صاحبو! سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر ڈاکٹر تحسین فراقی کے مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم کی حیثیت سے سبکدوشی پر نوحہ گری و مرثیہ خوانی ایک منظم مہم کی صورت میں جاری ہے۔ تکرار کے ساتھ یہ باور کرانے کی سعی کی جا رہی ہے کہ آں جناب علامتہ الدہر اور عالمِ بےمثل ہیں، انہیں اس عہدے سے ہٹانا علم و ادب کے ساتھ ظلمِ عظیم ہے۔ احباب کی عقیدت مندی اپنی جگہ لیکن ناظمِ مجلس کی حیثیت سے اگر موصوف کی کارکردگی پر ایک نظر ڈال لی جائے تو شاید حقیقت سامنے آ سکے۔
مجلس ترقی ادب لاہور کے اغراض و مقاصد میں اُردو کے کلاسیکی ادب، علمی و ادبی کتابوں کے تراجم وغیرہ کی اشاعت اور ایوارڈز کی تقسیم شامل ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت یکم جولائی 2016سے 23فروری 2021یعنی تقریباً ساڑھے چار سال کی کارکردگی موجود ہے۔ اس دورانیے میں مجلس نے کُل 88کتب شائع کیں، جن میں سے 63کتابوں کے دوسرے یا تیسرے ایڈیشن شائع کیے گئے۔ یعنی ان کتب کو محض Reprintکیا گیا۔ پہلے سے شائع شدہ کتابوں کی اشاعتِ نو کے لئے کسی بقراطی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسٹاک کلرک کسی بھی کتاب کے ختم ہونے کے بعد اس کی طلب کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں جن کی روشنی میں کتابوں کی خرید و فروخت کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا ایک عام دُکاندار بھی بڑی آسانی سے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کتاب کو دوبارہ شائع کرا دینا چاہیے۔ اس دورانیے میں مجلس نے 4ایسی کتابیں بھی شائع کیں جو اس سے قبل مختلف دوسرے اداروں سے چھپ چکی تھیں جن کے عنوان یہ ہیں: سوانح سرسیّد ایک بازدید، اُردو املا، سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات، مرقعِ دہلی۔متذکرہ بالا تعدادِ کتب میں سہ ماہی ’’صحیفہ‘‘ کے چار شمارے بھی شامل ہیں۔ وہ علمی و ادبی مجلہ جسے ہر تین مہینے بعد شائع ہونا چاہئے تھا، اتنے بڑے عالم و شاعر اور مرجع الخلائق جن کے روابط ان گنت ملکی و غیر ملکی تخلیق کاروں سے تھے، ایک سہ ماہی ادبی پرچے میں تسلسل و باقاعدگی نہ لا سکے۔ 17کتب ایسی ہیں جو ساڑھے چار برسوں میں مجلس ترقی ادب نے پہلی بار شائع کیں۔ بدقسمتی سے اُن میں سے ایک کتاب تو محترم تحسین فراقی کی ’’نکات‘‘ ہے۔ پانچ کتابیں مختلف درجوں کی تعلیمی اسناد کے حصول کے لئے لکھے گئے مقالات ہیں:پنجاب میں فارسی ادب، اُردو ناول میں مابعدالطبیعیاتی عناصر، کلامِ غالب کا لسانی و اسلوبیاتی مطالعہ، جدید اُردو نظم میں ہیئت کے تجربے وغیرہ۔ باقی ماندہ 11کتب میں سے محض 4کتابیں ایسی ہیں جو ادارے کے اغراض و مقاصد کو پورا کرتی نظر آتی ہیں، جن کے نام ہیں: مشتری مجمع اللسان، دردِ جاں ستاں، مثنوی حجابِ زناں اور فسانۂ دل فریب۔ کسی بھی ادارے کا سربراہ اس ادارے کی املاک کا بھی محافظ ہوا کرتا ہے۔ علامہ موصوف کے زمانے میں ادارے کی عمارت بھوت بنگلہ بنی ہوئی تھی۔ کتب خانے کی یہ حالت تھی کہ ہر تیسری الماری میں شیشے ٹوٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے بھڑوں کے چھتے بنے ہوئے تھے۔ مسودات اور کتابوں پر کبوتروں کی سیروں بیٹ پڑی ہوئی تھی۔ بہت سی فائلیں، مسودے اور کتابیں چوہے کتر چکے تھے۔ یعنی موصوف انتظامی صلاحیتوں سے بے بہرہ تھے یا پھر ان امور کی طرف توجہ دینا کسرِ شان سمجھتے تھے۔پروفیسر احمد عقیل روبی گورنمنٹ ایف سی کالج میں ایم۔اے اُردو کے طلباء کو عبدالماجد دریا بادی پڑھاتے ہوئے جعفر بلوچ مرحوم کا ایک الہامی شعر اکثر سنایا کرتے تھے:
جب سے اے تحسین فراقی! تیرے سپرد ہوا
عبدالماجد دریا بادی دریا برد ہوا
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ اس شعر کے الہامی ہونے پر ہمارا ایمان پختہ تر ہوتا چلا گیا کہ صرف عبدالماجد دریابادی ہی نہیں، موصوف کے سپرد جو کچھ بھی ہوا، وہ غتربود ہی ہوا۔ ہمارے یہاں عام طور پر معاملات کو اپنے صحیح سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے کا رواج نہیں۔ علاؤالدین خلجی اور جلال الدین محمد اکبر کسی جامعہ سے سند یافتہ نہیں تھے لیکن بہترین منتظم تھے۔ بہادر شاہ ظفر باکمال شاعر، حلیم الطبع اور عبادت گزار تھے لیکن انتظامی صلاحیتوں سے عاری تھے۔ محترم تحسین فراقی عمدہ اُردو بولتے ہیں، پڑھتے لکھتے بھی ہیں، لیکن مجلس ترقی ادب کے ناظم کی حیثیت سے ان کی کارکردگی صفر رہی ہے۔ ان کے ہونے سے ادارہ اپنے قیام کے اغراض و مقاصد سے دُور دُور رہا ہے۔ اس لئے ان کی سبکدوشی پر جذباتیت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کلمۂ شکر ادا کرنا چاہئے۔
اس معاملہ میں کچھ باتیں قانونی بھی ہیں کہ پانچ سال سے احمد رضا نامی تقریباً ساٹھ ہزار روپے ماہانہ دفتر سے لے رہا تھا مگر وہ کبھی دفترنہیں آیا تھا۔ دفتر والوں کے بقول اسے تنخواہ کا چیک گھر جا کر دیتے تھے۔
2۔ لاکھوں روپے کی خریداری ٹینڈرز کے بغیر کی گئی، جو قانوناً جرم ہے۔
3۔ ایک سو سال پرانے تین درخت کٹوا دیے۔
4۔بیس لاکھ روپے کی فنڈنگ جو لائبریری فاونڈیشن کی طرف سے آئی تھی کتابیں خریدنے کیلئے، وہ 34لاکھ بنا کر لائبریری فائونڈیشن کو واپس کی گئی۔
یہ رقم کتابیں خریدنے کی بجائے بنک فکس کرا دی گئی تھی۔
5۔ دو ملازم ایک ہی دن بھرتی کئے۔ ان کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار مقرر کی۔ ان میں سے ایک کو گھر میں کام کرنے پر مقرر کیا اور اس کی تنخواہ پچیس ہزار کر دی۔ کئی سال سے وہ ملازم دفتر میں نہیں ڈائریکٹر کے گھر میں کام کرتا تھا۔
میری اطلاع کے مطابق ان پانچوں کیسوں پر قانونی کارروائی جاری ہے۔