ایک اخباری اطلاع کے مطابق موجودہ حکومت دستور شکنی کے الزام میں سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بغاوت چلانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اسے عدالتی فیصلے کا انتظار ہے ۔ پہلی بار کسی فوجی آمر کو عدالتی مقدمات کا سامنا ہے اور اس کے دور حکمرانی میں اقتدار کے مزے لوٹنے، اثاثوں اور بنک اکاؤنٹس میں اضافے کرنے اور اس کے غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اقدام کی تعریف و توصیف کے علاوہ توثیق و تصدیق کرنے والوں میں سے کوئی دفاع کرنے پر تیار نہیں، اکٹھے تیرنے والوں میں سے کوئی اکٹھا ڈوبنے کا نعرہ مستانہ تو کیا بلند کرتا الٹا عبرت ناک سزا دینے کے دعویداروں میں ہر کوئی پیش پیش ہے۔ 2002ء کی پارلیمینٹ کے ارکان، ارشاد حسن خان کے ساتھی جج اور یس باس کہنے والا ہر بندہ خاکی یہی ظالم زمانے کی ریت ہے ۔
پرویز مشرف کے زخم خوردہ حکمران اگر از خود یا عدالت عظمیٰ کے احکامات پر آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا آغاز کرتے ہیں تو یہ ان افواہوں کی یکسر نفی ہو گی کہ پاک فوج اس ٹرائل کے حق میں نہیں ، پرویز مشرف کی ہمدرد کسی بیرونی طاقت کا دباؤ ہے یا موجودہ حکومت پنڈورا بکس کھولنے سے ڈرتی ہے وغیرہ وغیرہ تاہم اٹھارہویں آئین کے مطابق آرٹیکل 6اب اکیلے جنرل پرویز مشرف کے خلاف نہیں ان کے تمام ساتھیوں (سیاست دانوں، فوجیوں اور ججوں) کے خلاف استعمال ہو گا۔
جنرل پرویز مشرف سے پہلے بھی تین بار ملک میں مارشل لاء لگا مگر تینوں بار ملک سیاسی بحران سے دوچار تھا اور سکندر مرزا، ایوب خان اور بھٹو نے اپنے اپنے فوجی سربراہوں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی ۔یہی وجہ ہے کہ قوم نے سکھ کا سانس لیا اور سیاسی قیادت نے کھلے دل سے ان مارشل لاؤں کا خیر مقدم کیا ۔فوجی اقدام کی توثیق کرنے والی عدلیہ بھی پی سی او کی حلف یافتہ نہیں تھی ۔مگر جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں اپنی ملازمت اور 2007ء میں غیر قانونی صدارت بچانے کے لئے اپنا حلف اور ملکی دستور توڑا، اس بار قوم سڑکوں پر تھی نہ آئینی مشینری معطل البتہ میاں نواز شریف کے مخالف سیاست دانوں نے حسب عادت خیر مقدم کیا اور کچھ نے جشن بھی منایا یہ سیاست دانوں میں طبقاتی غیرت کے فقدان کا مظہر تھا۔
پرویز مشرف کا جرم صرف دستور شکنی نہیں، اگرچہ سب سے سنگین اور سب جرائم کی ماں یہی ہے ، یہ شخص جامعہ حفصہ کے معصوم بچوں اور بچیوں ، کعبہ کی بیٹی لال مسجد اور اکبر بگتی کا قاتل ہے ۔فاٹا ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی آگ اس احمق نے جلائی ، ڈالر لیکر پاکستانی شہری امریکہ کے حوالے کئے اور قومی خود مختاری کا سستے داموں سودا کیا، اس کے عہد ستم میں فوجی افسر اور جوان باوردی بازاروں، پبلک مقامات پر جانے سے کتراتے تھے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا قومی ہیرو نظر بند ہوا ۔
تاہم 12/اکتوبر 1999ء سے 3نومبر 2007ء تک جنرل پرویز مشرف اکیلا نہ تھا دونوں مواقع پر اس کی مدد کرنے والے بھی برابر کے مجرم ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 6کا دائرہ شریک جرم فوجی افسروں، ججوں، سیاست دانوں اور سرکاری افسروں تک وسیع کیا جا چکا ہے اس لئے موجودہ حکومت کو مقدمہ بغاوت اکیلے جنرل پرویز مشرف نہیں تاہم شریک جرم کرداروں کیخلاف درج کرانا پڑے گا۔ صرف دستور شکنی کا منصوبہ پروان چڑھانے والے نہیں اسے آئینی، قانونی، پارلیمانی اور اخلاقی جواز فراہم کرنے اور اس کے غیر آئینی اقدامات کی آنکھیں بند کرکے تعمیل کرنے والوں کے خلاف ہیں ۔ یہ مقدمہ 3نومبر نہیں 12/اکتوبر کے اقدام پر ہونا چاہئے کیونکہ اصل جرم کا ارتکاب 12اکتوبر کو ہوا 3نومبر کو اس کی(Extention) توسیع تھی اور ظفر علی شاہ کیس کے تحت حاصل اختیارات کا بااثراستعمال موجودہ حکمران اگر اس پر آمادہ ہیں تو پھر انہیں کارروائی کا آغاز ہنی مون پیریڈ کے دوران اس الزام کے ساتھ کرنا چاہئے کہ پرویز مشرف اور ان کے شریک جرم ساتھیوں کو صفائی اورفیئر ٹرائل کا بھرپور موقع ملے ان کے وکلا کو مقدمہ لڑنے اور ملزموں کو سرکاری دستاویزات تک رسائی کی مکمل آزادی ہو ۔ عدالتی کارروائی کے دوران عدالت کے اندر اور باہر ملزموں اور وکلاء صفائی کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جائے ۔کوئی انہیں ہراساں نہ کر سکے مقدمہ سننے والی عدالت کے ارکان کے بارے میں ملزموں کو یہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے کہ وہ کسی کے ذاتی عناد رکھتے ہیں اور خالصتاً آئینی و قانونی معاملہ عدل وانصاف کے مروجہ تقاضوں کے مطابق طے ہو۔
جنرل پرویز مشرف کے کچھ ساتھی موجودہ حکومت میں شامل ہیں، کچھ ”مقدس گائیں “ ان کھونٹوں سے بندھی نہیں جہاں کا رخ کرتے قانون کے پر جلتے، انصاف کے قدم لڑکھڑاتے ہیں ۔کیا استغاثہ ان سب کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا حوصلہ رکھتا ہے یا صرف جنرل یحییٰ خان کی طرح اکیلے جنرل (ر) پرویز مشرف کو غاصب، دستور شکن اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیکر چک شہزاد کے گوشہ تنہائی میں باقی عمر اپنے کئے پر پچھتانے کی سہولت فراہم کی جائیگی تاکہ باغبان بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی،
یہ صرف میاں نواز شریف اور منتخب پارلیمنٹ کا نہیں آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی ہر ایک کے لئے فیئر ٹرائل کے علمبردار جمہوریت پسندوں، وکیلوں کا بھی امتحان ہے ۔ انصاف ہوتا سب کو نظر آنا چاہئے اور انتقام کا دور دور تک نام ونشان نظر نہ آئے جس سلوک کا نشانہ ماضی نہیں جمہوری حکمران، جج، وکلاء اور حریت پسند صحافی بنے عام شہریوں کو تجربہ ہوا وہ قابل نفرت تھا اب یہ سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے تاکہ انصاف اور انتقام کے درمیان لکیر کھینچ کر قانون کی حکمرانی کا آغاز ہو اور فوجی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کے لے بند ہوجائے ۔کیا موجودہ نومنتخب جمہوری حکومت نے یہ اطمینان کر لیا ہے کہ وہ یہ پل صراط باآسانی عبور کر لے گی ؟ ملزم کے شریک جرم بھی اپنے حصہ کی سزا بھگتنے پر آمادہ ہیں ؟ اور آج جو لوگ زوروشور سے مقدمہ چلانے کی حمایت کر رہے ہیں کل بھی اپنے موقف پر قائم رہیں گے ؟ کیا یہ منتخب جمہوری حکومت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اندھیروں کے سفر پر روانہ کرنے کی سازش یا نادان دوستوں کی جلد بازی تو نہیں ؟ یہ سوچنا حکمرانوں کا کام ہے ۔ ہم سخن مہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں ۔