جب بھی کسی ملک کو ادائیگیوں کے توازن میں مالی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو وہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رجوع کرتا ہے تاکہ ادائیگیوں میں توازن لانے کیلئے اس کی مدد لی جاسکے ۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اس ملک کو مراعات دینے کے بعد اسکی حکومت کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی طلب اور رسد میں توازن کو بحال کرے اور ساتھ ہی اس ملک پر سخت مالی اور زری پالیسی عائد کردی جاتی ہے تاکہ طلب کی مقدار کو کم کیا جاسکے اور اہم اصلاحات کے نفاذ کے ذریعے ملکی پیداوار کو بڑھایا جاسکے ۔ پاکستان نے سال 2008ء ماہ اکتوبر اور نومبر کے دوران آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج کیلئے رجوع کیا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیلئے بھاری قرضہ حاصل کیا۔ تاہم پاکستان، معاشی بحالی کی لئے آٰئی ایم ایف کی تجویز کردہ متعدد اصلاحات نافذ کرنے میں ناکام رہا۔ جن میں خاص طور پر ملک میں موجود قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے، بجلی کے شعبے اور پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (سرکاری اداروں) کی بحالی میں ناکامی شامل ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر آئی ایم ایف پروگرام مئی 2008ء کو معطل کردیا گیا۔گزشتہ 5سالوں میں مالی بے ضابطگیوں اور لاپرواہی کی وجہ سے پاکستان ایک مرتبہ پھر گشتی قرضوں کے سنگین بھنور میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اکتوبر، نومبر 2008ء میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والے افراد ناتجربہ کار تھے، جنھیں اس بات کا اندازہ بھی نہ تھا کہ آئی ایم ایف سے لینے والی بھاری قرضہ کی رقم کو چند ہی برسوں میں واپس بھی لوٹانا ہے۔ آج قوم کو ان کی غلطیوں کا ازالہ کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے شرح مبادلہ کو دیکھتے ہوئے بیرونی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے اس کے حجم پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں کہ کیا پاکستان قرضوں کی واپسی کی سکت رکھتا ہے۔ 2جون کو دی نیوز میں شائع ہونے والی ایسوسی ایٹ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں پہلے سے ہی ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جہاں بینکوں کی جانب سے ان صارفین کو جو کہ اپنی رقم ڈالر کی شکل میں نکلوانے کے خواہش مند ہوتے ہیں، انہیں کہا جاتا ہے کہ بینکوں کے پاس ڈالر موجود نہیں ہیں یا ان صارفین کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اگر وہ اپنی رقم ڈالر کی شکل میں نکلوانا چاہتے ہیں تو وہ اس کیلئے بینکوں کو خصوصی طور پر پیشگی درخواست دیں۔ دوسری جانب مقامی اور عالمی سرمایہ کار نئی حکومت کی جانب سے معاشی طور پر ہونے والے اقدامات کے منظر نامے سے انتہائی خوش نظر آتے ہیں اور بے صبری سے پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان سرمایہ کاروں کے پاس وسیع منصوبے موجود ہیں تاہم وہ نئی حکومت کی جانب سے اپنے پانچ سالہ دور کے آغاز میں معاشی بحالی کے ایجنڈے اور معاشیات کیلئے اختیار کی جانے والی پالیسیوں کے منتظر ہیں۔ اگر چہ نئی سیاسی قیادت کے کاندھوں پر بجلی کے بحران کو حل کرنے کی بڑی ذمہ داری ہے تاہم انہیں چاہیئے کہ وہ پاکستان کو قرضوں سے آزاد کروانے پر بھی توجہ دیں جو کہ ان کیلئے دوسرا بڑا اور اہم چیلنج ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کسطرح بیرونی قرضوں سے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں، ایک مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ پاکستان کو پوری طرح معاشی بحران سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہیئے جب کہ دوسرے کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے امداد ملنے کا انتظار کیا جائے۔آئی ایم ایف پروگرام کے حامی ان محرکات کو بھی توجیہ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ مئی 2010ء میں آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کے بعد سے بیرونی آمد زر میں کمی واقع ہوئی ہے اور پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اپنے زرمبادلہ کے ذخائر سے کرنی پڑرہی ہے اور اس دوران اب تک پاکستان کو 8 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً چھ ارب روپے تک کمی ہوچکی ہے جس میں سے 40فیصد رقم قرضوں کی مد میں کمرشل بینکوں سے لی گئی ہے۔ اسی طرح اگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ میں کمی ہوتی رہی تو کمرشل بینک مرکزی بینک کو قرضہ نہ دینے پر غور کرسکتے ہیں، اور اگر اس طرح اعتماد کا فقدان پیدا ہوا تو ملک تاریکیوں میں گھر سکتا ہے۔ پاکستان کو رواں برس28 جون تک آئی ایم ایف کو 264ارب روپے کی رقم ادا کرنا پڑیگی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو رواں سال جولائی اور دسمبر کے درمیان صرف آئی ایم ایف کو اضافی 2ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے حامی طبقے کا کہنا ہے کہ قبل اس کہ پاکستان کی معیشت پوری طرح تباہ حالی کا شکار ہوجائے پاکستان کو چاہیئے کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے سے وسط مدتی پروگرام کیلے مذاکرات کرے۔ دوسری جانب ایک اور طبقے کے خیال میں پاکستان کو مزید چار سے پانچ ماہ تک انتظار کرنا چاہیئے تاکہ آئی ایم ایف سے رابطے سے قبل ملکی سطح پر اصلاحات کی جاسکیں۔ اس سوچ کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ نئی حکومت آئی ایم ایف کے بجائے امداد کے متبادل ذرائع حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل حکومت اپنی تیاری مکمل کر سکے گی۔ یہ ایک بہتر مگر گھاٹے کا سودا ہوسکتا ہے۔پاکستان کے 2008ء اور 2009ء حالیہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غیر متوقع غیر ملکی زرمبادلہ پر اعتماد کی وجہ سے مالیاتی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔ دوسری جانب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امداد کے یہ متبادل ذرائع کتنے کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ کم از کم میں نہیں جانتا۔ اگر چہ یہ ذرائع قابل اعتبار بھی ہوں تاہم یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسکا التواء ثابت ہوگا اور حکومت کو آئی ایم ایف سے نئے پروگرام پر مذاکرات کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا ۔ 19جون کوآئی ایم ایف کی جانب سے نئے پروگرام کے اجراء سے قبل اس کا نگراں مشن پاکستان پہنچ رہا ہے، میری رائے یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کرسکتا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کی بقیہ رقم ادا کرنے کیلئے امداد بھی طلب کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے اصلاحات کے بعد ایک بہتر ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے جس کے ذریعے آئی ایم ایف کو قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ وسط مدتی پروگرام شروع کرنے پر رضامند ہوجائے؟ میرے تجربے اور فہم کے مطابق پاکستان کو تین اہم شعبوں میں بہتری لانا ہوگی۔ جن میں قدرتی وسائل کو بروئے کار لانا، بجلی کے شعبے میں اصلاحات اور حکومتی اداروں کی ساخت کو ازسرنو مرتب کرکے اس کی نجکاری کرنا شامل ہے۔ یہ تینوں اہم عوامل مسلم لیگ (ن) کے منشور میں بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور کے مطابق تمام آمدنیوں کو براہ راست ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے اختتام تک ٹیکس کی بنیادوں کو مزید وسعت دینے اور مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) میں ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر 15فیصد تک کرنے پر یقین رکھتی ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے نیا پروگرام شروع کئے جانے کے بعد اسی طرح کی تجاویز حکومت کو دی جاسکتی ہیں۔اگر چہ حکومت نے باقاعدہ طور پر ابھی ریاست کے اختیارات بھی نہیں سنبھالے ہیں، تاہم اسکی قیادت بجلی کے شعبے کی بحالی کے حوالے سے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے بجلی کے شعبے کی بحالی کیلئے وسیع پیمانے پر قلیل مدتی اور وسط مدتی پروگراموں کو شروع کیا جاچکا ہے جو کہ آئی ایم ایف پروگرام کی دوبارہ بحالی کے ایجنڈے کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ بحالی کے اس ایجنڈے میں گیس کی سی این جی کے شعبے سے بجلی کے شعبے میں منتقلی بھی شامل ہے جو کہ معاشی اور انتظامی طور پر سرانجام دی جاسکتی ہے جبکہ یوٹیلیٹی کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بناکر میرٹ کے ذریعے تقسیم کار کمپنیوں میں پیشہ ورانہ اہل افسران کی تعیناتی کی جائے، بجلی چوری کو کم کیا جائے، اور سوسائٹی کے ضرورتمند طبقے کو بجلی پر مراعات دی جائیں اور سسٹم میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔تباہ حال قومی اداروں کی ساخت کی بحالی اور اس کی نجکاری کیلئے وزیراعظم خود قومی اسمبلی کے فلور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ان اداروں میں قابل اور اہل نئی انتظامیہ لائی جائیگی جنھیں ان کے مرکزی عہدوں پر فائز کیا جائیگا اور آزادانہ بورڈز تشکیل دیئے جائیں گے، جن کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے ان کے اہداف متعین کئے جائیں گے۔جب ان اداروں کی ساخت بحال ہوجائیگی تو ہی حکومت ان کی نجکاری پر غور کر سکتی ہے۔ یہ تمام اقدامات صحیح سمت کی جانب مثبت پیش رفت ہے جوآئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ بحال کرنے کے ایجنڈے کا حصہ بھی ہوسکتے ہیں۔حکومت کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ حکومت نہ صرف کفایت شعاری کو فروغ دے گی بلکہ قدرتی وسائل کو بھی بروئے کار لائے گی۔ حکومت کی جانب سے یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ وہ ٹیکس حکام کو مزید بااختیار بنائے گی اوران عہدوں کے لئے وہ ایماندار افراد کا تقرر کریگی۔ میرے خیال سے آئی ایم ایف کی جانب سے ممکنہ بحالی کے ایجنڈے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور میں شامل بحالی کے ایجنڈے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔کیا اسی لئے پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک نئے پروگرام کیلئے مذاکرات کرنے کی تجویز دی جارہی ہے ۔ ایسا کرنے سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور یہ پاکستان کی معشیت اور خود مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے ایک اچھا شگون ہوگا۔