• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر ترقّی پسند قوم اپنی خواتین کو سماجی و اقتصادی ترقّی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا چاہتی ہے، کیوں کہ کسی بھی قوم کا مستقبل اُس وقت تک تاب ناک نہیں ہو سکتا، جب تک اس مُلک کی خواتین کے پاس اس حد تک مناسب مہارت موجود نہ ہو ،جو آبادی کے لیے مفید کردار کی ادائی میں کام آسکے۔ نظریاتی طور پر خواتین اتنی تعلیم یافتہ اور قابل تو ضرور ہونی چاہئیں کہ وہ مناسب روزگار حاصل کر سکیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقّی میں اپنا کردار ادا کر پائیں۔

چوں کہ صنفی تنوّع میں معاشرے میں پائے جانے والے انسانی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی گنجائش پائی جاتی ہے، لہٰذا اس ضمن میں سماجی و کاروباری اداروں کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے، لہٰذا انھیں چاہیے کہ وہ بھی سامنے آئیں اور خواتین کی تعلیم وتربیت میں اپنا حصّہ ڈالیں،تاکہ خواتین کوپیشہ ورانہ اور کاروباری امور میں شامل کیا جا سکے۔

اگر وطنِ عزیز کی بات کی جائے تویہاں بعض سماجی و کاروباری ادارے پہلے ہی سے یہ کام کر رہے ہیں ،لیکن ان کوششوں میں دیگر اداروں کو بھی شامل ہونا چاہیے، جن کاروباری اداروں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیےقابلِ ذکر پروگرام شروع کیے ، ان میں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی)کا نام ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ اینگرو انرجی لمیٹڈ(ای ای ایل) کا جوائنٹ وینچر ہے اور اس نے سماجی اداروں میں ایک اہم نام’’ تھر فاؤنڈیشن‘‘ کے ساتھ مل کر مثالی اقدامات کیے ہیں ،تاکہ تھرپارکر کی خواتین کو تربیت کے حصول کی جانب راغب کیا جا سکے۔

تھرپارکر، پاکستان کا ایک دور اُفتادہ علاقہ ہے ،جس کی اکثریت صحرائی آبادیوں پر مشتمل ہے ، مگر بد قسمتی سے یہ علاقہ خوراک، پینے کے صاف پانی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم جیسی زندگی کی انتہائی اہم ضرورتوں سے محروم ہے۔ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی اگرچہ ضلع تھر میں وسائل رکھنے والے اپنے متعدّد وینچرز کے ذریعے کام کر رہی ہے، لیکن اس کی انتظامیہ نے مقامی آبادی کا معیار ِزندگی بہتر بنانے کا بھی عزم کر رکھا ہے، جب کہ سماجی ادارتی ذمّے داری (سی ایس آر) کے اس اقدام میں تھر فاؤنڈیشن،سندھ اینگرو کا بھر پور ساتھ دے رہی ہے، تاکہ خواتین مالی اور سماجی اعتبار سے بااختیار ہو سکیں اور ان اقدامات میں مستحق خواتین کے لیے عطیات بھی شامل ہیں۔ ان اداروں کی فراخ دلانہ اعانت سے، تھر میں ایسی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ،جو دیہی معیشت میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ 

ایک منفرد اقدام کے تحت اِن اداروں نے بعض خواتین کوڈمپ ٹرک (ڈمپر) ڈرائیور کے طور پر تربیت دینے کے بعد ملازمت فراہم کی ۔بعض خواتین ڈرائیورز کو تھر بلاک II میں واقع کوئلے کی کان اور پاور پراجیکٹس پر تعیّنات کیا گیاہے۔ کوئلے کی یہ کان دنیا بھر میں بھورے کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے ، جس پر سندھ اینگرو اور اینگرو پاورجین تھر لمیٹڈ(ای پی ٹی ایل) اپنے پارٹنر اداروں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ’’خواتین ٹرک ڈرائیور پروگرام‘‘ کا آغاز 2017ء میںتھر کے ایک قصبے اسلام کوٹ سے ہوا، جس پر نادا ر علاقوں میں رہنے والی خواتین کی جانب سے غیر معمولی مثبت ردّ ِ عمل سامنے آیا ۔

اس اہم ترغیبی اقدام کے تحت تھر کی غریب ترین خواتین کو 60 ٹن لوڈ والے (پاکستان میں سب سے بڑے) ڈمپ ٹرک کے ڈرائیور کے طور پر تربیت اور ملازمت فراہم کی گئی۔ ان خواتین کو کان سے پاور پلانٹ تک کوئلہ پہنچانے کے لیے مسابقتی تن خواہیں دی جاتی ہیں اور اس طرح یہ مُلک میں توانائی کے تحفّظ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔اس پروگرا م کی اہمیت کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جا رہا ہے اورمقامی اور بین الاقوامی سطح پربھی ان کی کارکردگی کا نہ صرف فخر سے تذکرہ کیا جاتا ، تعریفی کلمات سے بھی سراہا جاتا ہے۔

ایسی ہی تربیت یافتہ ڈمپ ٹرک ڈرائیورز میں ایک نام نصرت خاصخیلی کا بھی ہے،جوتین بچّوں کی ماں ہیں ۔ ضلع تھر کے قصبے مِٹّھی سے تعلق رکھنے والی نصرت آٹھ جماعتیں پاس ہیں۔اس سے قبل وہ اپنے شوہر کی معمولی آمدنی پر گزر بسرکررہی تھیں کہ ان کے پاس گھر کی آمدنی میں اضافے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ 

تاہم، انھوں نے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے،سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی)کے ’’ویمن ڈمپ ٹرک ڈرائیور پروگرام‘‘ میں شمولیت اختیار کرنے اور ایک تربیت یافتہ صنعتی کارکن بننے کا فیصلہ کیااور اب اُن کی زندگی پہلے جیسی نہیں، بہت بہتر ہو چُکی ہے۔ نصرت نہ صرف اپنے اہلِ خانہ ، بلکہ دیگر تھری خواتین کے لیے بھی ہمّت وحوصلےکی علامت ہیں۔اسی وجہ سےانہیں حال ہی میں سندھ ویمن کمیشن کی جانب سے ایک پروقار تقریب میں اعزاز سے بھی نوازا گیا ۔

دوسری جانب، تھر فاؤنڈیشن نے ’’خوش حال ناری(کے این)‘‘کے نام سے بھی ایک پروگرام کا آغاز کیا ، جس کا مقصد علاقے کی خواتین کو انٹریپرینیورز بننے او راپنی مصنوعات کی فروخت کے قابل بنانے کی غرض سے تربیت فراہم کرنا ہے۔ خوش حال ناری اقدام کے تحت 20 خواتین کو یونی فارم اور دیگر ملبوسات کی سلائی کی پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی گئی ہے اور اب وہ اپنے گھروں کی کفالت کے لیے معقول رقم کما رہی ہیں۔ اسی طرح ’’کمیونٹی گرانٹس پروگرام‘‘ کے تحت 17خواتین کو50,000روپے تک کے عطیات فراہم کیے گئے ہیں، تاکہ وہ اپنا چھوٹا ادارہ قائم کر کےایک اقتصادی نمائندے کے طور پر ترقّی کر سکیں۔ اب تک تھرپارکے متعدد اسٹیک ہولڈرز کو2 ملین روپے خصوصی عطیات کے طور پر دئیے جا چکے ہیں۔

خواتین کے لیے خصوصی سہولتوں کی عدم دست یابی اور مایوس کُن حد تک کم شرحِ خواندگی کے باوجود فاؤنڈیشن اس خطّے میں تعلیم بہتر بنانے کے لیے پختہ عزم رکھتی ہےاور اس حوالے سے لڑکیوں کی تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مقصد تھر کے پورے علاقے میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے 24 اسکولوں کے قیام سے پورا کیا گیا ، جن میں اس وقت، تقریباً 1200لڑکیاں داخل ہیں اور معیاری تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

تھر فاؤنڈیشن کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی اِن طالبات کو غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لینے کا بھر پور موقع فراہم کیا جاتا ہے، جن میں فیلڈ ٹرپس، سائنسی نمائشیں، ماحول کے بارے میں آگاہی کے لیے اسپیلاتھون مقابلے، اور حیرت انگیز طور پرفٹ بال ٹورنامنٹس بھی شامل ہیں۔ ایسی خواتین جنھیںاِس سے قبل، فٹ بال کے کھیل کے بارے میں علم تک نہیں تھا ، اب مہارت سےیہ گیم کھیلتی ہیں۔ خواتین کھلاڑیوں میں تھر فاؤنڈیشن کی طالبات، 13سالہ جمنا بھیل اور 11سالہ دیوی جھانجھو 2019ء میں، چین میں منعقد ہ گوتھیا فٹ بال ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کر چُکی ہیں۔

تھر کی ماؤں اور نوزائیدہ بچّوں کی صحت کےحوالے سے فاؤنڈیشن اسپتال اور شفاخانوں کاایک نیٹ ورک قائم کیاگیا ہے، جنھیں موبائل بس سروس کی مدد بھی حاصل ہے، تاکہ خواتین کو صحت کی ضروری دیکھ بھال کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ یہ طبّی سہولتیں،تھر کے مکینوں کومفت مشورہ، تشخیص، ٹیسٹنگ اور ادویہ فراہم کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تھر بلاک II میں زچگی کے دوران خواتین اور نوزائیدہ بچّوں کی اموات کا کوئی واقعہ رُونما نہیں ہوا ۔ 

تھر کی خواتین کے لیے اس طبّی وسیلے کے باعث، فاؤنڈیشن نے مصنوعی اعضاء کی پیوندکاری کے کیمپ جیسے دیگر طبّی اقدامات کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اور آبادی تک غیرمعمولی رسائی اور جانچ کے ذریعے 15خواتین کومصنوعی اعضاء لگائے جا چُکے ہیں، جن سے ان خواتین کا معیار ِزندگی بہتر ہوا ہے ، جن میں سے چند خواتین معاشرے کی کارآمد شہری بن کر روزگار بھی کما رہی ہیں۔

روایتی طور پر، تھر کی خواتین ہمیشہ 40سے 50ڈگری سینٹی گریڈ کی جھلسا دینے والی گرمی میں تپتے صحرا کا سفرکرتی ہیں تاکہ قریب ترین کنوئیں سے پانی حاصل کر سکیں ،جو عام طور پر کئی کلو میٹر دُور ہو تا ہے۔ان خواتین کو اس معمولی، لیکن محنت طلب کام سے نجات دلانے کے لیے تھر فاؤنڈیشن نے تھر میں ریورس اوسموسس (آر و) پلانٹ قائم کیے ہیں تاکہ عالمی ادارۂ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ان مکینوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا سکے۔ 

فاؤنڈیشن اب تک 18 آر او پلانٹس قائم کر چُکی ہے،ان پلانٹس کی خاص بات یہ ہےکہ ان میں سے 10پلانٹس تربیت یافتہ خواتین چلا رہی ہیں ۔اس اقدام سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک 25سالہ ہینا کولہی ہیں، جن کا تعلق اسلام کوٹ، ضلع تھرپارکر سے ہے۔ اُنھوں نے ابتدائی تعلیم قصبہ اسلام کوٹ میں حاصل کی، جب کہ ایک سرکاری کالج سے گریجویشن کیا۔ تھر فاؤنڈیشن نے ہینا کواپنی صلاحیتوں کے جوہرد کھانے کا موقع فراہم کیا اور اپنے ’’ویمن آر او پلانٹ آپریٹرز انیشی ایٹو ‘‘کا سپروائزر بنا یا۔ پروگرام کے تحت ابتدائی تربیت حاصل کرنے کے بعدوہ اب نہ صرف پلانٹ چلاتی اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ،بلکہ علاقے کی دیگر خواتین کو بھی قائل کررہی ہیں کہ وہ بھی روزگار کے لیے باہر نکلیں اور اس پروگرام کے تحت تربیت حاصل کریں۔ ان خواتین کے ساتھ آر او پلانٹس بھی تھر بلاک II اور اس کے آگے کے علاقے میں تقریباً30,000 مکینوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے گئے ’’صنفی تفاوت انڈیکس رپورٹ‘‘کے مطابق پاکستان نچلے نمبرز پر موجود تین ممالک میں سے ایک ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’صحت، تعلیم اور مالی شمولیت جیسے سماجی اشاریوں تک ناقص رسائی کے باعث پاکستانی خواتین میں مالی، اقتصادی اور سماجی نمائندگی کی کمی ہے۔‘‘ ایک ایسا مُلک جس کی آبادی کا تقریباً 50فی صد خواتین پر مشتمل ہے، وہاں خواتین کی صورتِ حال اتنی خراب ہے۔

تھرپارکر میں خواتین گھریلو کاموں ،مثلاً کھانا پکانے، ایندھن کے لیے لکڑی جمع کرنے، بچّوں کی دیکھ بھال، زراعت اور گھریلو جانوروں سے دودھ دوہنے کے کاموں تک محدود تھیں، مگر اب اپنی ہمت، اعتماد اورمحنت کے ذریعے صدیوں پرانی ممنوعہ اور رکاوٹیں عبور کر رہی ہیں۔صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے مستحکم ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول میں تھر فاؤنڈیشن، سندھ اینگرو کول اور اینگرو جیسے سماجی و کاروباری اداروں نے اپنی توجہ ترقیاتی پروگرامز اور اقدامات کی تیاری پر مرکوز کر رکھی ہے ،جن کا مقصد خواتین انٹریپرینیورز، رہنماؤں، صنعتی کارکنوں اور تربیت یافتہ انجینئرز کی آئندہ نسل کو تربیت دینا ، ان کی مہارتوں میں اضافہ کرنا اور کمیونٹی کا کارآمد فرد بننے میں ان کی مدد کرنا ہے۔

آج کی تیزی سے بدلتی دنیا اور عالمی اقتصادیات میں یہ اقدام نہ صرف قابلِ تعریف ، بلکہ ایک کاروباری اور معاشرتی ضرورت بھی ہے۔ اگر ہم واقعی حقیقی معنوں میں ایک ترقّی یافتہ مُلک کے طور پر دنیا کے سامنے اُبھرنا چاہتے ہیں، تو پاکستانی خواتین، بالخصوص دیہی خواتین کی آگے بڑھنے میں ہر ممکن مدد کرنی ہوگی۔

تازہ ترین