• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں چاند کے نظر آنے نہ آنے ایسے تنازع سے فرصت ملے گی تو چاند جیسے فلسطینی بچوں کے لئے آواز بلند کریں گے۔ یہ گرہن زدہ اسلامی اور عرب ممالک کب اسرائیل جیسی ناجائز اولاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے؟ ایک عجیب انقلاب برپا کیا ہے ان بچوں نے، گولی آتی ہے تو دفاع میں پتھر مارتے ہیں، راکٹ آتا ہے تو جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ دہائیوں سے یہ انقلابی تحریک جاری ہے۔ PLO سے حماس تک اور یاسر عرفات، جارج حباش سے لیکر سے لے کر محمد عباس تک۔ رہ گئی بات عرب لیگ اور او آئی سی جیسی تنظیموں کی تو نہ پہلے انہوں نے کچھ کیا ہے نہ آئندہ کچھ کریں گی ورنہ کم از کم ان عرب ممالک سے اسرائیل سے تعلقات ختم کرانے کا ہی فیصلہ کر لیتے جنہوں نے حال ہی میں اس کو تسلیم کیا ہے۔

وہ فلسطینی بچہ پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا تھا، ’’ میں کیسے گھر میں بیٹھ سکتا ہوں‘‘ ؟اگر میں باہر نہیں گیا انہیں پتھر نہیں مارے تو وہ میرے گھر میں گھس آئیں گے۔ مجھے تو جانا ہی ہے۔ واپسی کا کچھ پتا نہیں۔‘‘ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی وہ ڈاکومینٹری، لڑائی بند ہوتی ہے تو وہی بچے پتھروں سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کیلئے تو بندوقوں والوں کے آگے پتھر لے کر کھڑے ہونا بھی ایک کھیل ہے۔ کیا کبھی ــ’گولی اور پتھر ‘ کے درمیان بھی سیز فائر ہوا ہے؟ یہ دو فریقوں کی لڑائی بنا کر دنیا کے سامنے کیوں پیش کی جاتی ہے، گولی چلنا بند ہو گی تو پتھر آنا بند ہو جائیں گے۔ یہ صرف اور صرف ننگی ریاستی دہشت گردی ہے۔ لہٰذا اس کو تنازع کہہ کر دونوں طرف سے اپیل کرنے کی بجائے صرف اور صرف اسرائیل کو روکا جائے۔ ایک فریق حملہ آور اور دوسرا اپنا دفاع کررہا ہے، روکنا صرف حملہ آور کو ہے مگر یہ گرہن زدہ ممالک کیا فلسطینیوں کی مدد کریں گے، ہاں کبھی ہوا کرتی تھی قیادت۔ ایک طرف شاہ فیصل تو دوسری طرف حافظ اسد، ایک طرف کرنل قذافی تو دوسری طرف یاسر عرفات، ایک طرف حوادی بومدین تو دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو۔ امریکہ اور مغرب کی تمام تر مخالفت کے باوجود 1974 میں اسلامی سربراہ کانفرنس لاہور میں ہوئی اور آج بھی ہمیں وہ تاریخی تقاریر یاد ہیں۔ پھر ایک ایک کو چن کر مارا گیا تاکہ ایسی قیادت پھر نہ آ سکے۔ فلسطینیوں کی عملی حمایت کرنے والے شام اور لیبیا کو تباہ کر دیا گیا۔

اس سے پہلے بھی ایک بار اسی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ہمارے پاس ’تیل‘ کا موثر ہتھیار ہے جسے دبائو کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس طرح کی تمام تحریکوں کو روس کی حمایت حاصل رہی۔ فلسطینیوں کو بھی احساس تھا کہ کوئی قوت عملی طور پر پیچھے کھڑی ہے۔ حزب ﷲ بھی طاقتور تھی اور پی ایل او بھی، ایسے میں جب پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کا اعلان کیا تو مغرب نے اسے ’اسلامی بم‘ کا نام دیا۔ اس وقت کی عرب قیادت نے پاکستان کی عملی اور مالی مدد کی۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ حال ہی میں کوئی40 یا 41 اسلامی ممالک پر مشتمل جو فورس تشکیل دی گئی تھی، وہ کہاں ہے؟

آج بھی چند اسلامی ممالک بشمول پاکستان اور ترکی کہ جہاں کی قیادت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر شاید چین وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو ایک زمانہ میں سوویت یونین ادا کرتا تھا۔ اس کی تقسیم کے بعد تو کوئی بھی سپر پاور پشت پر نہیں ہے۔رہ گئی بات ان ممالک کی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی تو ہمیں تفرقوں سے فرصت ملے تو کچھ اتحاد کا سوچیں، ورنہ افغانستان میں بےگناہ بچیاں بے دردی سے نہ ماری جاتیں، آرمی پبلک اسکول میں بچے بیدردی سے قتل نہ کئے جاتے۔ یہ کام اسرائیلی فوج نے نہیں کیا تھا ہم نے خود اپنے گھر کو آگ لگائی۔ روس کیخلاف جہاد کیا تو امریکہ کے کہنے پر اور 9/11 کے بعد دوسری بار افغانستان میں مداخلت کی تو امریکہ کے کہنے پر۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری آواز میں وہ رعب بھی نہیں رہا۔ پہلے کم از کم بھرم تو تھا۔ ویسے بھی قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت ،ورلڈ بینک اور IMF کے چنگل سے کیسے باہر آ سکتی ہے؟ عرب ممالک کے اپنے مسائل ہیں اور ہماری تاریخ میں زوال کے جو اسباب بتائے گئے ہیں وہ بھی پوری طرح درست نہیں بتائے گئے کیونکہ ہم تو تاریخ بھی اپنے مطلب کی رکھنا چاہتے ہیں۔

ہمارے تو مسائل ہی کچھ اور ہیں۔ ہمیں تو ایک سکھ دکاندار بتاتا ہے کہ رمضان میں رعایتی نرخوں میں چیزوں سے برکت ملتی ہے۔ پاکستان میں برطانیہ کا ہائی کمشنر عملی مظاہرہ کر کے اور کچرا ہاتھوں سے اُٹھا کر یاد دلاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے ‘ ہم تو بے ایمانی کر کے ایمانداری کا لبادہ اوڑھنے والی قوم ہیں۔ہمارے تو پورے نظام کو ہی گرہن لگ چکا ہے۔ کیا سیاست اور سیاست دان، کیا ریاست اور اس کے ماتحت ادارے، کیا افسر شاہی اور لوٹ بازار۔ حد تو یہ ہے کہ صحافت بھی گرہن زدہ ہو گئی ہے۔ اور آپ کو تو پتا ہے بزرگ کہتے ہیں، گرہن کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔

ایک بات کہتا چلوں جو قوم، چاند، پر لڑتی ہو وہ کیا چاند جیسے بچوں کی حفاظت کرے گی۔ فلسطینی بچے اپنی لڑائی خود لڑیں گے اور ان شاء ﷲ جیتیں گے بھی۔ اب تو فلسطینی بچہ ہاتھ میں پتھر لے کر بڑا ہوتا ہے اور جوانی میں شہید ہو جاتا ہے۔ بچ جاتا ہے تو بڑھاپے تک ایک نئی نسل تیار کر لیتا ہے۔ کبھی وہ غلیل سے پتھر مارنے کی پریکٹس کرتا ہے تو کبھی اس سے کھیلتا ہے۔ اس نے ہتھیار اٹھانا نہیں سیکھا مگر پتھر کو اپنا دفاعی ہتھیار ضرور بنالیا۔ موقع ملے تو ہمارے دوست فاضل جمیلی کی نظم’’یروشلم ہے کہ راہ غم ہے‘‘ ضرور پڑھیں۔ پتھر سے لڑنے والی یہ تحریک اسرائیل کی عمارت گرا کر انہی پتھروں سے فلسطینیوں کی اپنی نئی عمارت تعمیر کرے گی۔

تازہ ترین