• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ) 

آج سے چند ہفتے قبل جب لاہور شہر کے حالات کورونا کے حوالے سے کچھ بہتر تھےتو ہم حسبِ روایت دہلی گیٹ بیرون کوتوالی پولیس اسٹیشن جاپہنچے، کبھی آپ کو کوتوالی کے بارے میں بھی دلچسپ باتیں بتائیں گے ۔

ویسے تو ہم دہلی گیٹ ‘مسجد وزیر خان‘ حضرت میراں بادشاہ کے مزار اور شاہی حمام وغیرہ کئی مرتبہ جا چکے ہیں۔آج سے پچاس برس قبل یہ علاقہ بہت صاف ستھرا اور پرسکون تھا۔ مجال ہے کسی کا کندھےسے کندھا ٹکرایاہو۔اب تو اتوار کے دن اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ کیا بیان کریں ۔کبھی شاہی حمام پر بسنت کا بہت بڑا تہوار منایا جاتا تھا جو اب سے کوئی پچیس ‘تیس برس پہلے کی بات ہے ۔

پرانے لاہوریئے لاہو رسے انتہائی عشق کرتے ہیں ہماری تو پہلی محبت ہی لاہور ہے اور دوسری محبت کا ذکر نہیں کر سکتے وہ امریکہ میں ہے اور ہمارے دل ودماغ میں ہمیشہ رہے گی ۔اندرون لاہور جو تیرہ دروازوں پر مشتمل ہے‘ وہاں کی کئی گلیوں،بازاروں اور محلوں میں متعدد اولیائےکرام‘ بزرگوں اور مختلف لوگوں کی قبریں موجود ہیں۔ مسجد وزیر خاں وہ واحد مسجد ہے جس کے صحن میں زمین سے بیس فٹ نیچے حضرت میراں بادشاہ ؒکا مزار مبارک ہے اور مسجد کے باہر ان کے بھائی حضرت صوفؒ کا مزارِ مبارک ہے ۔

شاہی حمام کے پاس بھی ایک مزارِ مبارک ہے جہاں لوگ اپنے بچوں کی شادیوں کے لئے منت اور دھاگے وغیرہ باندھتے ہیں۔لاہور شہر کے اندر کئی مکانات کے اندر قبریں بھی ہیں جو ہم نے خود دیکھی ہیں ۔ مثلاً بازار حکیماں (بھائی گیٹ) میں فقیر خانہ میوزیم کے سامنے ایک چھوٹے سے احاطے میں دومزار ہیں‘ پھر آگے چل کر ایک حویلی نما مکان خواجہ متین کاتھا( جو لاہور کالج کی پہلی پرنسپل اور آخری وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ متین مرحومہ کے خاوند ہیں)‘ اس میں بھی دو قبریں ہیں ۔

بھاٹی گیٹ بڑا تاریخی اور مردم خیز علاقہ تھا اس نے بڑے نامور لوگ پیدا کئے ہیں جن کا ذکر ہم اپنے گزشتہ کالموں میں کر چکے ہیں ۔بھاٹی گیٹ میں محلہ پٹ رنگاں ہے‘ اس محلے میں ریشم کو رنگنے کا کام کیا جاتا تھا یہ کام عتیق ﷲ کرتے تھے وہاں ایک تکیہ بھی تھا جس میں ان کے خاندان کی قبریں ہیں۔ ہمیں یاد ہے بھاٹی گیٹ کے محلہ چومالا میں لکڑی کے بلاکس جنہیں پٹے بھی کہتے ہیں‘ ان پر پھول بوٹے بنے ہوتے تھے ان کے ذریعے اندرون شہر کی خواتین اپنے دوپٹوں اور قمیصوں پر کئی طرح کے رنگوں کی چھپائی کرایا کرتی تھیں ۔ہم بچپن میں کئی مرتبہ اپنی والدہ کے کپڑے چھپائی کے لئے یہاں لے جاتے تھے ۔ہائے کیا زمانہ تھا !

اندرون شہر کچھ گلیوں میں ہر جمعرات کو موم بتیاں اور دیے جلائے جاتے ہیں اس کے لئے باقاعدہ صدیوں سے قائم شمع دان بنے ہوئے ہیں۔ خصوصاً جمعرات کو ان گلیوں کے باہر مکانوں کی دیواروں میں شمع دانوں میں لوگ دیئے ضرور جلاتے ہیں ہر جمعرات کو مختلف مزاروں پر چادریں چڑھانے کی رسم بھی بڑی قدیم ہے، روایتی ڈھول کے ساتھ یہ چادریں چڑھائی جاتی ہیں مگر اب کورونا کے باعث یہ آجکل ممکن نہیں ہے ۔

خیر دوستو !دہلی گیٹ میں ہم اس گلی میں گئے جس کو سوچا چرگراہ کہا جاتا ہے یہ گلی کہیں سے دو فٹ اور کہیں اس سے بھی کم چوڑی ہے ، ایک وقت میں صرف ایک شخص یہاں سے گزر سکتا ہے ہم کئی مرتبہ واپس ہوئے اور جب گلی خالی ملی تو دوڑ کر اس کو پار کیا۔

یہ بڑی تاریخی گلی ہے آپ ایک مکان کی کھڑکی سے دوسرے مکان کی کھڑکی سے کھانے پینے کی اشیاء پکڑ سکتے ہیں،یہاں کے مکین اسی طرح کرتے رہتے ہیں ۔ہم نے یہ گلی جب آج سے پچاس برس قبل دیکھی تو اس وقت اس گلی کے تقریباً سب ہی مکان آباد تھے آج پھر کچھ عرصہ پہلے گئے تو گلی میں وہ رونق نہیں تھی ایسا لگتا ہے کہ اس گلی میں قیام پاکستان سے قبل کافی ہندو رہائش پذیر ہوں گے کیونکہ اس گلی کی دیواروں پر آج بھی ہندی میں کچھ لکھا ہوا ہے ۔اگر ﷲ نے موقع دیا اور زندگی دی تو ضرور آئندہ کبھی کسی ہندی شناس سے دیواروں پر لکھی ہوئی ہندی زبان کے ان الفاظ کے بارے میں معلوم کریں گے۔دیواروں پر یہ ہندی کی تحریریں اتنی واضح ہیں کہ 73برس گزرنے کے باوجود دور سے پڑھی جاسکتی ہیں ۔اس دو فٹ کی گلی کے کچھ مکانات میں لوگ نہیں رہتے‘ کہاں چلے گئے اس کے بارے میںکسی کو کچھ علم نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ یہ گلی مغلوں کے دور حکومت میں آباد ہوئی تھی ہمارے ہاں ریسرچ تو ہوتی نہیں اب کیا پتہ یہ گلی کیوں صرف ڈیڑھ ‘دو فٹ چوڑی رکھی گئی اور اس قدر قریب مکانات بنانے کی کیا وجہ تھی۔

جناب آج ہم آپ کو لاہور میں واقع ایک ایسی حویلی کے بارے میں بتائیں گے جس میں پچھلے 73برسوں سے رہائش پذیر افرادکوبھی نہیں پتہ کہ یہ حویلی کس کی ہے بلکہ جس جگہ یہ حویلی ہے اس حویلی کے بارے میں سوائے ایک خاتون رشیدہ کے کسی کو بھی نہیں پتہ۔ ہم تو یہ حویلی پچھلے پچاس برس سے دیکھ رہے ہیں اس کے کئی کمروں میں جا چکے ہیں۔ بڑی خوبصورت حویلی ہے،یہ حویلی مہاراجہ نرندر سنگھ کی ہے جو بڑے وسیع رقبے پر ہے اس کو سی بلاک بھی کہتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل یہ حویلی اس کے مکینوں کے پاس تھی اور اب ایک میڈیکل کالج کے زیرِ استعمال ہے اس کو اس کے اصل مالک مہاراجہ نرندر سنگھ کے بیٹے سریندر سنگھ اور ان کے پوتے شمشیر سنگھ 1996ء میں دیکھنے آئے تھے‘ اس تاریخی حویلی کے بارے میں شاید ہی کوئی لاہوریا جانتا ہو۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین