• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپریل میں گندم کی فصل سنہری روپ دھار کر کٹنے کو تیار ہوتی ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ محنت بار آور ہونے کی اُمید لئے کسان بادلوں کی آہٹ بھی پائیں تو دعاگو ہو جاتے ہیں کہ سونے کی بوند بھی نہ پڑے۔ یہ ہاتھ مئی کے دوسرے یا تیسرے ہفتے تک دعا کو اٹھے رہتے ہیں۔ گندم کی کٹائی کا موسم آتے ہی گرمی کی شدت میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے، بالعموم گندم کی کٹائی اور اسے سمیٹنے کا موسم خشک ہی رہتا ہے۔ جولائی میں منظر بدلتا ہے اور دعا بھی۔ اب بچے بادل دیکھکر شور مچاتے ہیں: کالیاں اٹاں، کالے روڑ، مینہ وسا دے زور، زور۔ یعنی موسلا دھار بارش کی طلب۔

یہ تو ہے اس معمول کی بات جو پچھلے پانچ سات سال سے نہیں رہا۔ موسم بےموسم ہورہے ہیں۔ جنوری سے مارچ کے دوران فصلوں کو بارش کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس برس اوسط سے 46فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ فروری پچھلی چھ دہائیوں میں تیسرا خشک ترین مہینہ رہا۔ سندھ اور بلوچستان اس کمی سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اپریل میں جب فصل اٹھانے کا وقت آیا تو بادل آن وارد ہوئے۔ پاکستان بالخصوص پنجاب کے گندم کی کاشت کے علاقوں میں کٹائی کے موسم میں ہونے والی بارشوں نے گندم کی فی ایکڑ پیداوار کو نقصان پہنچایا۔ اب پھرموسم ابر آلود ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں موسلا دھار بارش کے ساتھ ژالہ باری کا بھی امکان ہے۔ کاشت کاروں کو احتیاط کا مشورہ ہے مگر اب بات کچھ افراد، کسی ایک طبقہ یا کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہی۔

موسمیات کے سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر حدت کو محدود کرنے پر کام نہ کیا گیا تو انٹارکٹیکا کی برف کی چادر کا ضیاع ناقابلِ واپسی تباہی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ انسانی عمل سے زمین اپنے محور سے کھسک رہی ہے۔ 1990کے بعد سے موسمیاتی تبدیلی نے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بڑھنے کی شرح اور سمت دونوں کو تبدیل کردیا ہے۔ برفانی خسارے سے زمینی پانی کے استعمال میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ نسلوں سے ہمارے کسان مون سون پر بھروسا کرتے آئےہیں۔ ان کی زندگی اور معاش اسی موسم پر منحصر ہے مگر جیسے جیسے ماحولیاتی گرمی بڑھ رہی ہے، مون سون کی تبدیلیوں سے جنوبی ایشیا کی بہت بڑی آبادی خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ 2021 ’عمل کا سال‘ ہونا چاہئے۔ 22اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے بلائے گئے ماحولیات کے ورچوئل اجلاس میں دنیا کے 40ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ عالمی موسمیاتی پالیسی کے مطابق 2050تک گلوبل وارمنگ یا عالمی تپش کو 1.5ڈگری سیلسیس تک کمکیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر 2030تک کاربن کے اخراج میں 50فیصد کمی کی کوششیں کی جائیں گی۔

پاکستان کا کاربن کے اخراج میں حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ واشنگٹن میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا ہے کہ وہ 2030تک اپنی 60فیصد توانائی ماحول دوست ذرائع سے پیدا کرے گا۔ یہ یقین دہانی کراتے ہوئے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ پاکستان تیل اور ڈیزل پر چلنے والی 30فیصد گاڑیوں کو بھی بجلی اور بیٹری پر منتقل کر دے گا۔ توانائی کے لئے پاکستان کا زیادہ انحصار آبی ذرائع کے علاوہ درآمدی تیل اور قدرتی گیس پر ہے۔ کوئلہ پر چلنے والے پاور پلانٹ اور ایٹمی بجلی گھر بھی ہیں۔ ہوا اور سورج سے بجلی پیدا کرنا ماحولیاتی اعتبار سے سب سے زیادہ بہتر ہے لیکن پاکستان میں ہوا سے صرف 3.59فیصد اور شمسی توانائی سے صرف 1.16فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان رواں سال جون میں ماحولیات کے عالمی دن کا شریک میزبان ہوگا۔ پاکستان کو اپنے اہداف کو عالمی ہدف سے ہم آہنگ بنانا ہوگا۔ اپنے لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانا ہوگا مگر عالمی حدت میں اضافہ سرحدوں سے ماورا ایک مسئلہ ہے جو روز بروز شدت اختیار کررہا ہے۔ ان 17ممالک کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی جو دنیا میں 5میں سے 4حصے گرین ہاؤس گیسز فضا میں خارج کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی معیشت، خوراک اور زندگی ماحولیاتی توازن پر منحصر ہے۔ موسموں کے بےموسم ہونے سے دنیا غیریقینی صورت حال کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

تازہ ترین