے دیگر 2 جائیدادوں میں آپ 50 فیصدکی شیئر ہولڈرہیں، اس سوال کا جواب ایف بی آر میں نہیں دیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایف بی آر کےمطابق آپ نے بچوں کی تعلیم کے لیے پیسہ باہر بھجوایا تھا، اس موقع پر سوال پوچھنے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منیب اختر میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، فائز عیسیٰ نے کہاکہ ایف بی آر کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے، میری اہلیہ وکیل نہیں ان سے ایسے سوال نہ پوچھیں۔

جسٹس منیب اختر کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی آپ مداخلت نہ کریں، آپ چپ کر کے بیٹھ جائیں، سرینا عیسٰی خود دلائل دے رہی ہیں تو سوال کے جواب بھی دیں گی۔

سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ بینک عملے نے فارم بھرے تھے میں نے صرف دستحط کیے، ایک بیرون ملک جائیداد میری ہے، باقی 2 جائیدادوں میں شیئر ہولڈر ہوں، میں 100 فیصد جواب دے چکی ہوں، میرا موقف کبھی نہیں بدلا، یہ بہت پرانا معاملہ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال سورس آف فنڈز کا ہے، سرینا عیسیٰ نے کہا کہ سابق چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان نےجسٹس فائزعیسیٰ کیخلاف تحقیقات کی منظوری نہیں دی،جہانزیب خان کو تحقیقات کی منظوری نہ دینے پر عہدے سے ہٹایا گیا، جہانزیب خان نے شہزاد اکبر کی غیرقانونی فرمائش پوری نہیں کی تھی۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر کمشنر نے قرار دیا میں اثاثے چھپانے کی مرتکب ہوئی ہوں، شہزاد اکبر پی ٹی آئی کے ممبر اور غیرمنتخب شخص ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پیسہ باہر جانا ثابت ہورہا ہے تو مقصد معنی نہیں رکھتا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ پیسہ تعلیم کے لیے بھجوا کر فلیٹ خریدنا غیر قانونی نہیں؟ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اصل بات یہ ہے پیسہ بینک کے ذریعے بھیجا گیا ہنڈی کے ذریعے نہیں،سارا پیسہ آپ کا تھا تو بات ختم، بات ختم ہونے کا مطلب ہے یہ نقطہ مکمل ہوگیا کیس ابھی چل رہا ہے۔

جسٹس عمر عطابندیال کی بات پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے،سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عدالت میرے متعلق فیصلے میں لکھی گئی آبزرویشن حذف کرے، شہزاد اکبر عمران خان کے متوازی حکومت چلا رہے ہیں، میں اور میرے بچے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے زیر کفالت نہیں، عمران خان نے بھی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے، عمران خان بطور وزیراعظم عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں؟ عمران خان نے ٹیکس گوشواروں میں سچ نہیں بولا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کو سمجھنا ہوگا ریفرنس عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے، آپ کے تمام دلائل ریفرنس کے خلاف ہیں، آپ کا معاملہ صرف کیس ایف بی آر کو بھجوانے تک ہے۔

اس موقع پر عدالت نے جسٹس فائزعیسی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی، سرینا عیسیٰ کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گی۔

تازہ ترین