کسی بھی قوم کی بنیادی ضروریات میں ایک اہم ضرورت " تعلیم " ہے ۔ تعلیم ہی انسان کو شعور و آگہی بخشتی ہے، اسے سوچنے سمجھنے کی حس دیتی ہے ، اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے اور یہی اچھے برے کی تمیز انسان کی زندگی میں قدم قدم پر کام آتی ہے ، تعلیم ہی سے انسان اپنی زندگی کو بہتر کرنے کی کوششیں کرتا ہے، زندگی کے صحیح فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے اور یوں تعلیم یافتہ قوموں کی زندگی بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں کئی دہائیوں سے تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دی جانی چاہئے تھی اور نتیجتاً گورنمنٹ کے اسکولوں میں تعلیم کا بیڑہ غرق ہوتا چلا گیا۔ ہم نے بھی اپنے بچپن میں گورنمنٹ کے اسکول و کالج میں پڑھا گر چہ اس وقت بھی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن اتنا برا حال بھی نہیں تھا ،جیسا اب ہے یعنی اس وقت اسکولوں میں گائے بھینسیں نہیں بلکہ طالب علم ہی نظر آتے تھے اور استاد گھر بیٹھے تنخواہ لینے کے بجائے اسکول آکر جیسے تیسے پڑھا ہی لیا کرتے تھے۔
ہمارے بچپن میں پرائیویٹ اسکول قومیا لیے گئے تھے اور اسکول، کالج کے دور میں امیر غریب سب گورنمنٹ کے اسکولوں میں ہی پڑھا کرتے تھے اس دور میں استاد بہت محنتی ہوتے تھے جو جی جان سے طالب علموں کی شخصیت سازی کرنے میں اپنی جان لگا دیتے تھے لیکن پھر سیاسی بھرتیوں کا دور شروع ہو،ا جس میں استاد کو بچوں سے زیادہ اپنی تنخواہ اور اسکیل کی فکر رہتی تھی ۔ اس زمانے میں حالت یہ ہوگئی تھی کہ گاؤں گوٹھوں میں تعینات کیے گئے اساتذہ مہینے میں ایک بار جاکر پورے مہینے کی حاضری بھی لگا دیتے تھے اور تنخواہ بھی وصول کرلیتے تھے، انہیں طالب علموں سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی کہ ان کی پڑھائی کا کیا ہوگا ؟
اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ معیار تعلیم گرتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ میں ڈگری لینا اتنا آسان ہوگیا کہ طالب علم امتحان گاہ میں کتابیں کھول کر نقل کر رہے ہوتے تھے اور کوئی منع کرنے والا نہیں ہوتا تھا ظاہر ہے اساتذہ نے جب پورے سال پڑھایا ہی نہیں ہوتا تھا تو وہ کس منہ سے نقل کو روکتے ۔جب تعلیم کا معیار اتنا گر گیا تو کچھ متمول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات نے صدق دل سے کوشش کی کہ پرائیویٹ اسکول کھول کر تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے لہٰذا پرائیویٹ اسکول کھلنا شروع ہوگئے۔
اس وقت فیس بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی کہ بار گراں ہو، لہذا مڈل کلاس گھرانے کے بچوں نے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنا شروع کردیا یوں پرائیویٹ اسکول کامیاب رہے اور معیار تعلیم بھی کچھ بہتر ہوا لیکن افسوس کہ اس کے بعد پرائیویٹ اسکولوں کی ایک دوڑ شروع ہوگئی ایک کے بعد ایک اسکول کھلتے چلے گئے بلکہ گلی گلی میں چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی اسکول کھل گئے اور گورنمنٹ کے اسکول مزید بیکار ہوتے گئے۔ اسکولوں کے بعد پرائیویٹ کالج کھلنا شروع ہوگئے اور اب تو انجینئرنگ اور میڈیکل کالج بھی چھوٹے چھوٹے گھروں میں کھل چکے ہیں بلکہ اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ تعلیم اور پیسہ لازم و ملزوم ہوچکے ہیں اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ اپنے بچے کو بہترین اسکول میں ہزاروں روپیے فیس دےکر داخل کرواسکتے ہیں۔
افسوس کی ایک اور بات یہ بھی ہے کہ آج کل اسکول کی زیادہ فیس اس کے معیار کی ضمانت بن گئی ہے یعنی جتنی زیادہ اسکول کی فیس ہوگی، لوگوں کی نظر میں وہ اتنا ہی اچھا اسکول سمجھا جاتا ہے پھر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی آپ اپنے بچے کو کتنے بھی اچھے اسکول میں داخل کرادیں پھر بھی آپ کو ٹیوشن پڑھوانی پڑتی ہے اور ٹیوشن بھی اب سیکڑوں میں نہیں ہزاروںروپے میں ہے بلکہ قارئین یہ سنکر حیران رہ جائیں گے کہ او لیول اور اے لیول کے صرف ا یک مضمون کی فیس پچاس ہزار روپے ماہانہ تک ہے اب یہ ٹیچر پر منحصر ہے کہ وہ آپ کے بچے کا کورس کتنے ماہ میں مکمل کرواتا ہے۔ غریبوں کو تو چھوڑیں یہاں تو مڈل کلاس طبقے کا اپنے بچوں کو پڑھانا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے ۔
گورنمنٹ کے اسکول، کالج ، جامعات کسی کام کے نہیں رہے۔ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں کا معیار بہت گر گیا ہے اسی لئے جگہ جگہ پرائیویٹ اسکول کھلے نظر آتے ہیں لوگوں نے بھی تعلیم کو بزنس بنا لیا ہے جس کے پاس دو پیسے جمع ہوئے وہ اپنا اسکول کھول کے بیٹھ جاتا ہے جہاں دو دو شفٹوں میں کلاسیں ہوتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے رات کو ٹیوشن سینٹر کھول لیے جاتے ہیں اور یوں تعلیم کو بیچا جارہا ہے ۔اب جس کے پاس جتنے دام ہیں وہ اتنی تعلیم خرید لے۔
والدین اپنی محنت کی کمائی سے بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی اپنے بچوں کو اچھے اسکول سے میٹرک اور کسی اچھے کالج سے انٹر کروا سکیں لیکن بات پھر بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ ہر بچہ آنکھوں میں ڈاکٹر، انجینئر اور ایم بی اے کرنے کے خواب لےکر بڑا ہوتا ہے اور انٹر کے بعد باری آتی ہے اس داخلہ ٹیسٹ کی جو یونیورسٹیوں میں داخلے کے وقت لیا جاتا ہے انٹر کے بعد اس ٹیسٹ کی تیاری کے لئے بھی پیسہ چاہیئے ۔ اس کی تیاری کروانے کے انسٹیٹیوٹ بھی جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں جو پچاس سے اسی ہزار تک فیس لےکر یونیورسٹیوں میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کرواتے ہیں بلکہ کریش کورسز کے نام سے بھی ہزاروں روپیے فیس لےکر آخری وقت تک تیاری کروائی جاتی ہے اب جن والدین کے پاس پیسے ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کو ان سینٹرز سے تیاری کروالیتے ہیں پھر بھی ان کی قسمت ہے کہ داخلہ ملے یا نہ ملے!
اگر مل بھی جائے تو یونیورسٹی کی فیس دینے کے دام بھی ماں باپ کے پاس ہونے چاہئیں اور اگر داخلہ نہ ملے پھر تو والدین اور مشکل میں پڑ جا تے ہیں کیونکہ اب بات آجاتی ہے سیلف فاءینینسگ اور اس کی فیس افورڈ کرنا مڈل کلاس گھرانے کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے اور یوں کبھی کبھی سالوں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پیسہ خرچ کرنے کے باوجود بچے انٹر کرنے کے بعد بے یارو مددگار اور والدین پریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں، اور کہاں جائیں؟ یہاں بھی پیسے والوں کی جیت ہوتی ہے جن کے بچے اگر میرٹ پر کسی اچھی یونیورسٹی میں نہیں پہنچ پاتے تو ان کے والدین کسی بھی بےنام لیکن زیادہ فیس والی پرائیویٹ یونیورسٹی سے اپنے بچے یا بچی کو ڈاکٹر، انجینئر ، ایم بی اے وغیرہ کی ڈگری دلوادیتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ڈگری خرید لیتے ہیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کراچی میں پرائیویٹ میڈیکل کالج اتنے ہوگئے ہیں کہ ڈاکٹر کی ڈگری بھی کوئی مسئلہ نہیں رہی اور جب نام کے ساتھ " ڈاکٹر " لگ جاتا ہے تو کون پوچھتا ہے کہ کس ادارے سے ایم بی بی ایس کیا ہے؟
آج کل ایک اور ٹرینڈ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جن امیر ماں باپ کے بچوں کا داخلہ یہاں کی اچھی یونیورسٹی میں نہیں ہوتا وہ پیسے کے زور پر چائنا، ملائیشیا سے بچوں کو ڈگریاں دلوا دیتے ہیں یوں غریب والدین کے بچے ان سے کئی گنا زیادہ ذہین ہونے کے باوجود ادھر ادھر دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ گورنمنٹ کی جامعات بھی کچھ سال پہلے تک سیاست اور دہشتگردی کا شکار رہیں ، جس کی وجہ سے عام آدمی بچوں کو وہاں داخلہ دلانے سے اس لئے ڈرتا تھا کہ کہیں بچوں کا مستقبل تابناک کے بجائے دہشتناک اور پھر خوفناک نہ ہوجائے۔ الحمدللہ جامعات کی حد تک اب حالات کچھ بہتر ہیں لیکن اب بھی بہت بڑی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔
پرائمری تعلیم کو عام کرنے اور بہتر بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس کے لئے اچھے استاد تلاش کرکے ان اسکولوں میں تعینات کئے جائیں تو حالات کافی بہتر ہوسکتے ہیں استاد طالب علموں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ہمارے ملک میں ایسے استاد بہت کم ہیں جو اس جذبے کو لےکر ٹیچر بنے ہوں کہ انہیں ایک نسل کو سنوارنا ہے ہمارے ملک میں زیادہ تر جس کو کوئی اور نوکری نہیں ملتی وہ گورنمنٹ ٹیچر بن جاتا ہے اور اس پر پھولے نہیں سماتا کہ تنخواہ تو ملے گی ہی ملے گی بڑھاپے میں پینشن بھی ملے گی ۔
اچھے استاد کے بغیر اچھی نسل نہیں بن سکتی ۔ایک بار پھر ہم شجر سے پیوستہ رہ کر " امید بہار " رکھ لیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے حکومت اس سلسلے میں کچھ اہم اقدامات کرلے کہ جس سے کم آمدنی والے عوام کے بچوں کو بھی اچھی تعلیم کے مواقع حاصل ہوسکیں اور انہیں در در کی ٹھوکریں نہیں کھانی پڑیں ۔