• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

قرآن کریم کی رو سے جنگ کن حالات میں ناگزیر ہوتی ہے اور اس سے کیا مقصد ہوتا ہے چند الفاظ میں یوں سمجھئے کہ قرآن کریم کا مقصد ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں شرف و تکریم انسانیت کا فروغ ہو اور کوئی انسان نہ کسی دوسرے انسان کا محکوم ہو نہ محتاج۔ پابندی ہو تو ان اقدار ِ خداوندی کی جن کے تحفظ سے یہ نظام قائم رہتا ہے۔ اس میں نہ کسی انسان کو حق حکومت سے حاصل ہوتا ہے ،نہ نظام سرمایہ داری بار پاسکتی ہے ظاہر ہے کہ ان مفاد پرست قوتوں کی طرف سے اس نظام کے قیام و استحکام کی شدید مخالفت ہو گی، کوشش کی جائے گی کہ انہیں بدلائل و براہین سمجھایا جائے کہ یہ نظام خود ان کے لئے بھی بڑا مفید ہو گا۔ 

لیکن اس کے باوجود اگر وہ اپنی مخالفت سے باز نہ آئیں اور بزورشمشیر اسے ختم کرنا چاہیں تو اپنی مدافعت کے لئے اس نظام کے حامیوں کو بھی میدانِ جنگ میں اترنا پڑے گا۔ اسی قسم کی پہلی جنگ تھی جو نبی کریم ﷺ کو ۲ھ میں بدر کے میدان میں لڑنی پڑی۔ اس کا پسِ منظر سامنے آجانے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جماعت ِمومنین میدان جنگ میں اتر نے کے لئے کس قدر مجبور ہو گئی تھی اور اس کے نتائج کس قدر دوررس تھے۔

حضور اکرم ﷺ مکہ میں جس نظام کے قیام کی دعوت دیتے تھے، اس سے قریش نے سمجھ لیا تھا کہ اگر یہ نظام (مکہ چھوڑکر) ملک کے کسی بھی حصے میں قائم ہو گیا تو اس کے نتائج میں اس قدر کشش اور جاذبیت ہوگی کہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف کھنچتے چلے جائیں گے اور اس طرح قریش کی زندگی کا سارا نظام تہہ وبالا ہوجائے گا۔ان کی زندگی کا کاروبار غلاموں کے سرپر چلتا تھا۔ اسلامی نظام میں آقا اور غلام کی تمیز ہی نہیں رہتی تھی۔ اس لئے ظاہر ہے کہ اس نظام کے قائم ہو جانے کے بعد ان کے غلام اور لونڈیاں ان کے پاس نہیں رہ سکتے تھے، قریش کعبہ کے متولی تھے اور اس مذہبی پیشوائیت کی بناء پر تمام قبائل کے نزدیک واجب التکریم تھے۔اسلامی نظام میں مذہبی پیشوائیت اور ذاتی تولیت کعبہ کا سلسلہ ہی ختم ہو جاتا ۔

اسی احترام کی وجہ سے قریش کی تجارت بھی محفوظ تھی جس کی وجہ سے ان کے کاروبار کو بڑا فروغ حاصل تھا۔ نسلی اعتبار سے قریش سب سے بڑی امتیازی حیثیت کے مالک تھے۔ اسلامی نظام میں نسلی تفوق اور نسبی امتیازباقی نہیں رہتا ۔یہ وجوہات تھیں کی جن کی بناء پر قریش اسے برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے کہ ملک کے کسی حصے میں بھی یہ اسلام قائم ہو جائے۔ چناںچہ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ مسلمانوں کا تعاقب کیاجائے اور جب تک ان کی تحریک کا استیصال نہ کردیا جائے چین سے نہ بیٹھا جائے۔ ہجرت مدینہ سے پہلے عبداللہ بن اُبی مدینہ کا رئیس تھا۔ حضور اکرم ﷺ کے مدینہ آنے سے اس کی یہ سرداری جاتی رہی قریش نے اسے خط لکھا کہ ’’تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم لوگ انہیں قتل کرڈالو، یا مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کر دیںگے اور تمہیں فنا کر دیں گے‘‘ـ

نبی اکرم ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے عبد اللہ بن ابی کو سمجھایا کہ اس مخالفت میں تم خود اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے لڑو گے ،اس لئے کہ انصار مسلمان ہو چکے تھے۔یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے قریش کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر قریش نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں ۔ ۲ھ کے اوائل میں مکہ کے ایک رئیس کرزبن جابربن فہری نے مدینہ کی ایک چراگاہ پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے مویشی لوٹ کر لے گیا ،یہ اس زمانے کی بات ہے جب قریش کا قافلہ شام کی طرف تجارت کے لئے گیا ہوا تھا، اس قافلے کو واپس اسی راستے (مدینے) سے گزرنا تھا۔ ابوسفیان کو کسی نے یہ غلط خبر پہنچادی کہ مسلمان تمہارے قافلے کو لوٹنے کی فکر میں ہیں ،اس نے اس کی اطلاع قریش مکہ کو بھیج دی۔ وہ پہلے ہی مدینے پر حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔

وہ ایک لشکر جرارلے کر مدینے کی طرف امڈ آئے۔ ہزار سپاہیوں کی جمعیت سو سواروں کا رسالہ، رسد کا یہ انتظام کہ دس دس اونٹ روزانہ ذبح ہوتے۔تمام روسائے قریش شریک فوج جن کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اصحاب ؓ سے فرمایا کہ ’’مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہاری طرف پھینک دئیے ہیں ‘‘ ان کے مقابل حضور اکرم ﷺ کے جاںنثاروں کی کل جماعت تین سو تیرہ نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی اوربے سروسامانی کا یہ عالم کہ ’’ اِن کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں ، آٹھ شمشیریں‘‘۔ قریش کو بدر کے مقام کے قریب معلوم ہوا کہ ابوسفیان کا قافلہ خطرے کی زد سے باہر نکل گیا ہے اور اب اندیشے کی کوئی بات نہیں، لیکن یہ موہوم خطرہ تو محض ایک بہانہ تھا ان کا مقصد اسلامی نظام کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا تھا۔وہ ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے۔

۱۷ /رمضان ۲ھ کو نماز ِ فجر سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے عددی اعتبار سے اپنے اس مختصر مگر قوتِ ایمانی اور بے پناہ جذبہء جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار تاریخی لشکر کی صف بندی کی اور اپنے صدر مقام میں دشمن کا انتظار کرنے لگے۔ اس معرکے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ جب دونوں فوجیں میدانِ جنگ میں صف آراء ہو گئیں تو اللہ کے رسول ﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں دست ِ دعا بلند کرکے والہانہ جذب اور انہماک سے عرض کیا’’بارالٰہ ! اگرآج یہ مٹھی بھر جماعت مٹ گئی تو پھر قیامت تک تیری عبودیت اختیار کرنے والا اس روئے زمین پر کوئی نہیںرہے گا‘‘۔

اس ایک جملے میں بہت سے نکات مضمر ہیں، اولاً تو یہ کہ عبادت کے معنی حکم ماننے کے ہیں ۔ حکم کا ذکر جب بارگاہ ربُ السّموات سے متعلق ہوتا ہے تو حکم ماننے کے معنی ہوتے ہیںیعنی اس کے عطا کردہ قانون کے مطابق زندگی گزاری جائے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مومن جب میدانِ جنگ کا رخ کرتا ہے تو اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں ،غالب آنے کے یا شہید ہو جانے کے ۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی یہ دعا مبنی بر حقیقت تھی، حضورﷺ آخری نبی تھے اور آپ ﷺ کی عمر بھر کی دعوت و تبلیغ کا ما حصل یہی تین سو تیرہ نفوس تھے۔اگر وہ اس وقت ختم ہو جاتے تو پھر قیامت تک ایسی جماعت پیدا نہ ہو سکتی تھی۔ اس معرکے کی اہمیت کا یہ عالم تھا۔

دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ ان میں ہمیں ایک عظیم حقیقت کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے۔ قرآن مجید نے نوعِ انسانی کی ہیئت اجتماعیہ میں ایک عظیم انقلاب یہ بھی برپا کیا کہ اس نے قومیت کا مدار، وطن، نسل، رنگ ، زبان وغیرہ کے اشتراک کے بجائے دین کااشتراک قرار دیا۔ اسی معیار کی رو سے، دنیا بھر کے مسلم ایک قوم کے افراد قرار پاتے ہیں اور تمام غیر مسلم ان کے بالمقابل دوسری قوم کے افراد۔ بدر کے میدان میں یہ ’’دو قومی نظریہ ‘‘ ایسی محسوس اور مرئی شکل میں سامنے آجاتا ہے کہ اس کی صداقت میں کسی قسم کا ابہام یا التباس نہیں رہتا۔ 

اس میدان میں دونوں طرف جو افراد ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں ان کا وطن ایک ہے ، نسل ایک ہے، زبان ایک ہے حتیٰ کہ حسب و نسب کے لحاظ سے بھی وہ ایک ہیں، لیکن اس اشتراک کے باوجود وہ ایسے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، جن میں کسی قسم کا اشتراک نہیں۔ اس تفریق و تقسیم کی بنیاد کیا ہے؟ کفر اور اسلام۔ یہی وہ معیار تفریق تھا جس کی بناء پر ایک طرف حضرت ابوبکرؓ تھے تو دوسری طرف مقابلے میں ان کا بیٹا، ادھر حضرت حذیفہؓ تھے تو صف مخالف میں ان کا باپ عتبہ، ادھر حضرت عمر ؓ ادھر آپ کا ماموں اور ادھر حضرت علی ؓ تھے تو دوسری طرف ان کے بھائی عقیل۔ یہی نہیں ذرا آگے بڑھئے دیکھئے! ادھر خود سرور عالمﷺ تھے تو سامنے کی صف میں آپ کے چچا عباس اور داماد ابو العاص۔ یہی تھی وہ تقسیم و تفریق جس کی بناء پر حبش کا رہنے والا اپنوں میں سے تھا، لیکن حقیقی چچا غیروں میں سے ، روم کا صہیب یگانہ تھا لیکن حقیقی بیٹا بیگانہ۔گویاغزوۂ بدردو قومی نظریئے کاعملی مظاہرہ تھا اور اسی سے وہ دو قومی نظریہ جس کا آغاز سلسلہ نزول وحی کی ابتداء، عہدِ حضرت نوح ؑسے ہو چکا تھا، ایک زندہ حقیقت بن کر سامنے آرہا تھا۔

جنگ کا آغاز ہوا، فرداً، فرداً مقابلہ ہوا۔ سپہ سالار ِ اعظمﷺ لمحہ لمحہ کی حالت کا جائزہ لے رہے تھے۔ آپ جھکے مٹھی بھر کنکر اٹھائے اور دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا’’اب حملہ کرو، انہیں شکست ہوگی‘‘۔

مکی فوج اس ناقابل تسخیر ایمانی چٹان سے ٹکرائی اور اس طرح بکھر گئی جس طرح سمندرکی بے تاب مگر مجبور لہریں ساحل سمندر کی چٹانوں سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جاتی ہیں۔ وہ رکے، رک کر پلٹے اور پھر بھاگ کھڑے ہوئے۔

بدر کی جنگ ختم ہو چکی تھی مسلمانوں نے ’’ جاء الحق وز ھق الباطل ، انّ الباطل کان زھُوقا‘‘ کا نعرہ فتح بلند کیا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔ کفار کے اکہتر آدمی قتل ہوئے جن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا سب سے بڑا دشمن او ر اس امت کا ’’فرعون‘‘ ابوجہل بھی تھا، اتنے ہی قیدی بنالئے گئے۔ مسلمانوں کے شہداء کی تعداد چودہ تھی۔

ملت اسلامیہ کی یہ پہلی جنگ تھی اور اس جنگ کو جو بات دوسری اسلامی جنگوں سے ممیّز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کی قیادت ، سپہ گری، اس کی تیاری اس کے دوران کی تزویرات اور اس کی تدبیرات ،یہاں تک کہ اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے علاوہ اس کے بین الاقوامی پہلو یعنی اس کے دوران امور خارجہ پر فیصلے، غرض یہ کہ اس کا ہر پہلو سرور کائنات، سربراہ مملکت مدینہ کے اپنے ہاتھوں انجام پذیر ہوا۔ قرآن کی سورۃ الانفال اس غزوے کے بارے میں نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو اس جنگ میں تائیدایزدی اور فرشتوں کے ذریعے استعانت و نصرت کی خبر دی گئی۔

جزیرۃ العرب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کفارمکہ کو شکست کا سامنا ہوا۔ قریش مکہ کا مدینہ کی نوزائیدہ مملکت سے شکست کھانا معمولی بات نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بدر میں ظلمت کی نور کے ساتھ کفر کی ایمان کے ساتھ باطل کی حق کے ساتھ اور جاہلیت کی اسلام کے ساتھ لڑائی ہوئی اورحق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بدر میں دو گروہوں کے درمیان جنگ ہوئی اور قلیل گروہ کثیر پر غالب آگیا۔ 

دنیا کی جنگی تاریخ میں ہونے والے فیصلہ کن معرکوں میں سے غزوہ ٔبدر کی طرح کا کوئی فیصلہ کن معرکہ تاریخ کے صفحات کو معلوم نہیں ، جس میں صحیح عقیدے کو فاسد عقیدے پر فتح حاصل ہوئی ہو۔ معلوم ہوا کہ فتح حاصل کرنے والوں کے لئے پہلا اور آخری ہتھیار ’’عقیدہ‘‘ ہی ہے۔ بدر کی فتح عقیدے کی فتح ہے۔یہ فتح کیسے ہوئی؟ اصل میں اسلام و ایمان نے قلوب و عقول کو ایک حال سے دوسرے حال میں بدل دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی آپ کے اصحاب کے دلوں میں سچی محبت اور اطاعت تھی جس نے طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔

آج چودہ سو سال بعد ملت اسلامیہ نہایت ہی تاریک دور سے گزر رہی ہے اور کچھ اس طرح عالم انسانی پر ابھری ہے جیسے کوئی نوزائیدہ مملکت وجود میں آئی ہو۔ اگر حقیقت کو نگاہ میں رکھا جائے تو عالمِ اسلام کا بیشتر حصہ نوزائیدہ مملکتوں پر مشتمل ہے، لیکن دورِ نبویؐ کی طرح وسائل کی کوئی کمی نہیں، اس کے باوجود ملت ِ اسلامیہ ہر طرف سے دشمنوں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ 

ان حالات میں آج ملتِ اسلامیہ کو ایمان کی رسی کو تھامنے اور سنت خاتم الانبیاﷺ کو اپنے پاؤں کی بیڑیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اللہ کی طرف سے استعانت اور فرشتوں کے نزول کا وعدہ کسی وقت اور مقام کے ساتھ مخصوص و مشروط نہیں، بلکہ یہ وعدہ ہر مقام اور ہر وقت کے لئے ہے لیکن ضرورت صرف جذبہ ایمان اور اس عشقِ حقیقی اور اطاعت ِ رسول ﷺ کی ہے جو اسلام کے دور اوّل کے مسلمانوںاور مجاہدین بدر میں تھا۔

تازہ ترین