• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطیب احمد

کتاب سے طالب علم کا تعلق، اس کے مطالعہ سے آگے بڑھتا ہے۔ علم ہمیشہ تلاش سے ملتا ہے۔ آج طلباء کو وہ سہولتیں حاصل ہیں جن کا پہلے کبھی ان کی زندگیوں میں تصور بھی نہ تھا۔ آج ہر جگہ چپہ چپہ پر تعلیمی مراکز موجود ہیں،جن میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہے، مگر آج کے طالب علم میں کتاب سے وہ انس نہیں، جس کی جھلک پہلے دکھائی دیتی تھی۔ آج مطالعے کے وہ مناظر نظر نہیں آتے جو پہلے طلباء کی شخصیتوں کی لازمی شناخت تھے اور استاد کی عزت و احترام کے تصورات بھی آج ماند دکھائی دیتے ہیں۔ 

درست راہ کا انتخاب ہر طالب علم اپنے زمانہ طالب علمی میں طے کرتا ہےلیکن جوں جوں وقت گذرتا جارہا ہے، طلبہ میں اخلاقی قدریں گراوٹ کا شکار ہوتی جارہی ہیں، جس کے پیش نظر ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کیا اس صورت حال کے طلبہ قصور وار ہیں؟

ماں کی گود بچے کی ایک بہترین درس گاہ سمجھی جاتی ہے، جہاں تربیت پانے والا فرد نیک اوصاف کا پیکر بن کر معاشرے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور تعلیمی ادارے اس فرد کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اگر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ماں کی گود جوپہلی درسگاہ تصور کی جاتی تھی، آج اُس گود میں ہی بچے کو فون تھمادیا جاتا ہے۔

آج کا طالب علم اعلٰی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اخلاقی انحطاط ، معاشرتی بدحالی، گمراہی اور پستی کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہے۔ ان میں وقار زندگی ہے، نہ معیار زندگی، علم شرمندہ عمل ہے نہ قلم تابندہ عقل۔ دین ، دانائی اور درماندگی کے ایوانوں میں ویرانی ہی ویرانی ہے۔ ان میں آفاق بہت ہیں، مگر صاحبِ آفاق کوئی نہیں۔عصر حاضر میں نوجوانوں میں تہذیب تمدن اور اخلاقیات کا پارہ انسانی اقدار کے نقطہ انجماد سے بھی گر چکا ہے، جس کا قصور وار صرف طلباء کو قراردے دیا جاتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے، طلبہ کے علاوہ ہر وہ شخص اور ادارہ بھی ذمہ دار ہے، جس کی ذمہ داری نسلِ نو کی شخصیت سازی ہے۔ 

کیوں کہ جب تک شخصیت سازی ہی نہیں ہوگی، اُن کو بے پناہ سہولیات ہی کیوں نہ فراہم کردی جائیں وہ کبھی ترقی نہیں کر پائیں گے۔تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے، طلبہ کو مستقبل کا معمار بنانا لیکن آج ان کے اور طالب علموں کے درمیان استاد اور شاگرد کے بجائےتجارتی رشتہ قائم ہوگیا ہے۔ کیونکہ اُن کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ وہ بھاری فیس دے کر ڈگری حاصل کر رہے ہیں ۔ ہر فرد اور ادارے کو اپنی ذمہ داری پر غور کرنا ضروری ہے۔ نسلِ نو کی جس طرح ذہنی اور جسمانی تربیت کی جائے گی، وہ اپنی صلاحیتوں کا اسی طرح استعمال کریں گے یعنی ان کی تربیت صحیح نہیں ہوگی تو وہ منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوجائیں گے، جس کے نقصانات کا ان کو بالکل اندازہ نہیں ہوتا۔

یہ شکوہ کثرت سےکیا جارہا ہے کہ نوجوانوں نے اخلاقی قدروں کو نہ صرف پامال کیا بلکہ جدیدت کے نام پر حیا کا لبادہ بھی تار تار کردیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ کبھی کسی نے سوچا ۔ جدیدیت کے نام پر ان کو وہ سب فراہم کیا جارہا ہےجو اُن کے بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔جدید دور کے تقاضوں کی مناسبت سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال برانہیں ، صرف ہر چیز کو اعتدال کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے استعمال کاطریقہ بتاناہوتاہے۔طلباء کی رہنمائی کی ذمہ داری ان سے منسلک تمام اداروں کو کرنی ہی ہوگی۔ کیوں کہ کوئی اور ہمارے مسائل حل کرنے نہیں آئے گا۔

بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ غلطیوں کی روک تھام نہیں کی جاتی۔ بس رونا رویا جاتا ہے۔آج ایک طالب علم کو صرف یونیورسٹی کے امتحانات پاس نہیں کرنے بلکہ کل آنے والی زندگی کے عملی امتحانات بھی پاس کرنے ہیں، جس کا آج اچھا ہے اور اس کا کل بھی عمدہ ہے۔ 

ماضی میں ہم نے علمی تحقیق اور تعمیری کاموں میں دنیا کی امامت و قیادت کی تھی۔طلباء کو اسلاف سے سیکھنا ہوگا اور دنیا کے ساتھ چلنا ہوگا۔ خود ساختہ اور خود کاشتہ نظام تعلیم کے خول سے نکل کر علمی اور سائنسی تحقیق کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرنی ہوں گی۔زندگی کو خودی کی بلندیوں سے ہمکنار کر کے زیور تعلیم سے آراستہ کر نا ہوگا۔

ملک کی آبادی کا 70فی صد حصہ نوجوانوں پر منحصر ہے۔ جب تک نوجوان نسل کے مسائل حل نہیں ہوںگے، بات نہیں بنے گی اور اس کانقصان معاشرے کو پہنچے گا۔ نوجوانوں کے بنیادی مسائل کو فراموش کرنے کے بجائے، کھل کر باہمی مکالمے کے ذریعے ان کا حل تلاش کرنا ہوگا، لہذا اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو اندھیروں سے بچالیں۔

تازہ ترین