’’15 مارچ کی شام غنی چورنگی پہ واقع ٹیکسٹائل فیکٹری میں ڈیوٹی انجام دے کر گھر واپس جا رہا تھا۔ مواچھ گوٹھ جانے کے لیے ہمیشہ کی طرح مصروف شاہ راہ، حب رِیور روڈ سے گزرنا تھا۔ اُس روزسڑک پر غیر معمولی رش تھا، گاڑیاں رینگ رینگ کر چل رہی تھیں۔ گرمی، دھویں اور گاڑیوں کے شور سے ہر فرد بے حال اور جھنجھلاہٹ کا شکار تھا۔
کچھ دیر بعد جب ٹریفک کی روانی بحال ہوئی، تو مَیں نے بھی اپنی موٹر سائیکل کی رفتار بڑھا دی۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ آگے ایک ناگہانی آفت منتظر ہے، تو کبھی جلد بازی نہ کرتا۔ خیر، ابھی چند میل ہی کا فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک ناردرن بائی پاس سے نیچے اُترنے والی تیز رفتار مال بردار سوزوکی، میری موٹر سائیکل سے آن ٹکرائی ہو اور مَیں قلابازیاں کھاتا سڑک کے عین وسط میں جا گرا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
ہوش آیا، تو خود کو اسپتال کے بیڈ پر پٹیوں میں جکڑاپایا۔ اُٹھنے کی کوشش کی، تو پورے جسم سے شدید ٹیسیں اُٹھنے لگیں۔ بستر کے پاس کھڑے غم زدہ بھائی نے سہارا دے کر دوبارہ لٹا دیااور بتایا کہ ’’ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں آپ کی ٹانگ کی ہڈی تین جگہ سے ٹوٹ گئی ہے۔‘‘ یہ سُن کر دل ڈُوب گیا کہ مجھ جیسے مفلس و نادار کے علاج کے اخراجات کون اٹھائے گا۔ اگر مَیں ہی بستر سے لگ گیا، تو میرے زیرِ کفالت افراد کا کیا ہوگا۔ تاہم، جب علاج معالجہ شروع ہوا اور مَیں نے ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملے کا مریضوں سے حُسنِ سلوک دیکھا، تو مجھ میں جینے کی ایک نئی اُمنگ پیدا ہو گئی۔
اسپتال کا ماحول اور علاج کی سہولتیں دیکھ کر سرکاری اسپتال کا گمان تک نہ ہورہا تھا اور بالآخر وہ دن بھی آ گیا کہ جب میری ٹانگ کی تین جگہ سے کام یاب سرجری ہوئی اور ڈاکٹر نے مجھے جلد ہی گھر جانے اور اپنے پَیروں پر کھڑے ہونے کی نوید سنائی۔‘‘ یہ الم ناک لیکن کسی حد تک خوش کُن روداد شہید محترمہ بے نظیر بُھٹّو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما میں زیرِ علاج کراچی کے علاقے، بلدیہ ٹائون کی ایک کچّی بستی کے 28 سالہ رہائشی ، عبدالغفار کی ہے۔ آرتھو پیڈک ٹراما یونٹ کے بستر پر بیٹھےاس نوجوان نے اپنی بات ختم کی تو آنکھوں میں شکرانےکے آنسو جھلملا رہے تھے ۔
کراچی جیسے گُنجان آباد شہر میں ٹریفک حادثات معمول ہیں اور بر وقت علاج کی سہولتوں کی کمی کے سبب ہر سال اَن گنت افراد اپنے قیمتی اعضا سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر اُن کی زندگی کے چراغ گُل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں شہر کے مرکز میں قائم ’’شہید محترمہ بے نظیر بُھٹّو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما ‘‘عبدالغفّار جیسے حالات کے مارے افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ٹراما سینٹراسٹیٹ آف دی آرٹ، 14منزلہ عمارت اور500 بستروں پر مشتمل سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں قائم کیا جانے والا مُلک میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔
اس کا شمار ایشیا کے چند بڑے درجۂ اوّل کے ٹراما سینٹرز میں ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ درجۂ اوّل یا لیول وَن کیٹیگری میں ایسے ٹراما سینٹرز شامل ہوتےہیں کہ جہاں حادثات کے نتیجے میں شدیدزخمی ہونے والے افراد کو ایک چھت تلے علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں بروقت دست یاب ہونے کے علاوہ ریسرچ کی سہولت بھی موجود ہو۔ آغاز سے لے کر اب تک یہ ادارہ نورانی اور سیوھن بم دھماکوں سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات میں زخمی ہونے والے افراد کوعلاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کے علاوہ اندرونِ سندھ، بلوچستان، زیریں پنجاب، افغانستان اور ایران میں مختلف حادثات میں زخمی ہونے والوں یا دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کوبھی 24گھنٹے علاج معالجے کی سہولت بالکل مفت فراہم کر رہا ہے۔
ٹراما سینٹر میں روزمرّہ حادثات کے زخمیوں کے علاوہ ایمرجینسی میں لائے گئے کووِڈ- 19 کے مریضوں کا علاج بھی کیا جا رہا ہے ۔ نیز، یہ ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بھی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بُھٹّو زرداری نے 2016ء میں اس ٹراما سینٹر کا افتتاح کیا، جب کہ اس منصوبے پرکام کا آغاز 2007-08ء میں ہوا ۔ ابتدائی منصوبے میں یہ 6 منزلہ عمارت پر مشتمل تھا۔ تاہم، بعدازاں اسے 14 منازل تک توسیع دی گئی۔ نیز، ٹراما سینٹرز کے بین الاقوامی معیارات کے پیشِ نظر حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کو جائے وقوع سے بحفاظت اسپتال منتقل کرنے کے لیے ہیلی پیڈ بھی تعمیر کیا گیا۔
اس وقت پلاسٹک سرجری اینڈ برنس یونٹ کے علاوہ ٹراما سینٹر کے تمام یونٹس مکمل طور پر فعال ہیں، جب کہ مذکورہ یونٹ بھی جلد ہی آپریشنل ہو جائے گا۔ٹراما سینٹرکی تعمیر پر کُل 6 ارب روپے لاگت آئی ۔ ابتدا میں اسے صرف ٹراما سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ،مگر بعد ازاںباقاعدہ انسٹی ٹیوٹ کی شکل دے دی گئی۔ اس کے اہم شعبہ جات میں نیورو سرجری، ویسکیولر سرجری، آرتھو پیڈک ٹراما، ایمرجینسی میڈیسن اور کارڈیو تھوریسک سرجری شامل ہیں ۔ ان تمام یونٹس میںاعلیٰ تربیت یافتہ، تجربہ کار سرجنز اور دیگر اسٹاف پوری تن دہی سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔
چوں کہ یہاں بلا معاوضہ معیاری علاج فراہم کیا جارہا ہے، اس لیے پورے مُلک سے مریض آتے ہیں۔ اور مریضوں کی کثرت اور محدود وسائل کے سبب عموماً تمام بیڈز بھرے ہی نظر آتے ہیں ۔ نتیجتاً مریضوں کی بڑی تعداد ’’ویٹنگ‘‘ پر ہوتی ہے۔ نیز، ڈاکٹرروتھ فائو سوِل اسپتال کے نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ کے مریضوں کا علاج بھی یہیں کیا جاتا ہے۔ ٹراما سینٹر میں انٹروینشنل ریڈیا لوجی، آرتھو پیڈکس ٹراما، اورل اینڈ میگزیلو فیشل سرجری، کارڈیو تھوریسک سرجری، آپتھالومولوجی، نیورو سرجری، انفیکشیئس ڈیزیزز، ایمرجینسی، لیبارٹری، فارمیسی، اینستھیسیا اینڈ آئی سی یو اور آپریشن تھیٹرز کی سہولت دست یاب ہے۔
آرتھو پیڈکس ٹراما اور ایمرجینسی میڈیسن کے علاوہ باقی تمام ڈیپارٹمنٹس ٹریننگ کے لیے ایف سی پی ایس(فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان) سے تسلیم شدہ ہیں ۔ یہاں میڈیکل یونٹ کی سہولت نہیں ، سرجیکل یونٹ قائم ہے اور میڈیکل یونٹ کے تمام اُمور کی نگرانی سول اسپتال کرتا ہے، جہاں 5 میڈیکل وارڈز قائم ہیں۔ ٹراما سینٹر میں بین الاقوامی معیار کے حامل 18 آپریشن تھیٹرز ہیں، جن میں سے 10 چھٹے فلور پر ، 5 آئی آپریشن تھیٹرز نویں فلور پر ، بارہویں فلور پر نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ کے 2 آپریشن تھیٹرز ہیں اور ایک تھیٹر میں میگزیلو فیشل سرجری کی جاتی ہے۔ ان میں3 تھیٹرز ایمرجینسی میں لائے گئے مریضوں کی سرجری کے لیے 24 گھنٹے فعال رہتے ہیں۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما سینٹر کا نظم و نسق بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے، جس کے ارکان کا انتخاب سندھ اسمبلی سے منظور شدہ چارٹر کے تحت ہوتا ہے۔ بورڈ کا چیف پیٹرن ،سندھ کا وزیر اعلیٰ اور سربراہ وزیرِ صحت ہے۔ یہ بورڈ شہر کے معروف معالجین، مخیّر افراد اور سماجی کارکنان کے علاوہ سیکریٹری ہیلتھ، سیکریٹری فنانس، ایم ایس سول اسپتال، وائس چانسلر ،ڈائو یونی ورسٹی پر مشتمل ہے۔ ٹراما سینٹر ڈائو یونی وَرسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے الحاق شدہ ہے۔
سول اسپتال میں ایمرجینسی میں لائے جانے والے سرجیکل اور ٹراما کے مریضوں کا علاج یہیں کیا جاتا ہے اور ایمرجینسی ختم ہونے کے بعد انہیں سول اسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ٹراما سینٹر میں ڈائو یونی ورسٹی سے فارغ التّحصیل ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔البتہ ،دوسرے سرکاری اور نجی میڈیکل کالجز کے طلبہ یہاں انٹرن شپ کر سکتے ہیں۔ ٹراما سینٹر کی ایمرجینسی 24 گھنٹے آپریشنل ہے، جہاں ہمہ وقت ایکس رے سے لے کر آپریشن تک کی سہولت دست یاب ہے۔
ایمرجینسی اسٹاف 250 سے 300 افراد پر مشتمل ہے۔ جب کہ پورے اسپتال میں تین شفٹس میں 1100 سے 1200 افراد پر مشتمل عملہ فرائض انجام دیتا ہے اور پلاسٹک سرجری اینڈ برنس یونٹ فعال ہونے کے بعد اسٹاف کی تعداد 1500 تک پہنچ جائے گی۔ ٹراما سینٹر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں مریضوں کو سرنج تک کے لیے باہر نہیں جانا پڑتا۔ انہیں تمام تر سہولتیںایک ہی چھت تلے مفت دست یاب ہیں۔ حتیٰ کہ زیرِ علاج مریضوں کو غذائی ماہرین کی نگرانی میں تیار کردہ خوراک بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔
ٹراما سینٹر میں جنرل او پی ڈی کی سہولت موجود نہیں ۔ البتہ، آپریشن کروانے والے مریضوں کو یہ سروس فراہم کی جاتی ہے۔ ٹراما سینٹر اور سول اسپتال کی کئی خدمات مربوط ہیں۔ مثال کے طور پر بنیادی لیبارٹری ٹیسٹ ٹراما سینٹر ہی میں ہوتے ہیں، جب کہ خصوصی ٹیسٹ سول اسپتال کی لیبارٹری میں کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح نیورو سرجری کی او پی ڈی سول اسپتال کی او پی ڈی میں ہوتی ہے لیکن جب مریض کو وارڈ میں داخل کیا جاتا ہے تو پھر اس کاعلاج معالجہ ٹراما سینٹر کی ذمّے داری ہے اور آپریٹ ہونے کے بعد اس کی او پی ڈی بھی ٹراما سینٹر ہی میں ہوتی ہے۔
یہاں مختلف شعبہ جات کی ایمرجینسی میں یومیہ 400 مریض آتے ہیں ، جن کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈائلیسز کی سہولت بھی موجود ہے۔ کینسر کے مریضوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ کارڈیک سرجری کی سہولت بھی دست یاب ہے۔ اسپتال میں بچّوں کے امراض کا کوئی باقاعدہ شعبہ قائم نہیں اور بوقتِ ضرورت سول اسپتال کے گائنی وارڈ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ٹراما سینٹر کے ایمرجینسی نمبرز بھی ہیں اور اگر سول اسپتال میں بھی ٹراما کے لیے کوئی کال آتی ہے تو اسے یہاں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔
ٹراما سینٹرکے سروے کے دوران ہماری آرتھو پیڈک ٹراما یونٹ کے سربراہ، ڈاکٹر عامر حلیم سے بھی بات چیت ہوئی۔ ڈاکٹر عامر نےبتایا کہ ’’ مَیں یہاں2016ء سے، ادارے کے قیام کے وقت سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔ہمارے پاس کراچی کے علاوہ اندرونِ سندھ ، بلوچستان اور پنجاب سے بھی مریض آتے ہیں اور یہاں ہر قسم کی ہڈیوں کی سرجری کی جاتی ہے۔ ہم سالانہ 1500بڑی سرجریز عالمی معیار کے مطابق مفت کرتے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ ہمارے پاس آنے والے اکثر مریضوں کی ہڈیاں ایک سے زاید مقامات سے ٹوٹی ہوتی ہیں اور بعض اوقات کوئٹہ یا جیکب آباد وغیرہ میں حادثات کا شکار ہونے والے مریض واقعے کے 3 سے 4 روز بعد بھی پہنچتے ہیں۔
تاہم، اس کے باوجود ہماری سرجریز کی کام یابی کا تناسب خاصا بہتر ہے۔آپریشن تھیٹرز میں نجی اسپتالوں سے بھی بہتر سہولتیں دست یاب ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہماری پوری ٹیم اعلیٰ تربیت یافتہ ہے، جو پوری دل جمعی سے اپنی ذمّے داریاں انجام دیتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ آرتھو پیڈک وارڈ میں ہمہ وقت 40 مریض موجود ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر کی ایک سے زاید انجریز ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر آج ہی مَیں نے تین مریضوں کی 7 سرجریز کیں۔ ہمارے پاس بعض اوقات ایسے مریض بھی آتے ہیں کہ جن کے بازو یا ٹانگیں جسم سے بالکل الگ ہو جاتے ہیں اور ہم انہیں ’’ری کنسٹرکٹ‘‘ کر کے گھر بھیجتے ہیں۔‘‘اس موقعے پر ہماری ویسکیولر سرجری یونٹ کے سربراہ، ڈاکٹر محمّد فہد طارق سے(جنہوں نے 2016ء میں اس شعبےکی بنیاد رکھی) بھی بات چیت ہوئی۔
انہوں نے ڈائو یونی وَرسٹی کے سرجیکل یونٹ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں، آغا خان یونی ورسٹی اسپتال میں ویسکیولر سرجری کی ٹریننگ حاصل کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما، سندھ کا واحد ادارہ ہے ،جو 24گھنٹے ویسکیولر سرجری کی مفت خدمات فراہم کرتا ہے۔ ہمارے یونٹ میں ایسے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے ،جن کی رگوں کومختلف حادثات میں نقصان پہنچتا ہے اور خون کی فراہمی منقطع ہونے کی وجہ سے ان کے متاثرہ اعضا ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہم انجیو پلاسٹی اور انجیو گرافی سمیت دیگر پیچیدہ پروسیجرز کے ذریعے ان رگوں کو کھول کر متاثرہ اعضا کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔
ٹراما سینٹر کے قیام سے قبل سول اسپتال میں بھی ایک ویسکیولر سرجری یونٹ قائم تھا، مگر جب وہاں سے کوئی سرجن چھوڑ کر چلا جاتا تو خدمات میں تعطل آجاتا۔ چوں کہ ہماررا یونٹ ٹریننگ کے لیے ایف سی پی ایس سے تسلیم شدہ ہے، لہٰذا میرے جانے کے بعد کوئی اور سرجن میری جگہ خدمات انجام دے گا اور سروسز میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ دل کی انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کے بارے میں تقریباً ہر فرد جانتا ہے ،لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ رگوں کی انجیو پلاسٹی بھی ہوتی ہے اور یہ سروسز یہاں فراہم کی جا رہی ہیں۔ گرچہ سندھ حکومت کی جانب سے ہمیں ہر قسم کی مدد فراہم کی جا رہی ہے، لیکن مریضوں کی تعداد میں بھی آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لہٰذا ہمیں حکومت کی جانب سے مزید امداد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارے مُلک میں ایسے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ،جن کی پاؤں کی رگیں سگریٹ نوشی کی وجہ سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائبیٹک فُٹ کے مریضوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے ا ورہم یہاں ایسے تمام مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ’’ ہمارے پاس دو وارڈز ہیں جن میں کُل 51بستر ہیں اور یہ ہمہ وقت بھرے رہتے ہیں۔ پھر ایمرجینسی میں ہمہ وقت ایسے مریضوں کا رش لگا رہتا ہے، جن کی رگیں سگریٹ نوشی، بلڈ پریشر اور شوگر کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں۔ ہر چند کہ باقی ڈیپارٹمنٹس میں بھی مریضوں کا خاصا رش ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس آنے والے مریضوں کی تعداد اس لیے زیادہ ہے کہ ویسکیولر سرجری کی سہولت اس کے علاوہ صوبے میں کہیں دست یاب نہیں کہ اس کے لیے خاص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘
ٹراما سینٹر کے نیورو سرجری وارڈ میں خدمات انجام دینے والے نیورو سرجن، ڈاکٹر محمد عادل کھتری نے بتایا کہ ’’ نیورو سرجری وارڈ میں 63 بیڈ زموجود ہیں، جو ہمہ وقت بھرے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں زیادہ تر دماغ کی رسولی اور حرام مغز یا ڈِسک سلپ کا علاج کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے مریض بھی ایمرجینسی میں آتے ہیں ،جن کی دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے۔ یہاں یومیہ 30 سے 40 مریض ایمرجینسی میں لائے جاتے ہیں۔
پچھلے سال 1500 مریض داخل ہوئے، جب کہ کم و بیش 1200 سرجریز ہوئیں۔ ہمارے ہاں ٹراما کے علاوہ دیگر مریضوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے، جب کہ ہماری او پی ڈی سول اسپتال میں ہے۔ ‘‘ شعبۂ نرسنگ کی سربراہ، ثنا مرچنٹ نے، جو دسمبر 2019ء سے یہاں خدمات انجام دے رہی ہیں ،بتایا کہ ’’ ٹراما سینٹر میں مجھے اپنے علم اور نت نئے آئیڈیاز کے اطلاق، انہیں عملی شکل دینے اور نئے رجحانات قائم کرنے کا موقع ملا اور پھر ایک ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ہونے کے باعث میرے ویژن میں بھی اضافہ ہوا۔ اس سلسلے میں ہمیں اسپتال کے سربراہ کی رہنمائی بھی حاصل ہے۔
مَیں نے نرسنگ کے شعبے کی سربراہی سنبھالنے کے بعد اپنے اسٹاف کی صلاحیتیں اور استعداد بڑھانے پر توجّہ دی، کیوں کہ میرے خیال میں تعداد کے مقابلے میں استعداد زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہمارے اسٹاف کو مختلف ری فریشر کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ نرسنگ کا کُل اسٹاف 250 افراد پر مشتمل ہےاورہمیں نجی اسپتالوں کے مطابق تن خواہ دی جاتی ہے۔‘‘
کورونا وبا کے دوران بے مثال خدمات
ٹراما سینٹر میں اپریل 2020ء میں کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران 54 بستر وںپر مشتمل کووِڈ آئی سی یو اینڈ ایچ ڈی یو اور اکتوبر میں دوسری لہرکے دوران 26 بستروں پر مشتمل کووِڈ آئی سی یو اینڈ ایچ ڈی یو قائم کیا گیاتھا۔ اس حوالے سے پتا چلا کہ ’’ لاک ڈائون کے دوران بھی ہمارے آپریشن تھیٹرز بند نہیں ہوئے اور کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران صوبے بھر میں سب سے زیادہ آپریشن یہیں ہوئے، کیوں کہ تب دیگر اسپتالوں میں آپریشن نہیں ہو رہے تھے۔ان دنوں کورونا کی تیسری لہر شدت اختیار کر چُکی ہے، تو ہم کووڈ کے مریضوں کے لیے مختص بستر وںکی تعداد بڑھا کر 60 کر سکتے ہیں اور ان پر وینٹی لیٹر کی سہولت بھی دے سکتے ہیں۔ ‘‘
مریضو ں کوخون کی فراہمی میںکوئی رکاوٹ نہیں
ٹراما سینٹر کے پانچویں فلور پر ایک جدید بلڈ بینک قائم کیا گیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر صابر میمن نے بتایا کہ ’’ شہر میں رضا کارانہ خدمات انجام دینے والے ادارے بھی مریضوں سے اسکریننگ چارجز وصول کرتے ہیں، جب کہ ہم اسکریننگ چارجز وصول کیے بغیر ہی خو ن فراہم کرتے ہیں۔
یہاں زیادہ مزدور پیشہ افراد آتے ہیں، جن کے پاس کھانے کے پینےلیے کچھ نہیں ہوتا، تو وہ ایک وقت میں 8 سے 10 ہزار روپے خون کی اسکریننگ کے چارجز کہاں سے ادا کریں گے ، لہٰذا ان کی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بلڈ بینک کا آغاز کیا گیا ہے، جہاں مریضوں کو خون کی فراہمی میںکوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘‘
اب کسی کی ٹانگ نہیں کٹے گی
مُلکی اور غیر ملکی ذیابطیس کے ماہرین کے مطابق ’’ شہید محترمہ بے نظیر بُھٹّو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما میں ڈائبیٹک فُٹ کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ سندھ بھر کے سرکاری اسپتالوں میں سے صرف یہیں ویسکیولر سرجری کی سہولت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں زخمی افراد کے علاوہ ویسکیولر سرجری کروانے والے مریضوں کا بھی رش لگا رہتا ہے۔ ابتدا میں یہاں ویسکیولر سرجری کے یونٹ میں صرف ایک کنسلٹنٹ تھا، جب کہ آج چار کنسلٹنٹس خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ خاصا منہگا طریقۂ علاج ہے، جس میں انٹروینشنل ریڈیا لوجی کے ذریعے پیروں کی رگیں کھولنے کے لیے انجیو پلاسٹی کی جاتی ہے اور اسی تیکنیک سے ڈائبیٹک فٹ کا علاج بھی کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں پائوں ٹھیک ہو جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے جدید مشینری موجود ہے۔ ویسکیولر سرجری ڈیپارٹمنٹ میں40بیڈ زہیں، جو بھرے رہتے ہیں۔
انٹروینشنل ریڈیالوجی کی مدد سے پیروں کی رگوںکی انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کی جاتی ہے۔ نیز، انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ ٹیومر لائیگیشن یا رسولی کا سدّ ِباب بھی کرتے ہیں۔اس عمل میں ٹیومر کی بلڈ سپلائی بند کردی جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘
یومیہ اوسطاً 2100 مریضوں کو علاج معالجے کی مختلف سہولتیںمفت فراہم کی جاتی ہیں
ٹراما سینٹر کی جانب سے فراہم کر دہ اعداد و شمار کے مطابق یہاں یومیہ اوسطاً2,100مریضوں کو علاج معالجے کی مختلف سہولتیں فراہم کی جاتی ہیںاور اگر 2019-20ء کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو اس عرصے میں صرف ایمرجینسی میں کُل ایک لاکھ 29 ہزار سے زاید مریضوں کی رجسٹریشن کی گئی۔ اسی عرصے میں مختلف وارڈز میں 10 ہزار سے زاید مریض داخل ہوئے ۔ 2019-20ء میں کم و بیش 12 ہزار آپریشن سرجریز کی گئیں اور تقریباً ایک لاکھ 61 ہزار مریضوں کے ریڈیو لوجیکل ٹیسٹ کیے گئے۔
دریں اثنا 4 لاکھ 81 ہزار 652 افراد کے لیبارٹری ٹیسٹ ہوئے۔ اس عرصے میں 1,007 اموات واقع ہوئیں ، جب کہ 605 افراد مُردہ حالت میں لائے گئے۔ تاہم، آئے روز یہاں آنے والے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اگر2016ء میں ٹراما سینٹر کے آغاز سے لے کر 2020ء تک کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ گزشتہ چاربرسوں کے دوران یہاں16.5لاکھ سے زاید لیبارٹری ٹیسٹ ، 46ہزار سے زاید سرجریز اور 6لاکھ17ہزار سے زاید مرتبہ ریڈیالوجیکل ٹیسٹ کیے گئے۔ نیز، مختلف وارڈز یایونٹس میں 50ہزار کے لگ بھگ مریضوں کو داخل کیا گیا۔
واحد سرکاری اسپتال ہے، جہاں ویسکیولر سجری کی سہولت موجود ہے، سی اواو، ٹراما سینٹر، ڈاکٹر صابر میمن
ٹراما سینٹر کے چیف آپریٹنگ آفیسر ،ڈاکٹر صابر میمن نے ٹراما سینٹر کے قیام کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ’’ چوں کہ ٹراما سینٹر میرا ہی برین چائلڈ، ٹراما اور آرتھو پیڈک میری فیلڈ ہے، لہٰذا مَیں یہاں خدمات انجام دینے کا خواہش مند تھا۔ 2002ء میں معروف آرتھو پیڈک سرجن، یونس حیدر کی سربراہی میں کراچی میں سارک ممالک کی آرتھو پیڈکس کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ ان دنوں کراچی میں فائرنگ کے واقعات عام تھے ۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں شہر میں ایک جامع ٹراما سینٹر کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
تاہم، شہر کی ضروریات دیکھتے ہوئے یہاں ایک ٹراما سینٹر کافی نہیں بلکہ ہمیں اسی قسم کا ایک اور ٹراما سینٹر قائم کرنا ہو گا۔‘‘ سی او او کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹراما سینٹر میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’ہر چند کہ کورونا وبا کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کی رفتار متاثر ہوئی ہے، لیکن ہم ٹراما سینٹر کے عالمی معیارات سامنے رکھتے ہوئے اپنے سینٹر میں بتدریج سہولتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ٹراما سینٹر میں خون کی محفوظ منتقلی کے لیے 24 گھنٹے فعال بلڈ بینک قائم کیا گیا، جس میں 50 ہزار بیگز کی گنجائش ہے۔
بلڈ بینک کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ٹراما اور اسپتال میں زیرِ علاج مریضوں سے اسکریننگ چارجز بھی نہیں لیے جاتے۔ نیز، کلینیکل سائیکالوجسٹ کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ مزید برآں مَیں نے انٹروینشنل ریڈیا لوجی یونٹ اور کارڈیک اینڈ تھیوریسک سرجری یونٹ کا بھی آغاز کیا۔ اورل اینڈ میگزیلو فیشل سرجری یونٹ کو 10 سے 20 اور ٹراما آرتھو پیڈک سرجری یونٹ کو 28 سے 42 بیڈز تک توسیع دی۔ او ایم ایف اور نیورو سرجری کے آپریشن تھیٹرز کو آپریشنل کیا۔ غذائی ماہرین کی مدد سے باقاعدہ نیوٹریشنل پروگرام کا آغاز کیا۔
ڈاکٹرز اور انٹرنیز کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ لائبریری اور ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا آغاز کیا۔ اسی کے ساتھ ہی ای آر ڈیپارٹمنٹ اور الیکٹریکل، سول اینڈ پلمبنگ، ایچ وی اے سی، بائیو میڈیکل، فائر اینڈ سیفٹی اور آئی ٹی جیسے نان کلینیکل ڈیپارٹمنٹس کو نئے سرے سے منظّم کیا۔ سی -ٹی اسکین، سی آرم، ایکس رے، الٹرا ساؤنڈ اور ای سی جی وغیرہ جیسی غیر فعال مشینری اور آلات کی مرمّت کروائی۔ نیز، آکسیجن فِلنگ یونٹس کا قیام عمل میں لایا۔‘‘ ویسکیولر سرجری یونٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں سے صرف ٹراما سینٹر میں ویسکیولر سرجری کی سہولت موجود ہے۔
ہمارے ویسکیولر سرجنز نے یہیں سے ٹریننگ حاصل کی ہے ،جب کہ مزید نصف درجن ویسکولر سرجنز کی ٹریننگ جاری ہے۔ یہ سرجنز اندرون سندھ خدمات انجام دینے کے خواہش مند ہیں۔جب ہم ٹراما سینٹر کو سندھ کے دیگر شہروں تک توسیع دیں گے تو یہی سرجنز وہاں خدمات انجام دیں گے، کیوں کہ ہمارے مُلک میں ویسکیولر سرجنز کی کمی ہے اور پھر ویسکیولر انجریز میں بر وقت علاج کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر لاڑکانہ میں کوئی فرد زخمی ہوتا ہے اور چار گھنٹے میں اس کا آپریشن نہ کیا جائے تو اس کا متاثرہ عضو بچانا ناممکن ہو جائے گا۔
لہٰذا ہمیں یہ سہولت ان شہریوں کو ان کی دہلیز پر دینی ہو گی۔ ہماری کوشش ہے کہ پہلے سکھر، لاڑکانہ اور حیدر آباد اور پھر میر پور خاص اور نواب شاہ میں ٹراما سینٹرز قائم کیے جائیں۔ یہ سینٹرز نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور انڈس ہائی وے سے ایک گھنٹے کی مسافت پر قائم کیے جائیں گے، تاکہ بروقت علاج کی سہولت ملنے سے زخمی افراد کی جان بچائی جا سکے۔ اس حوالے سے ہم اگلے برس کام شروع کریں گےیہ سینٹرز نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور انڈس ہائی وے سے ایک سے دو گھنٹے کی مسافت پر قائم کیے جائیں گے، تاکہ زخمیوں کوبروقت علاج فراہم کیا جا سکے۔ ٹراما سینٹر میں ہنر مند افرادی قوت کی کمی نہیں۔
البتہ مستقل ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف تربیت حاصل کرنے کے بعد دوسرے ادارے میں اچھی تن خواہ پر چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً ،ہمیں نئے افراد بھرتی کر کے انہیں نئے سِرے سے ٹریننگ دینا پڑتی ہے۔ میری کوشش ہے کہ اسپتال کے تمام ملازمین کو ریگولر کر دیا جائے، تاکہ وہ یہاں طویل عرصے تک قیام کریں۔ تاہم، مَیں یہ واضح کر نا چاہتا ہوںکہ یہاں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کو دیگر سرکاری اسپتالوں سے زیادہ تن خواہ دی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی معاونت سے تمام ملازمین کی گروپ انشورنس کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے،جس کی کوریج 7. 5 سے 15 لاکھ ہے۔‘‘ اسٹاف کی ٹریننگ سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارے انڈس اسپتال کی انتظامیہ سے مذاکرات جاری ہیں۔
ہم ایک مفاہمتی یادداشت پر دست خط کریں گے، جس کے تحت دونوں اسپتالوں کے ٹرینیز کا تبادلہ ہو گا۔ اس سلسلے میں ہم سول اسپتال اور جناح اسپتال سے بھی ایم او یو سائن کریں گے۔ ‘‘ اسپتال کی فنڈنگ اور اخراجات کے حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’ٹراما سینٹر کے لیے ہمیں صرف سندھ حکومت ہی گرانٹ دیتی ہے ، جو ہر تین ماہ بعد چار اقساط میں فراہم کی جاتی ہے۔ اسی رقم سے اسٹاف کی تن خواہ ادا کی جاتی ہے، مینٹی نینس اورادویہ سمیت دیگر ضروری سامان بھی خریدا جاتا ہے۔
البتہ ہم ہر سال کے آغاز ہی میں مختلف شعبوں کے لیے رقم مختص کر لیتے ہیں۔چوں کہ ٹراما سینٹر میں معیاری طبّی خدمات بالکل مفت دست یاب ہیں تو اس وجہ سے آئے روز مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’ کسی بھی ادارے کے سربراہ کے طور پر اگرایک اہلیت کے حامل فرد کو تعینات کیا جائےاور پھر اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ اس ادارے کی قسمت بدل سکتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ادیب رضوی کی قیادت میں ایس آئی یو ٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو اس وقت ایشیا کا سب سے بڑا لیور ٹرانس پلانٹ کا ادارہ ہے۔‘‘
مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بتاتے ہوئے ڈاکٹر صابر میمن نے کہا کہ ’’آئندہ دنوں نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ میں نیورو نیویگیشن سسٹم لگانے کا منصوبہ ہے۔ علاوہ ازیں ویسکیولر سرجری کے لیے ہائبرڈ آپریشن تھیٹر کا قیام بھی زیرِ غور ہے۔ ہم مستقبل قریب میں P ET اسکین کی دست یابی کی بھی کوشش کر رہے ہیں، جس سے رسولی کے علاوہ دیگر بیماریوں کی تشخیص میں آسانی ہو گی۔ پھر ٹراما سینٹر میں جلد ہی ایم آر آئی 1.5 ٹیسلا مشین کی تنصیب بھی ہو جائے گی۔ برن سینٹر اور پلاسٹک سرجری یونٹ بھی کھول دیا جائے گااورٹراما سینٹر کے جن وارڈز میں کُولنگ سسٹم دست یاب نہیں ، وہاں تک کُولنگ سسٹم کو توسیع دی جائے گی۔‘‘