• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کمپیوٹرائزڈ ہو چکی ہےمگر انتخابی طریقہ کار کوئی ڈیڑھ سو سال پرانے انگریزوں کی بدروحوں جیسا ہے ۔فواد چوہدری جب سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر تھے تو انہوں نے ایک ووٹنگ مشین بنوائی تھی ،پھر عمران خان کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ بھی پیش کیا گیا ، تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔پاکستان کی تیار کردہ یہ مشین تقریباً ویسی ہی ہے جیسی امریکہ میں ووٹنگ کےلئے استعمال کی جاتی ہے ۔شبلی فراز نے بھی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کا چارج سنبھالتے ہی سب سے زیادہ توجہ اسی ووٹنگ مشین پر دی کہ کیسے اسے بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔اس کامطلب یہی ہوا کہ عمران خان نے طے کرلیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے انتخابات میں دھاندلیوں کے سلسلے ختم ہونے چاہئیں ۔اصولاًاپوزیشن کواس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے مگر اپوزیشن فواد چوہدری کی اپیل پر کسی گہری سوچ میں اتر گئی ہے۔فواد چوہدری کی اپیل تو اتنی سی تھی کہ اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کرانے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے اپنی تجاویز پیش کرے ۔سوال پیدا ہوتاہے اپوزیشن گومگو کی صورتحال میں کیوں ہے ۔

شاید اس لئے کہ ایک تو وہ سمجھتی ہےکہ بیرون ملک پاکستانیوں میں عمران خان ابھی بہت مقبول ہیں دوسرااگرالیکٹرانک ووٹنگ مشین آ گئی اورمعاملہ انسان کے ہاتھ سے نکل کرکمپیوٹر کے پاس چلا گیا توکمپیوٹر کے دماغ کوخریدناآسان کام نہیں ہوگا۔جن ممالک میں الیکٹرانک مشینوں سے ووٹنگ ہوتی ہے دھاندلی کا شور وہاں بھی اٹھتا ہے مگردھاندلی صرف ایسے کمپیوٹر انجینئر ہی کرسکتے ہیں جواس میدان میں حرفِ آخر ہو ں ۔ وزیر اعظم نے اس حوالے سےاسپیکرقومی اسمبلی کو خط لکھا۔اسپیکر نے اپوزیشن رہنماؤں کو خطوط لکھے مگر جواب کے انتظار میں آنکھیں پتھرائی جارہی ہیں ،فواد چوہدری نے کہاحکومت اپوزیشن کے ردعمل کا غیر معینہ مدت تک انتظار نہیں کرسکتی کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ اگلے عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے ذریعے ہوں اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کورائے دہی کا حق ملے ۔

فواد چوہدری کے خیال میں پاکستان کے سیاسی نظام کی سب سے بڑی خرابی قابل اعتماد اور شفاف انتخابات کا عدم انعقاد ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ، لیکن سب سے اہم وجہ سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کی کمی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں بھی کئی مسائل پیدا ہوئے ۔آر ٹی ایس سسٹم نے کام نہ کیا ۔ووٹ روایتی طریقے سے گنے گئے ۔رزلٹ لیٹ ہوئے۔اپوزیشن نےپھر دھاندلی کا الزام لگایا۔ میرے خیال میں اب اس کے سوا کوئی حل نہیں رہا کہ انتخابات اسی طرح کرائے جائیں جیسے ترقی یافتہ دنیا میں ہوتے ہیں ۔یہی اس وقت حکومت چاہ رہی ہے سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپوزیشن کیوں شش و پنج میں ہے ۔

ابھی کراچی کے ضمنی انتخابات کے نتائج سن کر مریم نواز نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے الیکشن چوری کرلیا ہے ۔ڈسکہ میں بھی غیر یقینی صورتحال رہی حتیٰ کہ اس میں ابھی تک سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او بلکہ کچھ اورافسران بھی معطل ہیں ۔جن کا کوئی قصور نہیں ۔وہ سب انتخابی نظام کی خرابی کا شکار ہوئے ۔سو انتخابی نظام میں اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں اور ان اصلاحات کو زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا ۔بے شک عمران خان کے بہت سے فیصلے مقبول فیصلے نہیں تھے مگر بقول اسد عمر جو لیڈر ہوتے ہیں وہ الیکشن جیتنے کےلئے فیصلے نہیں کیا کرتے۔سو اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی چاہے جیتے چاہے ہارے ۔یہ عمران خان کا فیصلہ ہے کہ انتخاب صاف شفاف ہو ںگے۔اس کا کنٹرول انسانی ہاتھوں کی بجائے کمپیوٹر کے دماغ کے پاس ہوگا ۔

حکومت اب کچھ مقبول فیصلوں کی طرف بڑھ رہی ہے ، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اعلان کیا ہے کہ کم سے کم تنخواہ بیس ہزار روپے ہوگی ۔اس سے پہلے غریب کی طرف اس انداز میں توجہ نہیں دی گئی ۔اس مقصد کےلئے وزیر اعلیٰ نے انتہائی قابل افسرسید بلال حیدر کو سوشل سیکورٹی کا کمشنر مقرر کیا اور پھر بہت کم عرصہ میں وزیر اعلیٰ نے سوشل سیکورٹی کنٹری بیوشن کی شفاف اورباسہولت ادائیگی کیلئے سیلف اسسمنٹ اسکیم کا اجرا کیا ۔ سوشل سیکورٹی سےاسپتالوں میں عوام کیلئے مفت ایمرجنسی طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی ۔سوشل سکیورٹی انسپکشن20فیصد تک محدودکی گئی ، ورکرز کیلئے میرج گرانٹ ایک لاکھ سے بڑھا کر 2لاکھ، ڈیتھ گرانٹ5 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کردی، محنت کشوں کے بچوں کیلئےتعلیمی وظائف کا آن لائن شفاف نظام متعارف کرایا ہے۔اب سوشل سیکورٹی اورٹیلنٹ اسکالرشپ درخواستیں گھربیٹھےدائرکی جاسکتی ہیں، ننکانہ اورملتان کی لیبرکالونیوں میں محنت کشوں کوفلیٹس الاٹ کئے، لیبر ہاؤسنگ کالونی ملتان میں992فلیٹس کی شفاف الاٹمنٹ کی گئی ۔مجھے لگتا ہے کہ اسی طرح اگر غریبوں کی بھلائی کےلئے حکومت کام کرتی رہی تو اسے اگلے صاف شفاف انتخابات میں جیتنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ شاید انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کی گومگو کی کیفیت کی یہی وجہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین