• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ منور، صادق آباد

ہم روزانہ مختلف قسم کے ترازو دیکھتے ہیں، مثلاً عام روزمرّہ کی اشیاء تولنے کا ترازو، سونے چاندی کا وزن کرنے کا ترازو۔ سائنس کی ترقی کے بعد تو اور بھی بہت سی ایسی چیزوں کو ماپا جاسکتا ہے، جن کا پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ 

مثلاً شوگر، بلڈ پریشر، ٹمپریچر وغیرہ…! اس تناظر میں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک ترازو خالقِ کائنات کا بھی ہے، میزانِ عدل۔ جس میں ہمارے اعمال کا وزن کیا جائے گاکہ جس نے اپنی زندگی ایمان اور اعمالِ صالح کے ساتھ گزاری ہوگی اور قانونِ خداوندی کو خضرِ راہ بنایا ہوگا، تو یقیناً اس کا تول بھاری نکلے گا۔ اوّل تو ایمان کا تول ہی وزن میں بھاری ہوگا، پھر نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، صدقات اور خیرات اللہ کے میزان میں بھاری ثابت ہوں  گے۔ نیز، خواہشات و لذات سے صبر، اللہ و رسول سے محبت جیسی حسنات نیکیوں کے پلڑے کو اور بھی بھاری بنادیں گی۔ 

قرآنِ کریم کی سورۃ القارعہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ: ’’کھڑکھڑا دینے والی، کیا ہے وہ کھڑکھڑا دینے والی؟ تمہیں کیا معلوم کہ وہ کھڑکھڑا دینے والی کیا ہے؟ (وہ روزِ قیامت ہے) جس دن لوگ ایسے ہوں گے، جیسے بکھرے ہوئے پتنگے، اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے، جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگی اون، پھر جس کے (اعمال کے) پلڑے بھاری ہوں گے، وہ دل پسند عیش میں ہوگا، اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے، اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے، اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا چیز ہے ؟ وہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔‘‘

تو معلوم یہ ہوا کہ اعمال کا وزن ہوگا، گنتی نہیںاور وزنِ اخلاص اور نیک اعمال سے بڑھتا ہے، پھر چاہے وہ تعداد میں کم ہوں، لیکن اُن کا وزن اُس شخص کے اعمال سے بڑھ جائے گا، جس نے بہت زیادہ نماز، روزے، صدقات و خیرات، حج و عمرے کیے، مگر اخلاص میں کمی رہی یا سنّت کی اتباع نہ کی۔ حدیثِ مبارکہؐ ہے کہ ’’تمام اچھے اعمال کی رُوح اور جان اخلاص ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف) اگر اعمال ظاہری طور پر اچھے ہیں، لیکن اخلاص سے خالی ہیں، تو وہ اللہ کے دربار میں ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتے کہ ایک سجدہ اتنا پُرخلوص اور اللہ کی رضا کے لیے ہو کہ ساری عُمر کے گناہوں کے پلڑے کو اٹھادے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ساری عُمر کی ریاضت کو کوئی ایک لغزش ضائع کردے۔ اللہ تعالیٰ کو اخلاص اتنا پسند ہے کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں فرمایا گیا ’’(خلوصِ دل سے) صدقہ کی گئی کھجور کو اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اسے اس طرح پالتا ہے، جس طرح تم اپنے بچھڑوں کو پالتے ہو۔ حتیٰ کہ اس کا ثواب اُحد پہاڑ کے برابر عطا فرماتا ہے۔ اور ریا، شہرت و نام نمود کے لیے کیے گئے اعمال ردّی قرار دے دیتا ہے۔

حدیثِ مبارکہؐ کے مطابق ایک مال دار سخی، شہید اور عالم کا قیامت والے دن حساب ہوگا، مگر ان تینوں کو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔ کیوں کہ اُن کے اعمال لوگوں کو دکھانے کے لیے تھے۔ اور دکھاوے کے لیے کیے گئے اعمال کا اللہ کے ہاں کوئی بدلہ نہیں۔‘‘ اسی لیے کسی بھی عمل کا مقصد اللہ کی رضا ہونا چاہیے۔ اللہ کی رضا حاصل کرنا دنیا کا مشکل ترین مگر یہی دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ پس، ہمیں اپنے ہر عمل میں اللہ کی رضا کو شامل کرنا چاہیے، حتیٰ کہ وہ عمل اللہ کی رضا سے بھر جائے اور اس میں ذراسی بھی ریاکاری، دکھاوا اور کھوٹ شامل نہ ہو، کیوں کہ دنیا میں لوگوں سے تعریف کروانے کے لیے کیے گئے اعمال پر روزِ قیامت پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:’’اور قیامت کے دن ہم انصاف والے ترازو کو درمیان میں لا کر رکھیں گے، تو پھر کسی پر کچھ ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر ایک دانے کے برابر بھی عمل ہوگا، ہم اسے ضرور حاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے کے لیےکافی ہیں۔‘‘(سورۃ الانبیاء/47)حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی کریم ؐنے فرمایا، ’’قیامت کے دن ایک ایسا بندہ آئے گا، جس کا اعمال نامہ مہر شدہ ہوگا۔ اُسے اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’یہ اعمال پیچھے ہٹادو اور یہ اعمال قبول کرلو۔‘‘ فرشتے عرض کریں گے ’’رب العالمین! تیری عزت کی قسم! ہم نے وہی لکھا، جو اس نے عمل کیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اس نے یہ عمل محض دکھاوے کے لیے کیا تھا، اور آج کے دن میں وہی اعمال قبول کروں گا، جو میری رضا کے لیے کیے گئے ہوں۔‘‘ تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ میزانِ عدل کے پلڑوں میں نیّت تولی جائے گی۔ اسی لیے صحیح بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ اور آخری حدیث ’’میزانِ عدل‘‘ ہی سے متعلق ہے۔ 

قبولیتِ اعمال کی شرط اخلاص ہے، تو وہ اُسی وقت پیدا ہوگا، جب اللہ کی محبّت دل میں ہوگی۔ شیطان کو دیکھیے کہ اس نے اللہ کی اتنی عبادت کی کہ زمین کے چپّے چپّے پر سجدہ کیا۔ ’’طائوس الملائکہ‘‘ کا لقب پایا، مگر پھر بھی مردود قرار پایا۔ اُس نے ایک سجدے سے انکار کیا اور راندئہ درگاہ کردیا گیا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھیے کہ انھیں طرح طرح سے آزمایا گیا، لیکن وہ اللہ کی رضا میں راضی رہے۔ خانہ کعبہ کی تعمیرکرتے وقت یہ دعا فرماتے ہیں ’’اے اللہ! تُو اس عمل کو ہم سے قبول کرلے، بے شک تُو سننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘ بیت اللہ کی تعمیر جیسا فضیلت والا عمل اور اس قدر جلیل القدر پیغمبر، پھر بھی خوفِ خدا کا یہ عالم ہے کہ کہیں ان کا یہ عمل رَد نہ ہوجائے۔ سو، قبولیت کی دعائیں بھی کررہے ہیں۔ 

پھر اللہ نے بھی انھیں ایسی قبولیت عطا فرمائی کہ سورۃ البقرہ آیت 124 میں ارشاد فرمایا، ترجمہ: ’’ابراہیمؑ کو اس کے ربّ نے کچھ باتوں میں آزمایا، تو انہوں نے اُن کو پورا کر دکھایا۔ اللہ نے فرمایا ’’تمہیں لوگوں کا پیشوا اور امام بنانے والا ہوں۔‘‘ پھر یہی نہیں، سورۃ النحل میں اپنے حبیبﷺ سے فرماتا ہے ’’اے محبوب ؐ )! ہم نے آپ ؐ کی طرف وحی کی کہ آپ بھی ملّتِ ابراہیمی کی پیروی کیجیے۔‘‘تو ہمیں بھی عمل کرنے کے بعد اس کے قبول ہونے کی فکرہونی چاہیے کہ ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوجائیں۔ کیوں کہ وہ ربّ چاہے، تو بلعم بن باعورا کو چار سو سال کی عبادت کے باوجود پھٹکار کر رکھ دے۔ اور قرآن میں اس کی مثال کتّے کی مانند بیان فرمائے، ’’اور چاہے، تو ایک فاحشہ کو پیاسے کتّے کو پانی پلانے کی وجہ سے بخش دے۔‘‘ یہ تو اس کی رحمتِ کاملہ پر منحصر ہے۔ 

قبولیت کا اصل اعلان تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہوگا، جب اعمال کا وزن کیا جائے گاکہ؎ کون مقبول ہے، کون مردودہے،بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے.....جب تُلیں گے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے۔

اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ہمارے اعمال کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے ان کے وزن کے پلڑے کو بھاری کردے۔ (آمین)

تازہ ترین