گزشتہ دنوں سعودی عرب کے مقدّس شہر، مکۃ المکرّمہ میں برف باری کے دِل فریب مناظر دیکھے گئے۔سعودی عرب کے متعلق عام تاثر یہی ہے کہ یہ ایک صحرائی مُلک ہے، جہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہے اور شدید ترین گرمی پڑتی ہے۔ ایسے میں برف باری کی خبریں بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنیں، لیکن اِس سے بھی زیادہ حیران کُن ایک اور خبر تھی۔ سعودی ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان کا کہنا ہے کہ’’ ایران ہمارا ہم سایہ ہے اور ہم تہران کے ساتھ اچھے اور خاص تعلقات چاہتے ہیں۔‘‘یہ بات اُنہوں نے اپریل کے آخر میں العربیہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہی۔
جواب میں ایران نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ ایران اور سعودی عرب اسلامی دنیا کی اہم ریاستیں ہیں، لہٰذا اُن کے اختلافات ختم ہونے سے علاقے میں امن اور استحکام آئے گا۔اس انٹرویو کی ایک خاص بات یہ ہے کہ سعودی ولی عہد نے امریکا اور ایران سے تعلقات پر کُھل کر بات کی۔ صدر جوبائیڈن کی مشرقِ وسطیٰ اور سعودی عرب سے متعلق پالیسی سامنے آنے کے بعد یہ اُن کا پہلا ردّ ِعمل تھا۔اُنھوں نے سعودی عرب کے روایتی حکم رانوں سے ہٹ کر امریکی پالیسیز پر’’ یس سَر‘‘ کہنے کی بجائے اُن پر کُھل کر تنقیدی نقطۂ نظر پیش کیا۔غالباً اس کا مقصد یہ تھا کہ امریکا جو فیصلے مشرقِ وسطیٰ ، عرب ممالک اور ایران سے متعلق کرنے جا رہا ہے، اُسے اُس پر واضح پیغام دیا جائے کہ اُسے کس نوعیت کے رد ِعمل کا سامنا ہو گا۔
ایران سے جولائی 2015ء میں جو نیوکلیئر ڈیل کی گئی تھی، اُس میں عرب ممالک کو شعوری یا لاشعوری طور پر اعتماد میں نہیں لیا گیا، جس پر اُن کے شدید تحفّظات تھے۔اسی طرح صدر اوباما نے جس طرح شام سے ہاتھ اُٹھایا اور اپنے بیانیے سے یوٹرن لیا، اُسے بھی امریکا کی بدترین بے وفائی کہا جا سکتا ہے، بلکہ امریکی اور مغربی تجزیوں میں تو اسے بہت بڑی حماقت بھی کہا گیا، جس نے اسد حکومت اور اپوزیشن کی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زاید شامی مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا۔
ایک کروڑ سے زاید مہاجرین شام کے سرحدی ممالک اور یورپ پر بوجھ بن گئے۔تاہم، صدر ٹرمپ نے یہ نیوکلیئر ڈیل مسترد کردی۔یاد رہے، ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل اوباما دَور میں ہوئی، جب جوبائیڈن اُن کے نائب صدر تھے۔ جو بائیڈن کو اُن کی خارجہ پالیسی کے ضمن میں بھرپو جواب مل رہے ہیں اور اِس مہم کے قائد شہزادہ محمّد بن سلمان ہیں۔شاید یہ جوابات امریکی توقّعات سے بہت زیادہ ہیں۔
محمّد بن سلمان نے تفصیل سے سعودی عرب، ایران تعلقات پر اظہارِ خیال کیا۔خاص طور پر اُن کے وہ خیالات انتہائی قابلِ غور ہیں، جس میں اُنہوں نے ایران اور سعودی عرب کی علاقے میں اہمیت پر بات کی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دَور شروع ہونے جارہا ہے۔اِس ضمن میں اُن خبروں کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا، جن کے مطابق گزشتہ دنوں سعودی عرب اور ایران کے خارجہ امور کے اعلیٰ اہل کاروں کے درمیان بات چیت کے ادوار ہوئے۔
یہ مذاکرات عراق میں ہوئے اور وزیرِ اعظم، مصطفیٰ الکاظمی نے اس میں خصوصی دل چسپی لی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی حکومت دونوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے۔عراق، ایران کے بہت قریب ہے، عرب لیگ کا رُکن ہے، جب کہ اُس کے امریکا سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ان مذاکرات میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے طریقوں پر غور کیا گیا۔ گو دونوں اطراف سے ان مذاکرات کی تصدیق نہیں کی گئی، تاہم عراق کے ایک سرکاری عُہدے دار نے اے ایف پی سے بات چیت میں مذاکرات کی تفصیلات بتائیں۔ شہزادہ محمّد ہی درحقیقت سعودیہ کے اصل حکم ران ہیں اور اُن کا ویژن ہی سعودی پالیسی قرار پاتا ہے، جو خلیجی ممالک تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔وہ سیاسی اور سفارتی دائو پیچ سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔اُن کے صدر اوباما سے تعلقات تھے، تو ٹرمپ کے بھی قریبی حلیف رہے اور اب جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی سے نِمٹ رہے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے شہزادہ محمّد کے انٹرویو پر نظر ڈال لی جائے، تو بہت کچھ سمجھ میں آسکے گا۔اُن کا ایران کی صُورتِ حال سے متعلق کہنا تھا’’ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کی صُورتِ حال مزید خراب ہو۔ ہم چاہتے ہیں، ایران ترقّی کرے۔ خطّے اور دنیا دونوں کو خوش حالی کی طرف لے جائے۔‘‘شہزادے نے ایران سے متعلق سعودی تحفّظات کا ذکر کرتے ہوئے تہران کے جوہری پروگرام اور خطّے میں مختلف پراکسیز کی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ ہمارا مسئلہ ایران کا منفی رویّہ ہے۔‘‘تاہم اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر تہران کے ساتھ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ولی عہد پُرامید تھے کہ وہ ان مسائل کا حل تلاش کرلیں گے اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوجائیں گے، جس سے تمام فریقین کو فائدہ ہوگا۔ جواباً ایران نے بھی اُن جذبات کا خیر مقدم کیا اور وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ’’ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات جلد ختم ہو جائیں گے۔‘‘ترجمان کے مطابق’’ ایران اور سعودی عرب دونوں اسلامی دنیا کی اہم ریاستیں ہیں اور اُن کے اختلافات کا خاتمہ خطّے اور دنیا میں امن و استحکام کا باعث ہوگا۔‘‘
سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے رویّوں میں یہ تبدیلی کیسے آئی کہ کشیدگی کو ایران، عرب دوستی میں بدلنے پر راضی ہو گئے؟ سعودی ولی عہد کا لہجہ ایران کے لیے خاصا سخت رہا ہے اور وہ اُسے مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کا ذمّے دار قرار دیتے رہے ہیں۔دوسری طرف، ایران کی جانب سے سعودی عرب کی مخالفت سامنے کی بات ہے۔
اُس نے شام، لبنان اور یمن میں اپنی پراکسیز کے ذریعے فوجی مداخلت کی۔اُس کے حوثی باغیوں سے تعلقات بھی ڈھکے چُھپے نہیں۔تاہم، حالیہ بات چیت کے بارے میں اُس نے کہا کہ’’ ایران نے سعودی عرب سے بات چیت سے کبھی انکار نہیں کیا۔‘‘دراصل، دو باتیں اِن ممالک کے رویّوں میں تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں۔
سعودی عرب، صدر بائیڈن کے اُن اقدامات کا جواب دینا چاہتا ہے، جس کا اُنہوں نے اپنی نئی مشرقِ وسطیٰ پالیسی میں اعلان کیا تھا۔امریکی اعلان کے مطابق وہ مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں، مغربی ایشیا سے بھی جارہا ہےاور اُسے اب علاقے کے تیل کی ضرورت نہیں۔ اس ضمن میں اُس نے سعودی عرب کو ڈی لفٹ کرنے کے کچھ اقدامات بھی کیے۔یمن تنازعے پر سعودی حمایت سے ہاتھ اُٹھایا اور جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سی آئی اے کی وہ رپورٹ جاری کردی، جس میں شہزادہ محمّد پر الزامات تھے۔علاوہ ازیں، امریکا نےایران سے ایک بار پھر نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت کا آغاز کردیا۔محمّد بن سلمان نے ان تینوں امور پر خاصا نپا تُلا ردّ ِعمل دیا۔
اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ابھی تک سعودی عرب حصّہ نہیں بنا، لیکن متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کو اسی کی اشیر باد حاصل ہے، یوں وہ نیوکلیئر ڈیل کے معاملے میں اپنا وزن استعمال کرسکتا ہے،جو پہلے ممکن نہیں تھا۔دوسری طرف اُنھوں نے حوثی باغیوں کو جنگ بندی اور بات چیت کی پیش کش کی۔اسے جوبائیڈن کی نئی خارجہ پالیسی کے خلاف سعودی عرب کی کائونٹر اسٹریٹیجی کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ اس سے سعودی عرب نے نہ صرف ممکنہ نقصانات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی، بلکہ کچھ جارحانہ اقدامات بھی کیے۔عراق میں ہونے والی بات چیت میں ایران اور سعودی مذاکرات کاروں نے نیوکلیئر ڈیل اور یمن پر بھی بات چیت کی۔ سعودی عرب اور ایران ایک اور اہم عالمی فورم، اوپیک میں بھی موجود ہیں۔یہ دونوں تیل پیدا کرنے والے وہ ممالک ہیں، جنہیں کم قیمتوں نے یک ساں طور پر نقصان پہنچایا۔
ان دونوں کے درمیان مفاہمت مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی صُورتِ حال کو بھی مستحکم کر سکتی ہے۔جب تک ایران اور سعودی عرب براہِ راست بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتے، اُس وقت تک علاقے میں معاملات اُلجھے ہی رہیں گے۔ظاہر ہے، دوسری طاقتیں کیوں چاہیں گی کہ ان دونوں ممالک کے قریب آنے سے اُن کی اہمیت میں کمی آئے یا وہ علاقے میں اپنا اثرو رسوخ کھو دیں۔بلاشبہ ایران اور سعودی عرب کی قیادت نے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ دونوں طرف کی کم زوریوں اور مضبوطی پر بات ہوسکتی ہے، لیکن اِتنی بڑی خلیج پاٹنا غیر معمولی ہی نہیں، ایک گیم چینجر ہے، جو علاقائی اور عالمی طاقتوں کی پالیسیز میں تبدیلی کا باعث ہوسکتا ہے۔اگر یہ مفاہمت ہوگئی، تو کسی بھی طاقت کے لیے علاقے میں اجارہ داری اور دھونس، دھمکی سے کام نکالنے کی صلاحیت بہت کم ہوجائے گی۔
جب تک بڑی طاقتیں عرب ممالک اور اسرائیل کے نیوکلیئر ڈیل پر تحفّظات کو ایڈریس نہیں کرتیں، اُس وقت تک اِس جوہری معاہدے کی کام یابی اندیشوں میں گھری رہے گی۔ایرانی قیادت کو اس کا ادراک ہے، تاہم امریکا اسے طاقت کے بل پر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔لیکن سعودی ولی عہد نے اب امریکا کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہنے دیا۔صدر بائیڈن چاہیں نہ چاہیں، اب اُنہیں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو نیوکلیئر ڈیل پر اعتماد میں لینا ہی پڑے گا۔نیز، سعودی عرب نے ایران سے بات کرکے امریکا کی یمن میں اہمیت بھی کم کردی۔اب یہ معاملہ براہِ راست دونوں کے درمیان بھی طے پاسکتا ہے۔ اوباما اور جوبائیڈن امریکا کی مشرقِ وسطیٰ میں دِل چسپی یا دخل اندازی کم کرنا چاہ رہے تھے، وہ اب واقعی کم ہونے جا رہی ہے۔خطّے کی بدلتی صُورتِ حال نے سعودی عرب اور ایران کو یہ بھی احساس دِلا دیا کہ دوسرے ممالک اُنہیں کیسے استعمال کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات مسلم دنیا کے لیے ایک بڑی پیش رفت سمجھے جا رہے ہیں۔ اُدھر تُرکی بھی سعودی عرب سے تعلقات بہتر کرنے کا اعلان کر رہا ہے، اِس طرح اُس کی جانب سے اسلامی ممالک کے کسی دھڑے کی قیادت کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔اچھی بات یہ ہوئی کہ پاکستان گزشہ سال اِس چکر میں آنے سے بچ گیاتھا۔ایران کے عراق، یمن، شام اور لبنان میں گہرے اثرات ہیں۔ عین ممکن ہے، سعودی عرب اِن معاملات میں کچھ لچک پر تیار ہوجائے، لیکن جواب میں ایران کو بھی اپنی فوجی پراکسیز کا کردار محدود کرنا ہوگا، خاص طور پر عرب ممالک میں مداخلت بند کرنی ہوگی۔ایرانی معیشت بہت بُری حالت میں ہے، اِس لیے بھی اُس کے لیے تنازعات حل کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
وہاں اگلے مہینے صدارتی انتخابات بھی ہونے جارہے ہیں۔پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ ایرانی حکومت اپنے سپریم لیڈر کی اجازت کے بغیر سعودی عرب سے مذاکرات کرے، تو یقیناً حالیہ پیش رفت میں ان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ویسے بھی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران کی جارحانہ خارجہ پالیسی کو خاصا دھچکا لگا ہے۔علاوہ ازیں، عرب، اسرائیل تعلقات نے بھی اس کی سوچ تبدیل کی ہے کہ آخر ایسے ماحول میں وہ کب تک ایٹمی پالیسی، میزائل پروگرام اور اپنے مفادات کو دوسرے ممالک تک پھیلانے پر سرمایہ کاری کرسکتا ہے ۔
ایرانی عوام منہگائی اور بے روز گاری میں پِس رہے ہیں۔ایرانی ریال کی گرتی ساکھ حکومت کے لیے بہت پریشان کُن معاملہ ہے۔بیس سالوں میں یہ چوتھا الیکشن ہوگا، جب کم زور معیشت ہی انتخابات کا موضوع ہوگی۔سعودی عرب اور دوسرے تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک بھی تیل کی گرتی قیمتوں سے بُری طرح متاثر ہوئے۔وہاں ترقّی رُک گئی اور بڑے منصوبوں پر کام کرنا مشکل ہوگیا، یہی صُورتِ حال ایران کی بھی ہے۔اِسی لیے شاید دونوں ممالک کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہوا کہ آپس کے مسائل آپس ہی میں طے کر لیے جائیں، وگرنہ سب ہی گھاٹے میں رہیں گے۔دوسری طرف کورونا وبا نے عرب ممالک میں سیّاحت کا شعبہ تباہ کردیا۔متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب کی ائیر لائنز، جو دن بہ دن ترقّی کررہی تھیں، اب اُن کے ملازمین آدھی تن خواہوں پر کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے، تو سعودی عرب، ایران کی مفاہمت ہمارے کے لیے بھی بڑی خوش خبری ہے۔ایک ہمارا سرحدی پڑوسی ہے، تو دوسرے سے برادرانہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنائو کے پاکستان پر براہِ راست اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔گزشتہ کئی عشروں سے اسلام آباد کے حکم ران ان دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔پاکستانی عوام کی بھی یہی خواہش ہے کہ مسلم ممالک کی برادری کے یہ دو اہم اور مضبوط ملک مل جُل کر رہیں۔ سعودی عرب، ایران کے درمیان مفاہمت کی کوششیں ہمیں بھی یہ پیغام دیتی ہے کہ مُلکوں سے تعلقات میں کوئی بات مستقل نہیں ہوتی۔ دوست ،دشمن بدلتے رہتے ہیں،صرف اپنے عوام کی بھلائی مقدّم ہونی چاہیے۔