• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مخدوم محمد دُریاب یوسف ہاشمی

1886ءکی بین الاقوامی مزدور تحریک میں مزدوروں نے قربانیاں دے کر، جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنے حقوق منوائے کہ امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں مزدور عرصہ دراز سے اپنے بنیادی حقوق مانگ رہے تھے جبکہ صنعت کار ملزمالکان اُن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی مسلسل کرتے ہوئے محنت کشوں سے12/14گھنٹے روزانہ کام لیتے جس کا معاوضہ مانگنے پر تشدد جبر روا رکھا جاتا اس پر تنگ آکر مختلف انڈسٹریز کے مزدور مل بیٹھ کر مشترکہ طور پر ناانصافی ظلم تشدد جبر کے خلاف باقاعدہ منظم ہو کرمزدوروں نے مطالبات انتظامیہ انڈسٹریز کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ مالکان ملز جوکہ سرمایہ کے نشے میں چور تھے ،بُرا منایا اور ریاستی مشینری کے ذریعے جبر و تشدد شروع کر دیا۔ 

مزدوروں پر جھوٹے مقدمات بنوا دیئے۔ مالکان کے اس ظلم کے باوجود مزدوروں نے پُرامن مطالبات کے حصول کا مطالبہ جاری رکھا تو ملزمالکان نے ریاستی مشینری کے ذریعہ نہتے محنت کشوں، اُن کے بیوی بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ مالکان نے اس طرح اپنا ظالمانہ تسلط استحصالی نظام جبراً نافذ کرنا چاہا۔ مگر مزدور استحصالی قوتوں کے جبر و تشدد خون ریزی قتل و غارت گری کے مقابلہ میں ڈٹ گئے اور اپنا احتجاج جاری رکھا صنعت کاروں، ریاستی مشینری کے افسران نے پُر امن جدوجہد کو پامال کرنے کی منصوبہ بندی کرکے محنت کشوں پر گولیاں برسادیں، مزدوروں کے سفید جھنڈوں کو خون میں لت پت کر کے خون کے رنگ میں ڈبو دیا۔ پہلی بار مزدورں کی جانوں کی قربانی نے دُنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجہتی کا سبق دیا، اس طرح دُنیا بھر کے مزدوروں ایک ہو جائو کا نعرہ بلند ہوا۔

دنیا بھر کے مزدوروں کو استحصالی قوتوں کے خلاف ایک ہو کر جدوجہد کا راستہ دکھائی دیا۔ مزدوروں نے سوچ لیا کہ کیوں نہ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو کر عالمی طور پر منظم ہو جائیں اور عالمی طور پر ایک ہو کر منظم طور پر مشترکہ جدوجہد کریں۔ 1886میں امریکہ کے شہر شکاگو میں رکھی گئی مزدور تاریخ کی بنیاد کے نتیجہ میں مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر 8گھنٹے سے زائد کام لینے پر ڈبل اوور ٹائم لینے کا مطالبہ منوایا۔ ہنر محنت ایک طاقت ہے، صنعت کار اپنے سرمائے سے ملیں لگاتے ہیں جبکہ محنت کش اپنے ہنر سے ملیں انڈسٹریز چلاتے ہیں تو اس طرح ایک حساس اہم رشتہ استوار ہوتا ہے۔ 

مزدور کو اس طرح آجر اور اجیر دونوں ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں یہ دونوں پہیے لازم اور ملزوم ہیں اگر ان کو اسی جذبہ سے قائم رکھا جائے تو ایک دوسرے پر اعتماد کیا جائے۔ ایک سرمایہ لگا کر حصہ دار تو دوسرا محنت مشقت کرکے حصہ دار، مزدور کو اُس کی محنت کے مطابق اُجرت دی جائے۔ محنت کش کی اسودگی صحت کا خیال رکھا جائے اور جس انداز سے ملز، ادارہ، انڈسٹری ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں اُسی طرح محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے اُس کو اور زیادہ محنت کی طرف راغب کیا جاتا رہے تو صنعتی امن لازمی طور پر قائم رہے گا۔ آجر اور اجیر متوازن رویہ اپنائے رکھیں تو صنعتی امن برقرار رہتا ہے۔ دونوں فریق خوشحالی کی طرف گامزن رہتے ہیں۔

بین الاقوامی طور پر محنت کشوں کی جدوجہد 1886سے شروع ہوئی۔ مسلسل جہدوجہد کے نتیجہ میں محنت کشوں کے قوانین بننے کی ایک بار پھر شکل نکلی۔ ٹریڈ یونینز اور ورکز فیڈریریشن یورپی ممالک برطانیہ میں باقاعدہ ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان میں بھی ٹریڈ یونین فیڈریشنز کنفیڈریشن کا قیام عمل میں آچکا ہے مگر کاغذی طور پر۔ صرف ایوب خان کے آخری حکومت کے دنوں میں گورنر ایئر مارشل نور خان نے مزدوروں کے حق میں پہلی بار قوانین بنانے کا صرف اعلان کیا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سے استعفیٰ کے بعد میدانِ سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی یکم مئی منا کر اس کا عملی آغاز کیا اور بعد میں اقتدار میں آتے ساتھ ہی پاکستان بھر میں ٹریڈ یونینز فیڈریشن کو عملی طور پر کھل کر کام کا موقع دیا گیا۔ 

بھٹو کے اقتدار کے دور میں ٹریڈ یونینز کا شباب قائم رہا جیسے ہی بھٹو کی گورنمنٹ کمزور پڑی خود ذوالفقار علی بھٹو کے آخری آیام میں صنعت کاروں، سرکاری و نیم سرکاری اداروں، واپڈا، نیسپاک اور دیگر اداروں میں محکموں کے سربراہوں نے ٹریڈ یونین رہنمائوں کو ٹریڈ یونین بنانے کی پاداش میں ملازمتوں سے جبراً نکال دیا گیا۔ نکالنے کی وجہ بیان کئے بغیر، بغیر نوٹس، بغیر چارج شیٹ ظالمانہ جابرانہ قوانین کا جبراً اطلاق کرکے محنت کشوں کو اور اُن کے رہنمائوں کو ٹریڈ یونینز کی بنیاد پر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا کر نکال دیا گیا۔ 

ایسے قوانین کا مزدور لیڈروں پر بدنیتی سے جبراً اطلاق کیا گیا۔ یہ سلسلہ آج 2021میں بھی کسی نہ کسی طور پر کم و بیش جاری و ساری ہے۔ مزدوروں کو انصاف آج تک نہیں مل سکا صرف اور صرف بنام سرکار لیبر ڈیلروں کو یونین بنانے، جلسے جلوس کرنے کی اجازت ہے باقی کسی جینوئن لیبر لیڈر کو اجازت نہیںہے۔ پاکستان کے مزدوروں کو حقوق کے حصول کیلئے طبقاتی طور پر اسمبلیوں، سینیٹ، لوکل باڈیز میں اپنا حق نمائندگی لینے اور زندگی کے ہر موڑ پر استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کرنا ہو گی۔ خود اپنے اندر سے اپنی کلاس کے لوگوں کو نمائندہ بنانا ہو گا۔ 

روایتی اسمبلی ممبران، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسنے، اعتماد کرنے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی بجائے خود میدان میں نکلنا ہوگا۔ محنت کشوں کو عہد کرنا ہوگا کہ صرف یوم مئی کا ایک روزہ دن منانے کی حد سے نکل کر عملی طور پر استحصال سے پاک غیر طبقاتی مساوات پر مبنی معاشرے کے عملی قیام کیلئے منظم انداز سے عملی کاوش کرنا ہو گی۔ 

اگرچہ نامساعد حالات ہیں اس وقت پاکستان میں الیکشن سے قبل الیکشن ریفارمز کی ضرورت ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کے حق میں ریفارمز کرکے ایسا ماحول پیدا کرے کہ آئندہ الیکشن میں مزدور کسان حصہ بطور امیدوار لے سکیں جو کہ ابھی تک ملکی قوانین میں اس کی گنجائش نہ ہے مزدوروں کو اپنے حق میں ریفارمز لانے کیلئے بھی جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ حکومت اور سیاسی پارٹیاں ریفارمز میں بھی مزدروں کسانوں کیلئے ریفارمز لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ 

مزدوروں کی کہیں شنوائی نہیں، مزدوروں کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے ایک بار پھر جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔ عالمی مزدور تحریک سے رشتہ استوار رکھنا ہوگا، جدوجہد کو مزدور و کسان راج پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ بنانے تک جاری رکھنا ہوگا۔ عالمی مزدوروں نے مزدوروں کیلئے جو قربانیاں دیں اُن کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے آج یکم مئی 2021کو ایک بار پھر تجدید عہد کرنا ہوگا۔ 

تازہ ترین