• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں وزیراعظم، عمران خان نے مری میں کوہسار یونیورسٹی کاسنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ ہم صرف سیّاحت کی ترقّی سے ملک کے قرضے ادا کرسکتے ہیں۔ برآمدات سے کہیں زیادہ پیسہ ہم سیّاحت کے ذریعے کماسکتے ہیں۔اس کے فروغ سے ملکی معیشت میں انقلاب لایا جاسکتا ہے ۔ ہماری ٹورازم بڑھ رہی ہے۔ایسا سوشل میڈیا کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ٹورازم پاکستان کا مستقبل ہے۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ سیّاحت کے لیے نئے مراکز کھولیں۔ پاکستان سیّاحت کے فروغ سے کثیر زرِمبادلہ کما سکتا ہے۔ سیّاحت سے مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا، لوگ شہروں کا رخ نہیں کریں گے۔وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ ہماری سیّاحت صرف مری تک محدود ہوگئی ہے۔ مری میں آبادی بہت بڑھ چکی ہے۔مری اور نتھیا گلی کے علاوہ کوئی اور سیّاحتی مقام نہیں بنایا گیا۔یہاں جگہ جگہ ایسےسیّاحتی مقام بنائے جاسکتے ہیں۔

اس سے قبل فروری کے اوائل میں’’آپ کا وزیراعظم، آپ کے ساتھ‘‘ نامی پروگرام میں عوام کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان دنیا کی سیّاحت کا مرکز بن سکتا ہے کیوں کہ سوئٹزرلینڈ اس علاقے سے آدھا ہے اور وہ سالانہ سیّاحت کے شعبے سے اسّی ارب ڈالرز کماتاہے۔ادہر پاکستان کی ساری برآمدات پچّیس ارب ڈالرز کی ہیں۔ گلگت بلتستان سوئٹزر لینڈ سےدوگناہے اور یہاں خوب صورتی بہت زیادہ ہے۔ صرف سیّاحت پرہی توجہ دیں تو سارا علاقہ اتنا خوش حال ہوسکتا ہے جس کا سوچ نہیں سکتے۔ اب ہم اس علاقے کو سیّاحت کا مرکز بنانے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں ۔

بلین ڈالرز انڈسٹری

دنیا بھر میں سیّاحت کا شمار بلین ڈالرز انڈسٹری میں ہوتا ہے جس نے اکثر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیپال سمیت بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کا مکمل دارومدار سیّاحت کی صنعت پر ہے۔ عالمی سطح پر سیاحت کی صنعت کے حجم اوراس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر برس مختلف ممالک صرف اس صنعت سے اربوں ڈالرزکمالیتے ہیں۔

جی ہاں ،اربوں ڈالرز۔لیکن کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ سیّاحوں کی آمد اورسیّاحت سے آمدن کے ضمن میں یورپ تو ایک طرف،ہم جنوبی ایشیا میں بھی کسی خاص مقام کے حامل نہیں ہیں۔حالاں کہ سیّاحت کے لیے پُرکشش مقامات کےضمن میں پاکستان جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا کے بھی بہت سے ممالک پر برتری رکھتا ہے ۔ لیکن ماضی کی حکومتوں نے کبھی اس سے فائدہ اٹھانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ۔ اس صنعت کے فروغ میں عدم دل چسپی اور جارحانہ مارکیٹنگ کے ذریعے دنیا کو پاکستان کے زبردست سیّاحتی مقامات سے آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم اُن اربوں ڈالرز سے محروم ہیں جو ہمیں اس اہم صنعت سے حاصل ہوسکتے تھے۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2018-19ء میں پاکستان میں بیرونی سیاحوں کی تعداد 19لاکھ سے زاید رہی اور انہوںنے پاکستان میں 31کروڑ 70لاکھ امریکی ڈالرز خرچ کیے۔ورلڈ ٹورازم اینڈ ٹریول کونسل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سیاحت کو فروغ دے کر دس سال کی قلیل مدت میں 39.8ارب ڈالرز کما سکتا ہے ۔

موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ 2025ء تک پاکستان کی سیاحت کا معیشت میں حصہ ایک ٹریلین روپے تک پہنچ جائے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر سیاحتی مقامات پر بنیادی سہولتوں، صحت، کمیونی کیشن اورقیام و طعام کے مناسب انتظامات کا فقدان ہے۔چناں چہ ہدف حاصل کرنے کے لیے بہتر ہو گا حکومت سیاحتی مقامات بالخصوص شمالی علاقہ جات اور چولستان میں سیاحوںکے لیے بہتر سہولتیں فراہم کرے تاکہ پاکستان39.8 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرلے۔

پاکستان1970کی دہائی ميں سیّاحت کے لیے مشہور ومعروف ملک تھا۔ اس وقت کئی مغربی ممالک کے سیّاح پاکستان آتےتھےجو وادیِ سوات اورکشميرسے ہوتے ہوئے نيپال اور بھارت جایا کرتے تھے۔ تاہم بعدازاں ملک ميں عدم استحکام اوردہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے یہ صنعت بُری طرح متاثر ہوئی۔لیکن اب ایک بار پھر پاکستان میں سیّاحت کے حوالے سے کچھ عرصے سے مثبت خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل کے مطابق عالمی معیشت میں سیاحت کا حصہ ساڑھے سات ہزار ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ عالمی سطح پرتیس کروڑ کے قریب افراد سیّاحت کے شعبےسے منسلک ہیں اور اس سےحاصل ہونے والی آمدنی عالمی جی ڈی پی کا 10.2فی صد ہے۔ ڈبلیو ٹی ٹی سی کے مطابق پاکستان میں سیّاحت کے بہترین مواقعے ہونے کے باوجود اس شعبے کا اقتصادی ترقی میں حصہ بہت کم ہے۔ اگرچہ چند برسوں میں امن و امان کی صورت حال بہترہونے سے پاکستان میں غیر ملکی سیّاحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا، لیکن عالمی سطح پر اس شعبے میں ہم اب بھی بہت پیچھے ہیں۔ 2017ء کے ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم مسابقتی انڈیکس میں شامل کل 136ممالک میں پاکستان کا نمبر 124واں تھا۔ 2017ء کے انڈیکس میں شامل سرفہرست بہترین دس ممالک میں بالترتیب اسپین، فرانس، جرمنی، جاپان، برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، اٹلی، کینیڈا اور سوئٹزر لینڈ شامل ہیں۔دیگر اہم ممالک میں سنگا پور 13ویں، چین 15 ویں،ناروے 18ویں، ملایئشیا 26ویں، بھارت 40 ویں، انڈونیشیا 42ویں، روس 43ویں، ترکی 44ویں، جنوبی افریقا 53ویں، سعودی عرب 63ویں، سری لنکا 64ویں، مصر 75ویں، ایران 93ویں اور بنگلا دیش 125 ویں نمبر پر موجود تھا۔

اس انڈیکس میں 2015ء کے مقابلے میں پاکستان کی رینکنگ میں ایک درجہ اور بھارت کی رینکنگ میں 12درجے بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔واضح رہے کہ ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم مسابقتی انڈیکس کی درجہ بندی کرتے ہوئے فہرست میں شامل ممالک کی ویزا پالیسی، سیاحتی ترجیحات، سیاحوں کو راغب کرنے کی حکمت عملی، سیاحتی انفرا اسٹرکچر اور ہوٹلز کے معیار جیسے انڈیکیٹرز کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ سیّاحوں کی تعداد کے حوالے سے 2017ء میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق ٹاپ ٹین ممالک میں فرانس پہلے نمبر پر رہا تھا۔ جہاں آٹھ کروڑسے زاید سیّاح آئے۔ ساڑھے سات کروڑ سیاحوں کے ساتھ امریکا دوسرے جبکہ تقریباً اتنی ہی تعداد کے ساتھ اسپین تیسرے نمبر پر رہاتھا۔ چوتھے نمبرپر چین تھا،جہاں تقریباً 6کروڑ سیّاح پہنچے تھے۔ 

سوا پانچ کروڑ سیّاحوں کے ساتھ اٹلی پانچویں نمبر پر رہا تھا۔ چھٹے، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر بالترتیب برطانیہ، جرمنی اور میکسیکو رہے تھے۔ نویں نمبر پر تھائی لینڈ اور دسویں نمبر پر ترکی رہاتھا۔ واضح رہے کہ غیر ملکی سیّاحوں کی تعداد کے حوالے سے ملکی آبادی اتنی اہمیت کی حامل نہیں جتنا ویزا پالیسی، سیکیورٹی کی صورت حال، سیاحتی انفرا اسٹرکچر، سیاحوں کو ملنے والی سہولتیں اور ملک کا مذہبی یا سیکولر تشخص اہمیت رکھتا ہے۔ فرانس کی آبادی ساڑھے چھ کروڑہے لیکن وہاں ہر سال آنے والے سیاحوں کی تعداد ملک کی آبادی سے ڈیڑھ کروڑ زیادہ رہتی ہے۔

لیکن ڈیڑھ برس سے کورونا نے اس شعبے سے وابستہ افراد اور اس میں نمایاں ممالک کو رونے پر مجبور کردیا ہے۔کورونا وائرس نے سب سے زیادہ سیاحت کے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ کئی ممالک کا دارومدار سیاحت کے شعبے پر ہے۔ 2018میں عالمی معیشت میں سیاحتی صنعت کا حصہ 8 ہزار 800 ارب ڈالرز تھا اور دنیا بھر میں 31 کروڑ 90 لاکھ افراد کا روزگار سیاحت سے جڑا تھا۔

مالدیپ کی معیشت میں سیاحت کا حصہ 75فی صد ہے۔ تھائی لینڈ کی 22 فی صدمعیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے۔ فلپائن کی21، میکسیکو کی 16، اسپین کی 14، اٹلی کی13، چین اور آسٹریلیا کی 11، جرمنی کی 10.6، برطانیہ کی 10.5،بھارت کی 9.4، سعودی عرب کی 9.2 ، فرانس کی 9 اور امریکا کی 7.8 فی صد معیشت کا انحصار سیاحت پر ہے۔

کورونا کی وبا پھیلنے سے پہلے اس شعبے سے امریکا سالانہ 214 ارب ڈالرز ، اسپین 81 ارب ڈالرز، فرانس 65 ارب ڈالرز، تھائی لینڈ 63 ارب ڈالرز، برطانیہ 51ارب ڈالرز، اٹلی 49 ارب ڈالرز، آسٹریلیا 45 ارب ڈالرز اور جرمنی 43 ارب ڈالرز کماتا تھا۔ تھائی لینڈ میں 2020میںچار کروڑ سیاحوں کی آمد متوقع تھی مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے سیاح بہت کم آئے جس کے باعث اس ملک کی سب سے اہم صنعت مسائل کا شکار ہو گئی ۔

ماضی کیا کہتا ہے

پاکستان میں سیاحت کو سب سے زیادہ فروغ 1970ءکی دہائی میں ملا جب ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت کے دوران ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا ۔ دیگر صنعتوں کی طرح سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی، بیرونی ممالک سے لاکھوں سیاح پاکستان آئے اور پاکستان کے سیاحتی علاقے دنیا بھر میں متعارف ہوئے۔مگر ہماری بد قسمتی ۔۔۔ جنرل ضیاءکا مارشل لا،ڈراورخوف کی فضانے سیاحت کے شعبے کو بھی نقصان پہنچایا۔1988میں جمہوریت بحال ہوئی تو سیاحوں نے دوبارہ پاکستان کا رخ کیا ۔ 

تعمیر و ترقی نظر آئی، مگر ایک دفعہ پھر 9/11کے بعد امن امان کے مسئلے کی وجہ سے سیاحت متاثر ہوئی ، یہاں تک کہ تاریخی مقامات پر حملے اور قبضے کے واقعات بھی سامنے آئے ۔غیر ملکیوں کی حفاظت ایک مسئلہ بن گئی۔ پاکستان اور افغانستان میں دہشت کی اس لہر میں مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کی آمد کو متاثر کیا ۔ 2011ءمیں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو نے کے ساتھ سیاحتی صنعت میں بھی بہتری کے آثارپیدا ہونا شروع ہوئے۔ہماری سیاحت کو خراب کرنے میں دہشت گردی کے ساتھ حکومت کی مبہم پالیسیاں بھی ذمہ دار ہیں۔

بہت کچھ کرنا ہوگا

پاکستان سیاحت کے لیے اچھی جگہ ہے ، اسے سیاحت کی جنت بنانے کے لیےسیکیورٹی کی صورت حال بہتربناناشرط اول ہے کیوں کہ سیکیورٹی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ سیاحوں کی راہ نمائی کے لیےمعلوماتی مراکزکاقیام،عوامی معلومات کےلیے آن لائن اشتہارا ت،خبر نامہ اور نیوز چینل میں سیاحت کی خبریں نشر ہونا ضروری ہیں۔ خوف صورت مقامات کی تشہیر ، خصوصی قسم کے تہواروں، ثقافتی اور کھیلوں کے ایونٹ ، منظم فیسٹیول ، سیاحت کے فروغ میں صاف ستھرا ماحول بھی ضروری ہے۔سیاح صاف ستھرے ماحول میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں ۔

صفائی ستھرائی کی صورت حال بہتر ہونا نا گزیر ہے۔ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولتیں جو بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں، اس کی بہتری از حد ضروری ہے۔ افرا ط زر کی بلند شرح بھی سیاحت میں کمی کا ایک سبب ہے۔ اس پر کنٹرول کرنے کے لیےسیاحت کی صنعت میں سبسڈی فراہم کرنا اچھا فیصلہ ہوگا ۔PTDCکو اپنی مارکیٹنگ کی صلاحیتیںبہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے 27موٹلز 3ریسٹورانٹس ناکافی ہیں،ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ضروری ہے۔

حکومت سیاحت کے دوستانہ ماحول کے فروغ کے لیے نجی شعبے کی بھی بھر پور حوصلہ افزائی کرے ۔ اس سے ملک کو مالی فائدے کے ساتھ دیگر اقوام کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی بھی پیدا ہو گی۔2017ءمیں بھارت میں 8.9ملین اور پاکستان میں 1.75ملین سیاح آئے تھے۔ یہ فرق معاشی ترقی ، امن و امان کی صورت حال ، انٹر نیشنل امیج سمیت دیگر مسابقتی میدان میں صورت حال کو واضح کرتا ہے ۔ سیاحت کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی توقع کے ساتھ ہمیں اپنے ملک کے بہتر امیج کے لیےاپنے کردار کا تعین بھی کرنا ہوگا ۔سیاحت کا فروغ انفرادی سطح سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی طور پر ہم سب کے لیےبہتر ہے۔

خوب صورتی کے حوالے سے ہمارے شمالی علاقے دنیا کے چند گنے چنے علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان ہی علاقوں میں ایک ہزار میٹر سے لے کر آٹھ ہزار میٹر سے زاید بلندی والے درجنوں پہاڑہیں۔گندگی، آلودگی اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے غیر ملکی سیاح تو دور کی بات مقامی افراد کی بھی قلیل تعداد ہی یہاں کا رُخ کرتی ہے ۔یہ اشد ضروری ہے کہ ساحلی علاقوں کو صاف ستھرا اور خوب صورت بنانے کی جانب خاص توجہ دی جائے اور وہاں بنیادی سہولتوںکی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ جہاں تک تاریخی عمارات کا تعلق ہے تو ان میں سے بیش تر کھنڈرات کا روپ دھار کر جرائم پیشہ افراد اور نشہ کرنے والوں کا بسیرا بنی ہوئی ہیں۔

محکمہ آثارِ قدیمہ کو خواب خرگوش سے جاگ کر اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ روایتی تہوار بھی سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً اسپین کے شہر میڈرڈ میں ہر سال بیلوں کی دوڑ کا روایتی تہوارمنایا جاتا ہے۔ چین، ملائیشیا ، تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک میں ہر سال کائٹ فیسٹیول اور دیگر روایتی میلے منعقد کیے جاتے ہیںجو سیاحوں کو کھینچ لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کائٹ فلائنگ کا ایک فیسٹیول ہوتا تھا جو غیرملکی سیاحوں کے لیے بہت کشش کا باعث تھا لیکن شرپسند عناصر کی وجہ سے وہ ماضی کا حصہ بن گیا۔ ہمارے متعددعلاقے فطرت کی رنگینیوں سے مالامال ہیں لہذا اِن علاقوں میں انفرااسٹرکچر کی بہتری اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی جس سے ایک طرف توبے شمار ملکی و غیر ملکی سیاح آئیں گے اور دوسری جانب یہاں کے عوام کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی ۔

ترقی یافتہ ممالک میں سیاحت محض کسی پنج ستارہ ہوٹل، ریزروٹ یا ہوٹل میں چھٹی کے چند دن سو کر گزارنے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی معنوں میں سفر یعنی سیاحت کو وسیلہ ظفر سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اُن ممالک کے افراد کے لیے سیاحت ہر گزرتے دن کے ساتھ ان گنت معاشی کام یابیوں کے آسان حصول کا ایک بڑا ذریعہ بنتی جارہی ہے۔

گزشتہ چھ دہائیوں میں سیاحت دنیا کے سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ نمو پانے والے معاشی شعبوں میں سے ایک بن گیا ہے اورکورونا کی وبا سے پہلے بین الاقوامی سطح پر سیاحوں کی آمد میں آئے روز زبردست اضافہ دیکھا جارہاتھا۔1950میں سیاحت کرنے والے افراد کی تعداد محض 25 ملین کے قریب تھی ،لیکن 2015 میں جمع کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق سیاحوں کی مجموعی تعداد1.2 بلین تک پہنچ چکی تھی۔سیاحت کی صنعت کا عالمی معیشت میں سات کھرب اور چھ ارب ڈالر کا حصہ ہے جو دنیا کی کُل معیشت کا 10.2 فی صد بنتا ہے۔ صرف 2016 میں سیاحت کی صنعت سے 20 کروڑ 92 لاکھ افراد کےلیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے تھے۔

یعنی ملازمتوں کی تخلیق کے حساب سے دنیا کی ہر دس ملازمتوں میں سے ایک ملازمت شعبہ سیاحت کی مرہونِ منت تھی۔اس کی بنیادی وجہ سیاحت کے شعبے سے ٹرانسپورٹ، مواصلاتی خدمات جیسے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز، ہوٹلز، ریسٹورینٹس، گیسٹ ہاوسز، ٹورسٹ، سووینیر شاپس، ٹریول گائیڈز، ٹوور آپریٹرزکا کاروبار اوردیگر ان گنت ذیلی شعبوں کا منسلک ہونا ہے۔

اس دہائی میں سیاحت کے زبردست فروغ کی اہم ترین وجوہات میں اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ، سفری سہولتوں میں اضافہ اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں نمایاں کمی کو قرار دیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سیاحت کے زبردست فروغ کے باوجود ترقی پذیر ممالک میں سیاحت کوحکومتی عدم توجہی، امن و امان کی ابتر صورت حال اور ترقیاتی کاموں میں عدم تسلسل جیسے مسائل کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

متنوّع جغرافیہ اور انواع و اقسام کی آ ب و ہوا

پاکستان جنوبی ایشیا کے مرکز میں واقع ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے یہ سیاحوںکے لیےجنت ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے متنوع جغرافیہ اور انواع و اقسام کی آ ب و ہوا دی ہے۔ مختلف لوگوں کی 77مختلف زبانیں اور علاقے ہیں جو پاکستان کو رنگوں کا گھر بنا دیتے ہیں۔وطن عزیز کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو ایڈونچر ، ٹور ازم ،قدرتی حسن ، مذہبی سیاحت اور تاریخی مقامات سے مالا مال ہے۔ پاکستان میں ریگستان، سر سبز و شاداب میدان ، پہاڑ ، سرد و گرم علاقے ،خوبصورت جھیلیں، جزائر اور سب کچھ ہے۔

ساحل سمندر سےلے کر برف پوش آسمان کو چھوتی چوٹیاں،خوب صورت آب شاریں ، چشمے و جھرنے ، وادیاں، آثار قدیمہ،ہندوؤں کے تاریخی مندر،سکھوں کے قدیم مذہبی مقامات اور بدھ مت کی تاریخی نشانیاںٹیکسلا اور گندھاراکی قدیم تہذیبوں کی صورت میں موجود ہیں ۔دل کش قدرتی مناظر کے علاقے وادی سوات،کاغان، گلیات، آزاد کشمیر،کیلاش ، ہنزہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کے مرکز ہیں ۔

اسکردو میں دیو سائی کا خوب صور ت ٹھنڈا صحرا قدرت کی بے نظیر کاری گری ہے۔کے ٹو ،نانگا پربت، گلگت، بلوچستان کے خوب صورت خشک پہاڑ، زیارت، کوئٹہ اور گوادر اپنی مثال آپ ہیں ۔ سندھ کا ساحل ، گورکھ ہل دادو، صحرائے تھر، موہنجو دڑو، پنجاب کا تاریخی شہر ملتان، صحرائے چولستان، کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ فورٹ منروسیاحت کے حامل ہیں ۔

درپیش چیلنجز

اگرچہ چند برسوںسے پاکستان میں سیاحت کی عالمی و مقامی صنعت بہ تدریج فروغ پا رہی ہے، تاہم اسے اب بھی متعدد نوعیت کے سنجیدہ چیلنجز درپیش ہیں۔ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے ملک بھر میں سیاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ پی ٹی ڈی سی نے آنے والے چند برسوں میں پاکستانی معیشت میں سیاحت کا حصہ دو کھرب روپے تک پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے، جو مجموعی ملکی پیداوار کا 6ف صدبنتا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق 2013ء کے بعد سے پاکستان میں مقامی سیاحت میں 30فیصد اضافہ سے سالانہ تفریحی وتاریخی مقامات کی سیر کرنے والے مقامی سیاحوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ 

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف خیبرپختون خوا میں سالانہ 88لاکھ مقامی سیاح آتے ہیں، جس سے صوبے کو سالانہ 12 ارب روپے سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے۔ نئی سیاحتی پالیسی کے تحت اگلے چند برسوں میں ٹورازم سیکٹر میں 50ارب روپے کی سرمایہ کاری سے نیشنل پارکس، ثقافتی مراکز، ریسٹ ایریاز، سڑکیں، ہاسٹلز، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس تعمیر کرنے کے علاوہ ٹور آپریٹرز کی تربیت کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے چند برسوں میں سیاحتی انفراا سٹرکچر بہتر ہونے سے صوبے کو سیاحت کی مد میں 50ارب روپے تک آمدنی ہو گی۔ 

ایک طرف سوات، کالام، ناران، کاغان اور شانگلہ سمیت کئی ایک سیاحتی مقامات پر انفرا اسٹرکچر اور تفریحی سہولتوں کو بہتر کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف سیاحت کے فروغ کے لیے صوبے کے چھ مزید مقامات کو سیاحتی مراکز میں بدلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومت سیاحتی بجٹ 52کروڑ سے بڑھا کر ساڑھے تین ارب تک لانے کے علاوہ سیاحت کے فروغ کےلیے کئی طرح کے قابل ستائش اقدامات شروع کر چکی ہے، تاہم صوبے میں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد بڑھانے سمیت اسے کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ خستہ و تباہ حال انفرا اسٹرکچر کا ہے۔ اگرچہ صوبائی حکومت کئی ایک تفریحی مقامات کی طرف جانے والی سڑکوں کو کشادہ بنانے کے علاوہ کئی مقامات تک نئی سٹرکیں بھی تعمیر کر رہی ہے، لیکن چترال اور کیلاش سمیت کئی ایک اضلاع میں سڑکوں کی صورت حال اب بھی انتہائی مخدوش ہے۔

تحریک انصاف نے صوبے میں انفراسٹرکچر کے دو بڑے منصوبے (پشاور میٹرو اور سوات موٹر وے) شروع کیے تھے، لیکن ناقص منصوبہ کی وجہ سے دونوں میگا پراجیکٹس اپنے دور حکومت کے اختتام تک مکمل نہیں کر سکی تھی۔اب پشاور ریپڈ بس منصوبے کا افتتاح ہوچکا ہے اور81کلومیٹر طویل سوات موٹر وے کا 51کلومیٹر حصہ تیار کر کے اس کا افتتاح پہلے ہی کردیا گیا تھا۔ جھیلوں اور آب شاروں کی جانب جانے والے راستوں پر لنک روڑ سمیت سیاحوں کی راہ نمائی کے لیےٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز اور سیاحتی سہولت مراکز کا قیام بھی اشد ضروری ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ امن و امان کی صورت حال میں بہتری آنے سے سیاح سوات، کالام، ناران، کاغان اور بابو سر ٹاپ تک جانے کے علاوہ اپر دیر کے خوبصورت ترین علاقے کمراٹ ویلی تک جا رہے ہیں، تاہم غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیےامن و امان کی صورت حال میں مزید بہتری لانا ہو گی۔ سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے کے لیےخیبر پختون خواکے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات پر تفریحی سہولیات کی بہتر فراہمی کے علاوہ تنگ اور خطرناک ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو کشادہ اور آرام دہ بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ 

بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال آئیڈیل بنا دی جائے تو وہاں بھی سیاحت کا زبردست پوٹینشل موجود ہے۔پاکستان میں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے عالمی ثقافتی ورثوں کی تعداد 36ہے لیکن عدم توجہ کی وجہ سے ان میں سے کئی ثقافتی ورثے اپنی تاریخی شان و شوکت اور قدرتی حسن سے محروم ہو چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ان عالمی ثقافتی ورثوں کو تاریخی شان و شوکت کے ساتھ بحال کیا جائے بلکہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کیلئے ہر سال نئے تفریحی وسیاحتی مقامات دریافت کیے جائیں۔

دوسری بڑی صنعت

سیّاحت ایک سماجی ،ثقافتی اور معاشی رجحان ہے جس میں ذاتی کاروبار، پیشہ ورانہ مقاصد کیلئے لوگ اپنی جگہ اور ملکوں سے باہر نکلتے ہیں۔یہ سترہویں صدی میں مغربی یورپ سے شروع ہوئی،آج ترقی پذیر ممالک میں سیاحت روزگار کے حوالےسے دوسری بڑی صنعت ہے ۔دنیا بھر میں سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جس میں ترقی کے بے پناہ مواقع ہیں ۔پاکستان میں سیاحت کا مقابلہ اگر 3ممالک،بھارت ،سعودی عرب اور چین سے کیا جائے تویہاںسیاحت کی صنعت کا GDPمیں حصہ سب سے کم ہے جو صرف 3.1فی صدہے ۔بھارت میں سیاحت کا حصہ6.2فی صد،چین میں 9.2فی صد اور سعودیہ عرب میں کل GDP میں سیاحت کا حصہ 4.3فی صدہے۔2013ءکی رپورٹ کے مطابق سیاحت میں 140ممالک میں پاکستان کی درجہ بندی 122ویں نمبرپرہے۔

ہر سال کے ساتھ پاکستان میں سیاحتی آمدن کم ہوئی۔ 2010میں تقریباًدس لاکھ ملین سیاح پاکستان آئےاور 2013ءمیں ان کی تعداد 0.56ملین تک کم ہوئی۔سیاحت میں کمی کی بڑی وجہ دہشت گردی ہے۔ پاکستان دنیا کے ساتویں خطر ناک ملک میں شمار کیا گیا۔ 2009ءمیں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ، نانگا پربت میں سیاحوں کی ہلا کت ایسے واقعات ہیں جنہوں نے اس صنعت کو شدید نقصان پہنچایا۔

تازہ ترین