• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کی اچھی پرورش کی ذمہ داری والدین کو سونپی گئی ہے، آج کے زمانے میں اکثر خاندانوں کو ہر طرف سے خلفشار کا سامنا ہے، مختلف وجوہات کی بناء پر والدین اضطراب کا شکار ہیں اور اپنے بچوں کو وہ توجہ نہیں دے پاتے، جس کے وہ حقدار ہیں۔ ایسے میں والدین یہ بھی نہیں جان پاتے کہ ان کے بچے کس طرح کی شخصیت میں ڈھل رہے ہیں۔

انسانی نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ، بچے اپنے والدین کی کہی ہوئی باتوں سے زیادہ ان کے عمل کا اثر لیتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، والدین اپنے بچوں کو جس طرح کی شخصیت میں ڈھالنا چاہتے ہیں، وہ خود بھی ویسے بنیں۔ ہاں، والدین اپنے بچوں کو اچھی باتیں ضرور بتائیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ والدین اپنے عمل اور کردار سے انھیں ویسا بن کر دِکھائیں۔

بچوں سے دوستی

والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا دوست بناکر رکھیں، جن سے وہ اپنی زندگی کی ہر بات بلاجھجک کرسکیں۔ جن بچوں کو نوعمری میں اپنے والدین کی دوستی میسر نہیں آتی، ٹین ایج میں وہ اپنے لیے باہر کی دنیا میں دوست تلاش کرتے ہیں، جن کے سامنے وہ اپنے دل کی باتیں بیان کرسکیں۔ ایسے میں والدین کے لیے سب سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ انھیں خصوصاً اپنے بچوں کے معاملے میں’’سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا‘‘ ہونا چاہیے۔

آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بِلاجھجک آپ سے بات کریں تو اس کے لیے آپ کو نوعمری سے اُنہیں احساس دِلانا چاہیے کہ آپ اُن کی بات سننے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ اگر سب گھر والے صلح سے رہتے ہیں تو بچے آسانی سے اپنے احساسات کا اِظہار کر پائیں گے لیکن اگر اُنہیں لگتا ہے کہ آپ اُن کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے یا اُن پر نکتہ چینی کریں گے تو شاید وہ آپ سے کُھل کر بات نہ کریں۔ بچوں کے ساتھ بڑے صبر سے پیش آئیں اور اُنہیں اپنے پیار کا یقین دِلاتے رہیں۔ صرف اُس وقت بچوں سے بات نہ کریں جب اُنہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو بلکہ باقاعدگی سے اُن سے بات کرتے رہیں۔

معنی اَخذ کرنا

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ، بچوں کے ساتھ بات کرتے وقت اپنے دل و دماغ کو ان کی ہر طرح کی باتیں سُننے اور انھیں توجہ دینے کے لیے تیار رکھیں۔ جب آ پ کا بچہ کوئی بات کہتا ہے تو آپ کو اِس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ وہ کوئی بات کیوں کہہ رہا ہے۔ 

بچے اکثر کسی بات کو ذرا بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں یا اُن کے مُنہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیں، جو اصل میں اُن کے دل میں نہیں ہوتیں۔ بات سُننے سے پہلے ہی جواب دینے کی عادت حماقت اور جلدبازی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایک بات گرہ سے باندھ لیں کہ چاہے بچہ جو بھی کہے، آپ اُس کی بات نہیں کاٹیں گے اور نہ ہی غصے میں آئیں گے۔

والدین میں اتحاد

اپنے بچوں کو سکھائیں کہ اُنہیں آپ کا کہنا ماننا چاہیے اور آپ کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر ماںباپ کسی معاملے میں ایک ہی سوچ اور ایک ہی رائے نہیں رکھتے تو بچوں کو اِس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اِس لیے اگر آپ کسی بات پر متفق نہیں ہوتے تو بچوں پر ظاہر نہ ہونے دیں، ورنہ اُن کے دل میں آپ کے اِختیار کے لیے احترام کم ہو جائے گا۔ آپس میں بات چیت کرنے کے بعد یہ طے کریں کہ آپ اپنے بچوں کی اِصلاح کیسے کریں گے۔

اصلاح کا مطلب سزا دینا نہیں

بچوں کی اچھی تربیت بیٹھے بٹھائے نہیں ہو جاتی۔ آپ کو پہلے سے طے کرنا چاہیے کہ آپ اُن کی تعلیم وتربیت کیسے کریں گے۔ تربیت کا ایک اہم پہلو اِصلاح بھی ہے لیکن اِصلاح کرنے کا مطلب صرف سزا دینا ہی نہیں۔ اِس میں بچوں کو یہ سمجھانا بھی شامل ہے کہ گھر میں فلاں اصول کیوں بنایا گیا ہے۔ اِس طرح وہ اچھے اور بُرے میں اِمتیاز کرنا سیکھیں گے۔

گھر کا ماحول سب سے اہم ترین عنصر ہے جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر انحصار کرتا ہے جو اس کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ والدین بچوں کے پہلے معلمین ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے خوش قسمت ہیں کہ جنھیں اپنے والدین کی محبت اور شفقت سے بھرپور مطلوبہ گھریلو ماحول ملتا ہے۔

کتب سے تعلق

بچے کے اخلا ق کی تعمیر گھر کی تربیت کرتی ہے۔ والدین اچھی تربیت کے ذریعے بچوں میں کتابوں سے انسیت اور تعلیم سے محبت پیدا کر سکتے ہیں۔ بچے کی تعلیم میں سب سے پہلا قدم اس کے اور کتابوں کے درمیان رشتہ پیدا کرنا ہوتاہے۔ 

اکثر والدین سمجھتے ہیں کہ بچے کو اسکول میں داخل کروانے کے بعد اور اس کے لیے ایک ٹیوٹر کا انتظام کرکے ان کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے ،لیکن ایسا نہیں ہے۔ والدین کو چاہیے کہ نوعمری سے ہی بچے کے سامنے رنگین تصاویر والی کتابیں رکھیں۔ بچہ ان رنگوں کو دیکھ کر اپنے اندر دلچسپی پید اکرے گا اور اس سے انہیں پڑھنے کی جستجو پیدا ہوگی۔

تازہ ترین