• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پی ایس ایل کو متحدہ عرب امارات منتقل کرنے کا فیصلہ

عالمی وباء کورونا نے جہاں دنیا بھر کا نظام زندگی تبدیل کردیا ہے وہیں اس کے اثرات کرکٹ پر بھی آرہے ہیں۔پاکستان کرکٹ کورونا کی زد میں مارچ میں آئی جب کئی کھلاڑی کورونا میں مبتلا ہوئے۔ کئی بدانتظامیوں اور پروٹوکول خلاف ورزیوں کے بعدپاکستان سپر لیگ سکس گیارہ میچوں کے بعد ملتوی کردی گئی۔اب ملتوی شدہ20 میچوں کا کرانا پاکستان کرکٹ بورڈ کے لئے چیلنج ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ پی ایس ایل کو مکمل کرانے کے لئے متحدہ عرب امارات جانا پڑے گا۔

ملک میں کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر این سی او سی کراچی میں میچ کرانے کی اجازت نہیں دے رہی۔اس لئے اس بات کےامکانات روشن ہیں کہ امارات میں دو سال بعد پی ایس ایل کی واپسی ہوگی لیکن اس کے عوض فرنچائزوں کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔پی ایس ایل میچوںکے لئے ابوظہبی اور دبئی دونوں کا آپشن رکھا گیا ہے۔

ایک ہی ونییو دبئی پر میچز کرانے کو ترجیح دی جائے گی۔پی سی بی نے میچز کی میزبانی کرنے کے لئے ای سی بی کو خط لکھا ہوا ہےجلاس میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر نے سری لنکا میں میچ کرانے کی تجویز دی۔ پی ایس ایل کے بقیہ میچز کے لئے یو اے ای سب سے مقبول اور فرسٹ آپشن ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن کے بقیہ میچز کی میزبانی کے لیے باضابطہ طور پر امارات کرکٹ بورڈ سے رابطہ کر لیا ہے۔

ابتدائی طور پر ٹورنامنٹ کے تمام بقیہ میچ یکم جون سےکراچی میں کرانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن لیگ کی تمام چھ فرنچائزز نے کورونا وائرس کے پیش نظر لیگ کو متحدہ عرب امارات منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔پھر فوری طور پر این سی او سی بھی پی سی بی کو کراچی کے لئے اجازت دینے کو تیار نہیں ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ اور چھ فرنچائز مالکان نے ورچوئل اجلاس میں لیگ کے انعقاد سے متعلق این سی او سی کی ہدایات کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا۔

اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے کیا گیا کہ لیگ کے بقیہ 20 میچز کے لیے پہلی ترجیح متحدہ عرب امارات ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کو 23 جون کو دورہ انگلینڈ پر روانہ ہونا ہے لہٰذا پی سی بی ،امارات کرکٹ بورڈ کے ساتھ رابطہ کرکے ایونٹ کو منعقد کرنے پر تبادلہ خیال کرے گا کوشش یہی ہو گی کہ ایونٹس نئے مرتب کردہ شیڈول کے مطابق یکم جون سے شروع ہو جائے۔یہ بھی طے پایا کہ عید کی تعطیلات کے دوران پی سی بی ٹورنامنٹ کے نئے شیڈول کی تیاری پر بھی کام کرے گا جبکہ اس دوران پی سی بی پلیئنگ اور ٹریننگ سہولیات، ہوٹل کی بکنگ، گراونڈ پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور ویزوں کے حوالے سے بھی ای سی بی سے مکمل رابطے میں رہے گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق ممکنہ مالی اور دیگر خدشات کا جائزہ لینے کے بعد فرنچائز سے مشاورت کر کے وینیو سے متعلق کوئی بھی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے کہا کہ جلاس بہت مفید رہا، ہم نے کئی پہلوؤں کا جائزہ لیا، اس دوران متحدہ عرب امارات کا وینیو پہلی ترجیح بن کر سامنے آیا ہے تاہم ہمیں اب بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ہم پی ایس ایل 6 کو کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔واضح رہے کہ تمام فرنچائزز نے پی سی بی کو ٹورنامنٹ متحدہ عرب امارات منتقل کرنے کے لیے خط لکھا تھا اور پی سی بی نے اس تجویز کو اب قبول کر لیا ہے۔

پاکستان سپر لیگ سیزن 6 کا آغاز 20 فروری کو کراچی سے ہوا تھا اور ایونٹ کے میچز اس مرتبہ ملک کے دو شہروں کراچی اور لاہور میں کھیلے جانے تھے تاہم 4 مارچ کو پاکستان سپر لیگ کو 7 کھلاڑیوں اور دیگر میں کورونا کیسز سامنے آنے کے بعد ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔کورونا وائرس کے باعث اس مرتبہ ایونٹ کی افتتاحی تقریب بھی ریکارڈ پیش کی گئی تھی جبکہ تماشائیوں کی اجازت بھی ابتدا میں 20 فیصد تک تھی جسے بعد ازاں حالات کو دیکھتے ہوئے 50 فیصد تک کردیا گیا تھا۔

ایونٹ میں اب تک دفاعی چمپیئن کراچی کنگز بہترین رن ریٹ کی بنیاد پر 6 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کوشش میں ہے کہ بایو سیکیور ماحول کو بہتر بناکر دبئی یا ابوظہبی میں ٹورنامنٹ مکمل کیا جائے۔ٹورنامنٹ نہ ہونے کی صورت میں پی سی بی کے ساتھ فرنچائز کو بھی بھاری نقصان کا خدشہ ہے۔اسی دوران پی سی بی نے پی ایس ایل کے بایو سیکیور ماحول کے لئے برطانوی کمپنی کی خدمات حاصل کی ہے۔یہی کمپنی آئی اپی ایل اور دنیا کے دیگرٹورنامنٹ میں بایو سیکیور ماحول بناچکی ہے۔کراچی میں پی ایس ایل کے دوران ڈاکٹر سہیل سلیم بایو سیکیور ماحول کے ذمے دار تھے۔

پاکستان سپر لیگ کے لیے بائیو سکیور ببل پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیکل ڈاکٹر سہیل سلیم نے ڈیزائن کیا تھا تاہم لیگ کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے بتایا تھاکہ ڈاکٹر سہیل سلیم نے استعفی دے دیا ہے ڈاکٹر سہیل گذشتہ22سال سےوابستہ تھےانہوںنے اس سے قبل بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بائیو سکیور ببل ڈیزائن کیے تھے جن میں پورا ڈومیسٹک سیزن اور زمبابوے،جنوبی افریقاکے خلاف ہونے والی سیریز شامل ہیں اور اس دوران بد انتظامی یا خلاف ورزی کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ڈاکٹر سہیل سلیم نے پی ایس ایل کے لیے جو بائیو سکیور ببل ڈیزائن کیا تھا اس سلسلے میں انھیں کوویڈ ایڈوائزری کمیٹی کی معاونت اور مشاورت بھی حاصل تھی جن میں تین ماہر ڈاکٹرز شامل تھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے دوران پروٹوکول کی خلاف ورزی کاجائزہ لینے کےلیے دو رکنی پینل تشکیل دی تھی جس میں ڈاکٹرفیصل محمود اور ڈاکٹر سلمی عباس شامل تھے۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی سفارشات اور تجاویز پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو ایک ماہ پہلے دی تھیں لیکن ابھی ان سفارشات کو خفیہ رکھا گیا ہے اور کسی کے خلاف کارروائی سے بھی گریز کیا گیا ہے۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ڈاکٹر سہیل سلیم کو ہی ذمے دار قرار دیا گیا ہےاور اس دوارن پاکستان سپر لیگ کے لئے نئے ڈائریکٹر کی تقرری کا اشتہار دیا گیا ہے۔

سابق دائریکٹر میڈیکل ڈاکٹر سہیل سلیم کہتے ہیں کہ مجھے قربانی کا بکرا بناکر اپنے عہدے سے استعفی دینے کے لئے کہا گیا تھا میں از خود اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش نہیں ہوا تھا۔استعفی مانگنے والے وسیم خان تھے۔حالانکہ ببل کئی بار کمپرو مائز ہوا لیکن بار بار بتانے کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔وسیم خان نے استعفی دینے کو کہا تھا میں نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر استعفی دے دیا، مجھے بدانتظامی کا ذمے دار ٹھہرا کر قربانی کا بکرا بنایا گیا اور دیگر ذمے داروں کو بچایا گیا ہے۔

ڈاکٹر سہیل کہتے ہیں کہ کہ کیا پی سی بی نے میری کوویڈ ٹریننگ کرائی تھی پھر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی مجھ سے شیئر نہیں کیا گیا تاکہ مجھے پتہ تو چلتا کہ میں نے کیا کوتاہی کی ہے۔میں یہ باتیں کرکے نہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کررہا ہوں اورنہ رو رہا ہوں۔آج پی سی بی سے اپنی راہیں جدا کرکے مجھے کوئی شرمندگی یا ندامت نہیں ہے۔ حقائق اس کے برعکس تھے جس طرح بتائے گئے۔ڈاکٹر سہیل سلیم نے کہا کہ میں نے پورے ڈومیسٹک سیزن سمیت دو انٹر نیشنل سیریز کرائیں۔

میں نے365دن اپنی راتیں کالی کرکے پی سی بی کے لئےکام کیا اور مجھے اس کا یہ صلہ دیا گیا۔ ایسا لگ رہا ہےکہ کچھ لوگوں کو بچایا گیا ہے۔انہوںنے کہا کہ پی سی بی تحقیقات کرائیں تو اسے چھپانے کی کیا وجہ تھی۔میں پاکستانی ہوں اور مجھے ملک سے محبت ہے۔میرا کام کرکٹ کی وجہ سے رکا ہوا نہیں ہے۔دوماہ میں میں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہت وقت گذارا اپنے بیمار والد کی تیمار داری کا موقع ملا لیکن میرے ساتھ جس انداز میں جو سلوک کیا گیا اس کا مجھے دکھ رہے گا۔

لیکن آج میں سوچتا ہوں کہ مجھے بھی بیرون ملک ملازمت مل سکتی تھی میں نے اپنے ملک میں کام کرنا بہتر سمجھا۔اب بھی میرے پاس کچھ کہانیاں ہیں جنہیں میں ملکی مفاد میں بتانا نہیں چاہتا لیکن حقائق اس کے بالکل مختلف ہیں۔پاکستان سپر لیگ سکس کو مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹر سہیل کے سنگین الزامات پر ہوسکتا ہے مزید پیش رفت ہو اس وقت خاموشی ہے اور راوی چین چین لکھ رہا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین