ویانا ( نیوز ڈیسک) امریکی عہدے دار باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی ایسے معاہدے کا فوری طور پر امکان کم ہے، جو واشنگٹن اور تہران کو 2015ء کے جوہری معاہدے میں واپس لاسکے۔ حالیہ دنوں میں ایسے کئی سفارتی رابطوں اور امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ بات چیت میں پیش رفت کی اطلاعات ہیں، جن سے دونوں ممالک کے درمیان کسی معاہدے کے قریب پہنچ جانے کی قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔ ویانا میں جاری مذاکرات کے دوران پیر کے روز واشنگٹن اور لندن نے تہران سے آنے والی ان خبروں کو مسترد کردیا، جن کے مطابق امریکا اور برطانیہ ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہو گئے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور قیدیوں کے تبادلے کا دعویٰ غلط ہے۔ وائٹ ہاوس کے چیف آف اسٹاف رون کلین نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ خبر درست نہیں ہے۔ تاہم سویلین نے بات چیت کے بارے میں عوامی طورپر کوئی تبصرہ کرنے میں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ویانا میں چیزیں ابھی غیر واضح ہیں۔ تجزیہ کارو ں کے مطابق مذاکرات کاروں کی جانب سے چوتھے دور کی بات چیت کے لیے جس طرح سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں ان سے یہ امید بندھتی ہے کہ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے حامیوں کو کامیابی مل سکتی ہے جب کہ اس کے مخالفین اس پیش رفت سے پریشان ہیں۔ خیال رہے کہ کہ قیدیوں کاتبادلہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے اعتماد سازی کا سبب بن سکتا ہے۔ اگرامریکا جوہری معاہدے میں واپس آتا ہے، تو یہ صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا اور متنازع فیصلہ ہوگا۔ یہ ایک ایسے معاہدے کو بحال کردے گا، جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ الگ ہوگئے تھے۔