• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چالیس برس قبل ہندوستان کے احباب سے میرا رابطہ شروع ہوا۔ دہلی کے خالد صابر صاحب سے فرمائش کرکے ’’الرسالہ‘‘ بذریعہ ڈاک منگوانا شروع کیا۔ ایک صفحہ پر صرف ایک مضمون اور وہ بھی کہانی کے انداز میں۔ یوں لگتا جیسے بچپن میں سنی اور پڑھی جانے والی کہانیاں زندہ ہو گئیں۔ افسانوی رنگ کی جگہ چلتے پھرتے واقعات اورحقیقی دنیاکے زندہ کردار۔ یوں پہلا تاثر تو یہ بنا کہ گویا شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان اور رومی کی حکایات کے جدید ایڈیشن شائع ہو رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر صفحہ نصیحت، دانائی اور حکمت سے بھرپور اور ہر سطر دلچسپ اور دلنشین …کئی برس الرسالہ انڈیا سے بذریعہ ڈاک آتا رہا۔ اسی دوران مولانا کی دیگر کتب بھی پڑھنے کو ملیں۔ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ پڑھ کراحساس ہواکہ مولانا اس میدان میں نہ ہی اُترتے تو بہتر تھا۔ ایک فرد کے لئے تو مولانا باکمال طبیب ثابت ہو رہے تھے لیکن ملت اور اُمت کے لیے ان کی دانائی کارنگ پھیکاپھیکا سا لگا۔کچھ لوگ سمجھتے ہیںکہ مولانا وحید الدین پہلے آدمی ہیں جنہوںنے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اقامت دین کی فکر سے اختلاف کرکے کوئی نیا نقطۂ نظر دیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ اس معاملہ میں اول آدمی تو پروفیسرقمرالدین خان تھے جو جماعت کی تاسیس کے بعد پہلے ناظم شعبہ تنظیم مقرر ہوئے۔آپ نے علی گڑھ سے بی ایس سی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کررکھاتھا۔ 1942ء ہی میں جماعت سے الگ ہو کر مولانا مودودیؒ کو چیلنج کرتے ہوئے کتاب لکھی Political Concept in the Quran۔ پروفیسر صاحب کی تعبیر یہ تھی کہ قرآن کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے، قرآن نہ کوئی تصورِ ریاست اور نظریہ اقتدار اعلیٰ پیش کرتا ہے۔ قرآن میں کوئی عدالتی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی کوئی مالیاتی نظام ۔ اسلام اخلاقی تعلیمات کا ایک مجموعہ ہے۔ ’’قرآن کے بعض الفاظ سے جو سیاسی تصورات کشید کیے گئے ہیں وہ چند سیاسی مہم جو لوگوں کی ذہنی اُپچ ہے۔ ‘‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قمر الدین صاحب کے اس ’’تحقیقی کام ‘‘ کاکوئی جواب نہ دیا البتہ پروفیسر عبدالحمید صدیقی مرحوم نے اس کا تفصیلی جواب تحریر کیا۔ اس کا ایک جملہ یہ تھاکہ :’’اسلام ایک کیش مرداں ہے لیکن پروفیسر صاحب نے اس کو مذہب گو سفنداں بنا کر پیش کیاہے ‘‘۔

1990کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر کی تحریک حریت،شاہ بانوکیس ،بھارت میںمسلم کش فسادات، گولڈن ٹمپل کاسانحہ، یادوں کی رتھ یاترا اور بابری مسجد کے تنازعہ سے پورے ہندوستان میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ اس دوران ہندوستان کی طلبہ تنظیم …Student Islamic Movement of India۔نے بمبئی میں طلبہ کی ایک بڑی کانفرنس میں مجھے مدعو کیا۔ کانفرنس کیاتھی ۔ جوش و جذبے کاطوفان بعنوان ’’اقدام اُمت کانفرنس‘‘۔ ہندوستان جا کر اقدام اُمت کانفرنس کے پوسٹر دیکھے، ان پر سرخی جمی تھی ’’ہندوستان منتظر ہے ایک اور شہاب الدین غوری کا ‘‘۔ بلند آہنگ تقریریں، عزم و ہمت اور قربانی کے عہد باندھے جارہے تھے۔ان جو ان جذبوں کی پشت پر ہندوستان کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی طرف سے ’’بابری مسجدایکشن کمیٹی‘‘ ،تدبر اور دانائی جوش کو ہوش میں قید رکھنے کے لیے موجود تھی۔ دوسری طرف مولانا وحید الدین خان الرسالہ میں نہ صرف ہندوستان کی اجتماعی مسلم فکر کے برعکس صبر سے زیادہ پسپائی کا درس دے رہے تھے۔

دورہ ہندوستان میں خیال تھاکہ مولانا وحید الدین خان سے ملاقات کرکے کلام شاعر بزبان شاعر سنا جائے۔ لیکن ان سے ملاقات دہلی میں تو نہ ہوسکی لیکن کچھ عرصہ بعد یہ موقع لاہور میں مل گیا۔ جماعت اسلامی ہی کے ایک ساتھی جن کا کویت میں پبلشنگ ہائوس تھا۔ شیخ کرامت صاحب مرحو م نے انہیں اپنے گھر میں مدعو کیا۔ وہاں تو ملاقات اجتماعی ہی رہی۔ البتہ ائیرپورٹ پر انہیں الوداع کہنے والوں میں، میںبھی تھا۔ ائیرپورٹ لاؤنج میں آمنے سامنے بیٹھ کر تبادلۂ خیال کا ایک اچھا موقع ملا۔ جب انہیں پتہ چلاکہ میں جماعت اسلامی کامرکزی سیکرٹری اطلاعات ہوں اور کئی سالوں سے الرسالہ کا قاری بھی ہوں تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے۔ جب میں نے ان سے کہاکہ میں نے ’’ عسراور یسر‘‘ Advantage and Disadvantageکا سبق ان سے صرف پڑھاہی نہیں بلکہ سیکھا ہے تو وہ بڑے خوش ہوئے۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد میں نے اپنا اصل سوال کرڈالا کہ آپ ملت کو جس صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔ اقدام سے قبل تیاری کے مرحلے کی حد تک تووہ قابل قبول ہے لیکن آپ تیاری کا لائحہ عمل دینے کے بجائے پسپائی کا فارمولا بیان کردیتے ہیں جس کاقرآن اور سیرت میں تو کوئی سراغ نہیں ملتا۔ میری اس بات پر کچھ دیر تو وہ خاموش رہے اور پھر بولے کہ میں اقدام کا مخالف نہیں ہوں۔ میں صحیح تیاری اور مناسب وقت کے ساتھ اقدام کا قائل ہوں۔

مولانا وحید الدین خان صاحب اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کے ساتھ آسان معاملہ فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ انہوںنے اپنے قلم کے ذریعے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا ہے۔ قومی اور ملی مسائل کو زمینی حقائق کی عینک سے عجلت،جہالت،اشتعال،جذباتی پن اور شارٹ کٹ وغیرہ قرار دینا تو اچھا تھا لیکن مسلم حکمرانوں، بادشاہوں، سیاسی اشرافیہ اورمتکبرین کی کمزوریوں اور اغیار کی سازشوں سے آنکھیں بند کرلینا یک رخہ پن تھا۔کاش وہ اپنے اسباق کو حکمت عملی تک محدود رکھتے ،تو ملت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتے۔

تازہ ترین