اختر حفیظ
کسی بھی تاریخی مقام کو دیکھنے کے بعد ذہن میں پہلا سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس کے زوال کے اسباب کیا رہے ہوں گے، بادشاہوں اور ملکاؤں کے حرم، محل کی فصیلیں، اس کی راہ داریاں اور خواب گاہیں اُجڑتے وقت کیسا ماحول رہا ہو گا؟ برہمن آباد کے نام سے مشہور یہ شہر شہدادپور کے مشرق میں آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے،یہ ایک ایسا اجڑا ہوا شہر تھا جو کسی زمانے میں سندھ کا تجارتی حب رہا ہے۔
یہ’ ’دلو رائے جا دڑا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں یہ شہر 12 مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا ،مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ سکڑ کر صرف ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر تک رہ گیا ہے۔ اس کی تباہی کے حوالے سے لوک روایتمیں کہا گیا ہے کہ اس شہر کا حکم راں، راجہ دلو رائے ایک ظالم بادشاہ تھا اور اس کے مظالم کی وجہ سے یہ شہر تباہ ہوا۔
برہمن آباد کے چاروں اطراف اب اینٹیں بکھری ہوئی ہیں، خستہ حال دیواریں ، اپنے ہی وزن سے چور چور ہو رہی ہیں۔ حد نگاہ تک سرخ اینٹوں کے ذرات اور ٹکڑے ہی نظر آتے ہیں۔ اگر شہر کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اپنے عروج کے دور میں یہ شہر بہت خوبصورت رہا ہو گا۔ان ہی ٹوٹی پھوٹی دیواروں کے بیچ ایک بہت بڑا ا سٹوپا اب بھی دیکھا جاسکتا ہے، جواس شہر کی ایک ایسی نشانی ہے، جس کی وجہ سے یہ شہر دور سے ہی دکھائی دیتا ہے۔1854 میں بیلاسس اور رچرڈسن نے یہاں کے آثار قدیم کی کھدائی کی تھی، جہاں سے پائی جانے والی اشیا برٹش میوزیم اور ممبئی کے عجائب گھروں میں رکھی گئی ہیں۔
یہ تباہ حال شہر آج برہمن آباد کے نام سے مشہور ہے، مگر کافی لوگ ایک نام پر متفق نہیں ہیں، اسے ’بہمنوا‘ بھی کہتے ہیں ۔ سندھ کی تاریخ کے حوالے سے مشہور کتاب ’چچ نامہ‘ میں اسے برہمن آباد لکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ شاید ایرانی نام ہے اور اس حوالے سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ شہر ایرانی بادشاہ بہمن اردشیر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔ جس کا حقیقی نام بہمنوا تھا جو کہ بعد میں تبدیل ہو کر بہمن آباد ہو گیا۔ بہمن اردشیر نے اپنی حاکمیت کے دوران اسی نام سے کئی شہر تعمیر کروائے۔ جبکہ ’مجمع التواریخ‘ میں لکھا ہے کہ، بہمن اردشیر نے ایک شہر قندابیل اور دوسرا بہمن آباد تعمیر کروایا۔
یہ شہر تیسری صدی سے آباد تھا، اس کےپھیلاؤ کودیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ محمد بن قاسم جب یہاں آیا تو اس نے اسے فتح کیا ۔برہمن آباد پر کی گئی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر معاشی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہو گا۔ڈاکٹر ویسر کے مطابق حالیہ تحقیق میں مٹی کے برتنوں کے علاوہ قیمتی پتھر، نیلم، روبی، زمرد بھی پائے گئے ہیں اس کے علاوہ ان کی پالش کرنے کے آلات اور سانچے بھی برآمد ہوئے ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی یہاں صنعت موجود تھی۔ اس کے علاوہ ہاتھی دانت کے زیورات، شیل اور سکے بھی ملے ہیں، جن کی صفائی کے بعد یہ معلوم ہو گا کہ یہ کس دور کے ہیں۔
برہمن آباد پر عربی، فارسی سمیت مختلف زبانوں میں تاریخی موادہے، جن سے اس شہر کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ سندھی زبان کے تاریخ اور ڈرامہ نویس مرزا قلیچ بیگ ’قدیم سندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ، ہندو راجاؤں کے زمانے میں برہمن آباد سات بڑے قلعوں والے شہروں میں شامل تھا۔اس کے قلعے کے چار دروازے تھے جر بیڑی (کشتی) ساہتیا، منھڑو اور سالباہ۔ جن پر جئسین نے چار سپہ سالار فوجوں سمیت مقرر کیے تھے۔سندھ کے تعلیم دان اور تاریخ دان غلام علی الانانے لکھا ہے کہ، ساسانی گھرانے کے حکمران گشتسپ نے وادی سندھ کی حکومت اپنے پوتے بہمن کے حوالے کی تھی، جو ایران کی تاریخ میں ’ہمن اردشیر دراز دست‘ سے مشہور ہے۔
بیلاسس اور رچرڈسن، جنھوں نے یہاں پہلے کھدائی کی تھی کا خیال ہے کہ زلزلے کی وجہ سے شہر اجڑ گیا تھا لیکن شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبے آرکیالوجی کے سربراہ غلام محی الدین زلزلے کی تھیوری کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ’دیواریں سلامت ہیں اور کہیں بھی جھکی ہوئی نہیں ہیں۔‘ وہ اس مؤقف سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ شہر پر حملہ کر کے نذر آتش کیا گیا ہو، بقول ان کے ’آگ کے نشانات یا جلی ہوئی لکڑیاں وغیرہ برآمد نہیں ہوئی ہیں۔‘ایم ایچ پنہور کا خیال ہے کہ تاریخی ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ہاکڑا دریا سوکھ گیا اور دریائے سندھ نے بھی اپنا رُخ تبدیل کیا، یہ تبدیلیاں اس خطے میں 10 صدی عیسوی میں آئیں۔
سبط حسن اپنی کتاب ’پاکستان میں تہذیبوں کا ارتقا‘ میں لکھتے ہیں کہ عربوں کی جانب سے سندھ کی فتح سے قبل سندھ اور عرب میں بہترین تجارتی تعلقات تھے۔ سندھ ایک زرخیز اور دولتمند سرزمین تھی۔ یہاں ان دنوں راجہ چچ کا بیٹا داہر حکومت کرتا تھا۔ اس کے دو دارالحکومت تھے۔ شمال میں اروڑ (روہڑی کے قریب) جہاں پر راجہ آٹھ ماہ رہائش اختیار کرتا تھا اور جنوب میں برہمن آباد (شہدادپور سے آٹھ میل شمال میں)۔
جب 711 میں عربوں نے سندھ پر حملہ کیا تو اس زمانے میں برہمن آباد میں موجود بدھوں نے عربوں کا ساتھ دیا، چوں کہ راجہ داہر ایک ہندو حکمران تھا، اور بدھ مت کے پیروکار کسی بھی انتظامی عہدے پر نہیں تھے، لہٰذا وہ راجہ داہر سے خفا تھے اور انہوں نے اسی لیے برہمن آباد پر حملے کے وقت داہر کا ساتھ نہیں دیا۔ آخرکار یہ شہر بھی اجڑ گیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا نام تبدیل ہو کر منصورہ ہو گیا۔