روزنامہ جنگ کے3 مارچ 2021کے شمارے میں جناب عطاء الحق قاسمی کے کالم کا عنوان:2047 کا پاکستان؟ تھا، عنوان دیکھتے ہی قائداعظمؒ کے حوالے سے یہ دو واقعات یاد آ گئے:1976، کراچی، میں نے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے لیگل ایڈوائزر این ایم کوتوال، جو مذہباً پارسی تھے، سے انٹرویو کیا۔ انہوں نے بتایا:ایک دفعہ قوم کے نیشنل کریکٹر پر گفتگو ہو رہی تھی۔ میں نے خیال ظاہر کیا کہ صحیح نیشنل کریکٹر پیدا ہونے میں بیس سال مزید لگیں گے۔ قائداعظمؒ نے، جو اپنے عوام کو بہت اچھی طرح جانتے تھے، میری رائے سُن کر فرمایا:’’نہیں، ایک سو سال‘‘۔
اسی طرح ایک اور صاحب ، جو گورنمنٹ آف انڈیا کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے، کہتے ہیں:’’میں نے قائداعظمؒ سے پوچھا، قائداعظم!آپ پاکستان کس کے لئے بنا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا:مسلمانوں کے لئے۔ میں نے کہا:یہ تو مسلمان ہیں ہی نہیں۔ انہیں تو مسلمان بننے کے لئے بیس سال چاہئیں۔ قائداعظمؒ کہتے ہیں:’’بیس برس؟ نہیں، اس کے لئے ایک صدی درکار ہے۔‘‘
قاسمی صاحب نے لکھا ہے کہ ان کا یہ کالم کاظم سعید صاحب کی کتاب ’’2047ء کا پاکستان کیسا ہو گا؟‘‘ پر استوار ہے، جس میں انہوں نے بہ قول ان کے، عمیق تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ’’2047ء میں پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہو گا۔‘‘ اور یہ کہ پاکستان 2047ء تک ایک عالمی طاقت بن جائے گا۔ مجھے کاظم صاحب کی تحقیق پر قطعاً اچنبھا نہیں ہوا، کیونکہ قائداعظمؒ اس ذیل میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ وہ پیش گوئیاں نہیں کرتے تھے۔ سائنس، حقائق اور تاریخ کے عمیق مطالعے کی بنا پر تجزیہ کرتے تھے۔ تحقیق، شواہد اور تاریخ نے آج تک ان کی کسی بات کی نفی نہیں کی۔ بدقسمتی یہ ہے ہمارے عوامی ٹیکسوں سے چلنے والے تحقیقی اداروں اور انہی ٹیکسوں پر پلنے والا ان کا عملہ بھی بہت وافرہے، لیکن وہاں باقی ’’سب کچھ ‘‘ ہوتا ہے، تحقیق نہیں ہوتی۔ ورنہ قائداعظمؒ کی 11 اگست 1947ء والی رہنما تقریر پر لا یعنی بحث اور تبصروں کی ضرورت نہ ہوتی، کیونکہ وہ تو میثاقِ مدینہ کی بعض شقوں کا اظہار ہے۔ سیکولرازم یا نان سیکولرازم، جو مرضی نام آپ دے لیں۔قاسمی صاحب کے کالم کی رُو سے کاظم سعید صاحب نے ملک کے اس مقام پر فائز ہونے کے لئے چھوٹی صنعتوں کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
24 تا 26 دسمبر 1943، کراچی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا 31 واں اجلاس۔ قائداعظمؒ کو مطلوبہ پاکستان کی معاشی بہتری کے لئے ایک کمیٹی نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا۔ نتیجتاً قائداعظمؒ نے چالیس افراد پر مشتمل ’’اکنامک پلاننگ کمیٹی‘‘ قائم کی۔ یہ چالیس اہل او رماہر افراد بڑی تگ و دو سے انہوں نے اکٹھا کیے۔ یہاں تک کہ اس میں دو کٹر کانگریسی بھی تھے، ایک سید بشیر حسین زیدی، دوسرے ڈاکٹر ذاکر حسین، جو بعد میں بھارت کے صدر بنے۔ اور قائداعظمؒ نے حیدر آباد دکن کے علی نواز جنگ کو اس کمیٹی کا سربراہ بننے پر قائل کیا۔ اس کے میمورنڈم میں بجلی کی مسلسل فراہمی کے ساتھ چھوٹی صنعتوں کے قیام اور پھیلاؤ پر زور دیتے ہوئے سفارش کی گئی،’’گھریلو صنعتوں کی اقتصادی بنیاد مضبوط کرنے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کرنا ہوں گے اور زرعی معیشت میں اسے موزوں جگہ دینے میں مدد دینا ہو گی..... چھوٹا کارخانہ دار سرد بازادی کے مقابلے میں زیادہ استقلال دکھا سکتا ہے، اس لئے کہ اس کے بالائی اخراجات بہت کم یا ہوتے ہی نہیں.....لیکن دفاع اور مفادِ عامہ کی صنعتیں لازماً بڑے پیمانے پر ہونی چاہئیں۔‘‘کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ہر شہری کے لئے روٹی، کپڑے، مکان، تعلیم اور صحت وغیرہ جیسی بنیادی ضرورتوں تک رسائی آسان اور عام کرنے پر زور دیا۔
بہرحال، پاکستان کی معاشی رہنمائی کے لئے ’’اکنامک پلاننگ کمیٹی‘‘ کی سفارشات پر عمل نہ ہو سکا۔ اولاً:قائداعظمؒ کی وفات۔ ثانیاً:لیاقت علی خان کی شہادت۔ صرف یہی نہیں قائداعظمؒ کا فرمان ہے: ’’جاگیرداری نظام ایک لعنت ہے۔‘‘‘ اور ان کا عزم تھا:’’ زمین اس کی ہوگی جو اسے کاشت کرے گا۔‘‘قائداعظمؒ کے دور میں زرعی اصلاحات کے لئے مسلم لیگ کی جو زرعی کمیٹی بنی تھی، اس کی رپورٹ 1948ء میں یہاں تک لکھاہے:’’بڑے بڑے زمینداروں کے حقوقِ ملکیت کا جائزہ لیا جائے تو شاید کوئی بھی اپنا دعویٰ 1857ء کی جنگِ آزادی سے پہلے کی تاریخ کا ثابت نہ کر سکے۔‘‘ اس کے باوجودقائداعظمؒ کے اسی پاکستان میں زرعی اراضی کی لامحدودملکیت کو اسلامی کہا گیا اور 1857ء کی جنگِ آزادی کے نتیجے میں وجود پانے والوں نے ’’انجمن تحفظ حقوق زمینداراں تحت الشریعہ‘‘ قائم کی۔ یہ ایک وسیع بحث ہے۔ تاہم، قائداعظمؒ کی ’’اکنامک پلاننگ کمیٹی‘‘ کی سفارشات وغیرہ کو مرحوم خالد شمس الحسن نے Quaid-I-Azam's Unrealised Dream کے نام سے مرتب و شائع کیا جس کا اردو ترجمہ میں نے ’’قائداعظمؒ کا ادھورا خواب‘‘ کے نام سے کیا اور چھاپا۔قاسمی صاحب کا یہ کالم پڑھ کر خوشی ہوئی کہ قائداعظمؒ کا ادھورا خواب بالآخر 2047ء کو پورا ہو جائے گا۔ جس کی کہ قائداعظمؒ نے بہت پہلے نشاندہی کر دی تھی۔