• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیام پاکستان اور تحریک آزادی سے بہت پہلے ہندوستان کے ’’غیر جمہوری بادشاہوں‘‘ میں ایک شہنشاہ ایسا بھی گزرا ہے جس نے اپنی خود نوشت یعنی ’’تزک جہانگیری‘‘ میں اپنے روزمرہ کے واقعات کو تحریر کرتے ہوئے اچھا بُرا سب ہی کچھ ضبطِ قلم کرڈالا تاہم جب شراب اور شکار کے شوق نے اُسے قبل از وقت ’’ضعیف ‘‘کردیا تو اُس نے اپنے ایک امیر معتمد خان سے ’’ نگاہوں کے سامنے ‘‘ تزک مکمل کرائی اور ’’ضروری اصلاح‘‘ کے بعد اِسے عام کرنے کا حکم دے دیا تھا… اب چونکہ اُس زمانے میں بادشاہ سے سوال کی جرأت موت کی پُرتکلف دعوت سے کم نہ تھی اِس لئے بادشاہوں کو کسی سے کچھ ’’چھپانے ‘‘ کی ضرورت بھی نہ تھی…اور پھر ویسے بھی دربارِ جہانگیری میں شرفِ باریابی کی سعادتیں حاصل کرنیوالے تنخواہ دار مؤرخین اور مراعات یافتہ مبصرین کی فوجِ ظفر موج کا اِس کے سوا کام ہی کیا تھا کہ عالم پناہ کے ہر اچھے بُرے عمل کو جائز، عوامی،تاریخی، قانونی ،مثالی اور آنے والے ہر دور کیلئے ’’تقلید‘‘ کا درجہ دے کر قصیدہ گوئی کی نِت نئی جہتوں سے شہنشاہِ ہند کا دل بہلاتے رہیں اور خوشنودیٔ شاہ کی خاطراُن کی ہر ایک ادا کی تشریحات میں جوازوں کے اِتنے دفاتر بھر ڈالیں تاکہ اگلے وقتوں کے محققین کے پاس حوالے کیلئے بادشاہ کی توصیف و ثنا کےسوا اور کوئی حوالہ ہی نہ ہو…
جلال الدین اکبر نے نورالدین جہانگیر کو ہمیشہ ’’سلیم‘‘ یا ’’شیخو‘‘ کہہ کر پکارا…ناز و نعم میں پلے اِس اکلوتے شہزادے پر باپ کی نگاہِ التفات یوں بھی غیر معتدل تھی کہ سلیم سے پہلے دانیال اور مُراد نامی دونوں بیٹے ’’کثرتِ شراب نوشی‘‘ کے سبب دم توڑ چکے تھے اور اکبر نے اپنے اِس وارث کو شہنشاہِ پاک پتن بابا فریدالدین گنجِ شکرؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شیخ سلیم چشتی کے آستانے سے سلطان الہند معین الدین چشتی ؒکی درگاہ تک بارگاہِ ایزدی میں ماتھا ٹیک کرپایا تھا اور چونکہ خواجہ غریب نوازؒ کے مزارِ عالی وقار تک ’’ننگے پائوں‘‘ جانے کا مشورہ فتح پور کے شیخ سلیم چشتی نے اِس مطلق العنان شہنشاہ کودیا تھا اِسی لئے اکبر نے جہانگیر کو ہمیشہ سلیم یا شیخو کی صدائوں ہی میں محوِ پرواز رکھا…مذاق اُڑانے والے کل بھی مذاق اُڑاتے تھے اور آج بھی مذاق اُڑاتے ہیں کہ برہنہ پا،،چِھلے ہوئے تلوئوں اور لہو رِستی ایڑیاں لے کرایک بادشاہ ’’پتھر کے ڈھیر‘‘ سے کیا مانگنے گیا تھا لیکن خواجہ سے آج بھی روز ملنے والے جانتے ہیں کہ جو پوری کائنات کاخالق ہے وہ چاہت کا بھی خالق ہے اور چاہت کی تو چاہت ہی یہی ہے کہ جسے اُس کے رب نے چاہا وہ اُس کی چاہت ﷺ کی اِس درجہ اطاعت کرے کہ رب کا محبوب ﷺ جس جس کو چاہے وہ محبوب کی چاہت کے چاہنے والوں کو ڈھونڈا کرے تاکہ نسبتِ چاہت سےجو اُن کے پاس اللہ کی بندگی کا اقرار لے کرآئے وہ خالقِ چاہت کی بارگاہ سے مایوس نہ جائے…لہٰذا اکبر بھی خواجہ ؒکے دربار سے مایوس نہ لوٹا، سلطان الہند ؒکو مصطفی کریمﷺ نے چاہا اور سیدی حبیبیﷺ کو اُن کے رب نے چاہا اِسی لئے مزارِ غریب نواز پر جو اکبر نے چاہا وہی اللہ چاہتا تھااور چونکہ اُس نے اللہ کی چاہت کو پورا کیا تو وہی ہوا جو اللہ نے چاہا اور سلیم نے اکبر کے محل میں آنکھ کھولی جسے ’’جہانگیر‘‘ کے لقب نے نوچ نوچ کرکھالیا…
سلیم دراصل ’’سلِم ‘‘ اور ’’سلامت‘‘ سے نکلا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ الشعرا میں ظاہری و باطنی برائیوں سے پاک نفوس کو ’’قلبِ سلیم‘‘ کہہ کر پکارا ہے …البتہ جہانگیر کا مطلب ہے ’’قبضہ کرنے والا‘‘… یعنی پوری دنیا پر قابض ہونے کا خواہش مند… بعض مقامات پر اِسے دنیا کو فتح کرنے والا قرار دے کر بھی ترجمہ کیاگیا ہے لیکن ’’ماہرین لغویات‘‘ کے نزدیک’’ چونکہ ہر فاتح لالچی نہیں ہوتا اور ہر قابض پر لازم ہے کہ وہ حریص ، لالچی اور سازشی ہواِسلئے فاتح اور قابض میں فرق واضح کرنے کی عمدہ تعریف جہانگیر ہے ‘‘… مفتوحہ مملکت، علاقے، مقام یا عوام پر حکومت کرنے کی وجہ اگر مزید طاقت کی ہوس ،سازشی منصوبے کی تکمیل اور مستحق کے حق پر ڈاکہ ہے تو وہ ’’جہانگیر‘‘ کہلائے گا۔ اِس کے علاوہ اُن تمام فاتحین کو جن کی نیت مظلوم کی داد رسی کے سوا کچھ نہ ہو’’ذوالقرنین ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جائے گا…
درحقیقت مغلیہ سلطنت میں بگاڑ ہی وہاں سے شروع ہوا جب شیخ سلیم چشتی جیسے بزرگ کے نام پر اپنے نام کو ’’ترک‘‘ کر کے نورالدین سلیم نے اپنے آپ کو نور الدین جہانگیر کہلوانا شروع کیا اور بس پھر ہر شے پر قبضے اور نہ ختم ہونے والی لالچ نے اُسے یہاں تک اندھا کردیا کہ اوراقِ تواریخ میں ’’پیکر انصاف‘‘ کے کردار سے معروف العام اِس ’’بدترین جہانگیر‘‘ نےسجدہ تعظیم بجا نہ لانے پر حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الفِ ثانی کو گوالیار کے زندان میں ایک عرصے تک مقید رکھا اور بادشاہ ہونے کے باوجود اُن کی حویلی،زمین اور کتب خانے پر قبضہ کرلیا حالانکہ جہانگیر کے پاس کسی شے کی کمی نہ تھی مگر مسلسل جہانگیر کہہ کر پکارے جانے کے باعث اُس کی قابضانہ فطرت نے اُس سے یہ پست عمل کرا کے ہی چھوڑا گو کہ مرنے سے قبل وہ نادم ہوا لیکن اِسے یوں سمجھ لیجئے کہ
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفاسے توبہ
ہائے اُس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
جہانگیر کے بارے میں شاہ ولی اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’اکبر کے بعد جب دائم الخمر جہانگیر سریر آرائے سلطنت ہواتو ہندوؤں نے سر اُٹھایا، دیانتیں ضائع ہوگئیں اور وہ خود کہتا تھا کہ میں نے روزانہ ایک سیر شراب اور آدھ سیرکباب کے بدلے اپنی سلطنت نورِجہاں کو بخش دی‘‘…جبکہ اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ ’’میری حکومت کے درو دولت کا یہ حال ہے کہ نورجہاں کا باپ دیوانِ کل ہے ، آصف جاہ یعنی نورِ جہاں کا بھائی وزیراعظم ہے اور خود نورِجہاں ہم راز اور حکم ہے‘‘…یہ نورِ جہاں وہی خاتون تھیں جنہیں ’’اپنا بنانے ‘‘ کے جنون میں جہانگیر نے اِن کے شوہر کو ایک سازش کے تحت قتل کروادیاتھا اور بعد ازاںاتنا مجبور کیا کہ ’’شادی‘‘ کے سوا اعتماد الدولہ میرزا غیاث بیگم کی بیٹی مہرالنسا کے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
جس کے بعد جہانگیر نے پہلے اِنہیں نورِمحل اور بعد میں نورِجہاں کے خطابات سے نوازا اور اپنی سلطنت سمیت تمام ظاہر و پوشیدہ ’’اثاثے‘‘ اُن ہی کے نام کردئیے…
جہانگیر نے مغلیہ سلطنت میں ہٹ دھرمی، ضد، سرکشی اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے جیسی اخلاقی بیماریوں کی دیدہ دلیری سے بنیاد رکھی، ضد کا یہ عالم تھا کہ اپنے ہی وا لدِ محترم کی ایک حسین ترین کنیز نادرہ بیگم یا شریف النساء جسے اکبرِ اعظم نے انارکلی کا خطاب دیا تھا یہ اُن پر ایسے عاشق ہوئے کہ اکبر نے اِنہیں عاشقی سے بچانے کیلئے اُس معصوم ہی کو دیوار میں زندہ چنوادیا لیکن شہزادے میاں باز نہیں آئے اور کچھ برسوں بعد محل ہی میں پلنے بڑھنے والی مہرالنساء کے عشق میں مبتلا ہوگئے، اکبر نے جب اِن کی مہرالنسا ء میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو بھانپا تو فوراً ہی اپنے ایک قابلِ اعتماد جرنیل علی قلی سے شادی کر کے اُسے شیر افگن کا خطاب دے کر بنگال بھجوادیا جہاں مہرالنسا ء نے اپنی اکلوتی بیٹی لاڈلی بیگم کو جنم دیا اور اُس کے بعد کبھی ماں نہ بن سکیں… اِسی دوران اکبر مر گیا اور24 اکتوبر 1605 ء میں جہانگیر تخت نشین ہوا…گو کہ وہ مہرالنساء کو اپنی عیاشانہ طبع کے باعث بھلاچکاتھالیکن کسی کا بھی حق جھپٹنے اور خودسری کی عادت نے اِس کو نہیں بھلایا تھا …چنانچہ ایک دِن راوی کے کنارے اپنے تعمیر کردہ محل کی چھت پر جب وہ لاہور کے حسیں موسم سے لطف اندوزہورہاتھا تو اُس نے کشتی میں ایک حسین عورت کو دیکھا اور پھر جب معلومات حاصل کیں تو یہ راز کھلا کہ وہ بادشاہ کی پرانی محبت مہرالنسا ہے جو اب شیر افگن کی زوجہ ہیںِ یہ جان کر اڑیل اور حجتی جہانگیر نے اپنے سوتیلے بھائی قطب الدین کے ذریعے شیر افگن کو کہلوایا کہ وہ مہرالنساء کو طلاق دیدے، شیر افگن بھی چونکہ ماضی سے باخبر تھا اِس لئے اُس نے طلاق دینے کے بجائے قطب الدین ہی کو قتل کرادیا تاکہ جہانگیر کو اُکسا سکے مگر’’سازشی دماغ‘‘ سے آراستہ جہانگیر نے ’’فوری ردعمل‘‘ کے بجائے’’مناسب وقت‘‘ کا انتظارکیا اور پٹنہ میں شیر افگن کو ایسی مہارت سے قتل کرایا کہ تاریخ آج بھی اِصل واقعے سے بے خبر ہے…بیوہ ہوتے ہی مہرالنسا کو بھی گرفتارکرلیاگیا اور قریباً4 برس بعد اذیتوں سے تنگ آکر مہرالنساء ضدی شہنشاہ کے سامنے جھکی ضرور لیکن کچھ ہی عرصے میں ایسا انتقام لیا کہ خطبے کے سوا اُمورِسلطنت سے جہانگیر کو’’پردۂ محبت‘‘ کی آڑ میں اِس طرح جداکیاجیسے قصائی ہڈیوں سے گوشت علیحدہ کرتا ہے یہاں تک کہ حکومت یقیناً جہانگیر کی تھی مگر سکہ نورِجہاں کا چلتا تھا…
جہانگیر نے جوچاہا حاصل کیا، جیسے چاہا وہ جیا، انارکلی سے ناکام محبت کے بعد اُس نے نہ صرف مہرالنسا کواپنے ہاتھ سے جانے نہ دیابلکہ من بھاوتی اور شہزادی مانمتی جیسی وقت کی بے مثال حسیناؤں کو بھی اپنے حرم کی اٹھارہ عورتوں میں سے بیویاں قراردینے کیلئے منتخب کیا…شیخو اور سلیم جیسے صوفیانہ ناموں سے پیچھا چھڑانے کیلئے اُس نے لاہور سے کچھ فاصلے پر جہانگیر آباد کے نام سے شہر بسایا تو سہی… مگر فتح پور سیکری کے حضرت شیخ سلیم چشتی کی کرامت نے اُسے شیخوپورہ میں بدل دیا…آج جہانگیر کا مقبرہ ’’ویران‘‘ ہے مگر ’’شیخوپورہ‘‘ آبادہے…پتہ نہیں جہانگیر کو موت کی نیند کس طرح آئی ہوگی کیونکہ بہرحال ’’ایک اچھی موت کیلئے ایمان داری سے جینا بھی تو پڑتا ہے‘‘…!!!
تازہ ترین