ایک لمحے کو چھوڑیئے اس بات کو کہ جہانگیر خان ترین کا ہم خیال گروپ کس سے زور آزمائی کر رہا ہے۔ کچھ وقت کے لیے بھول جائیے کہ تخت پنجاب کی مسند پر اب کون جلوہ افروز ہو گا۔ وفاق میں کس کی حکومت بنے گی؟ لوٹے کس کے حکم پر پرواز کریں گے اور کس کے وٹس ایپ پر ساکت و جامد ہو جائیں گے۔ شہباز شریف کی وطن سے روانگی کا پروانہ جاری ہو گا یا نہیں ؟ راولپنڈی رنگ روڈ میں کرپشن کے ملزمان پکڑے جائیں گے یا وہ این آر او سے فیض یاب ہوں گے۔ حکومتی وزراء کی کرپشن منظر عام پر آئے گی یا فائلوں تلے دب جائے گی؟ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر سب متفق ہوں گے یا نہیں؟ یہ روز مرہ کی باتیں ہیں۔ یہ بریکنگ نیوز ہیں جو بدقسمتی سے جلد وقت کے غبار میں کھو جاتی ہیں۔ انکی جگہ اگلے دن کوئی اور اسکینڈل ، کوئی اور سنسنی خیز خبر ہماری منتظر ہوتی ہے۔ انہی ہنگامہ خیزیوں سے میڈیا کا پیٹ بھرتا ہے۔ انہی خبروں سے اخبارات کے صفحات سیاہ ہوتے ہیں۔ ہر دور میں ایسی ہی خبریں آتی ہیں ، ہر دور کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اس سب ہنگامہ خیزی کے باوجود کیا وجہ ہے کہ نہ ہم بدلتے ہیں نہ ہمارے حالات بدلتے ہیں۔
پوری تاریخ پاکستان کا ورق ورق مطالعہ کرلیں ۔ ہر صفحے پر کچھ ایسے حالات نظر آئیں گے جہاں یوں لگتا تھا کہ سب کچھ بدل جائے گا مگر کچھ نہ بدلا۔ بہت سے موڑ ایسے آئے جنہیں تاریخی کہا گیا۔ جہاں سے آگے تقدیر کے فیصلے بدلنے تھے مگر وہ سب فیصلے خواب ہی رہے۔ بہت دفعہ ایسا لگا کہ اب عوام کی طاقت اپنا رنگ جمائے گی ، اب خلق خدا راج کرے گی اب ہماری دنیا بدل جائے گی۔ لیکن کچھ نہ بدلا۔
ہم عجیب قوم ہیں جو اپنے بارے میں ایک مسلسل ندامت اور احساس کمتری سے دوچار ہیں ۔ نہ ہمیں اپنی صلاحیت پر فخر کرنے کا موقع ملا نہ اپنی اکثریت کا حق جمانے کی کوئی صورت نظر آئی۔ زندہ قومیں اپنے آپ پر شرمسار نہیں رہتیں۔ ہمت حوصلہ دکھاتی ہیں۔ کچھ بنیادی معاملات میں متفق اور متحد ہوتی ہیں۔ ہمارے اس شرمسار رویے کی ایک وجہ تو وہ دانشور ہیں جو ہر وقت ہم پر لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں۔ اپنی ہی قوم کو نیچا دکھانے سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ خیال یہ ہے گمراہی میڈیا کے ذریعے اس بری طرح تقسیم کی گئی کہ ہم میں مجتمع ہونے کا حوصلہ ہی نہیں رہا ۔ اس پر طرہ یہ ہے ایک منظم طریقے سے بائیس کروڑ عوام کو تقسیم کیا گیا۔ کبھی ہماری اجتماعی سوچ میں فرقہ پرستی آڑے آ گئی کبھی سیاسی مفادات در آئے کبھی ذاتی ترجیحات سامنے آگئیں۔ کبھی تعصب کی آگ میں ہمیں جھونک دیا گیا کبھی صوبائیت کو ہمارے ماتھوں پر چسپاںکر دیا گیا۔ کبھی لسانی تقسیم کی بات ہوئی کبھی سماجی ابتری سے ہم منقسم ہوئے ۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمیں اس بات کا ادارک ہی نہیں ہونے دیا گیا کہ ہم کراچی سے خیبر تک ایک قوم ہیں۔ ایک سا سوچتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دنیا کی اور قوموں میں لسانی ، سماجی اور سیاسی اختلافات نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود کچھ باتوں پر ان اقوامِ عالم کاموقف متفق ہوتا ہے۔ بدقسمتی ہےہم جدا جدا اور منقسم ہی رہے۔ نہ کوئی مشترکہ موقف اپنایا نہ کبھی مشترکہ جدوجہد کی۔ سانحے قوموں کو تقسیم بھی کرتے ہیں اور متحد بھی۔ کسی سانحے کا کسی قوم پر کیا اثر ہوتا ہے یہ اس قوم کے مزاج پر منحصر ہے ۔ ہماری ساری تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سانحوں سے سبق نہیں سیکھا۔
یادرکھیں طاقت کے کھیل میں اخلاقیات کی کہانی نہیں چلتی۔ جب لوگ خود اٹھنے کو تیار نہیں ہوتے تو انکو پائوں تلے روند دینے والوں کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ جب لوگ خود منقسم ہوتے ہیں تو اس تقسیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ جو جوتے کھانے کے لئے تیار ہوں انکو جوتے مارنے والے سے گلہ نہیں کرنا چاہئے۔ طاقت کا کھیل ہی ایسا ہے کہ اس میدان میں خود پر ترس کھانے والے ، شرمسار رہنے والے، تعزیتی اجلاس کرنے والے روندے جاتے ہیں۔ خود ترسی میں مبتلا اقوام سر نہیں اٹھاتیں۔ انکے سر جھکے ہی رہتے ہیں۔تاریخ میں ایسے بہت سے سانحے ہمارا مقدر ہوئے جب قوم کو اٹھ کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ فاطمہ جناح کی جدوجہد پر سب کو متفق ہونا چاہئے تھا۔ پوری قوم کو متحد ہو کر بھٹو کو عدالتی قتل سے محفوظ رکھنا چاہئے تھا۔ بے نظیر کی شہادت پر تقسیم نہیں ہونا چاہئے تھا۔ نواز شریف کی وطن بدری کے خلاف سب کو متحد ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ منقسم رویوں نے راج کرنے والوں کو شہہ دی۔ اور ہم محکوم سے محکوم تر ہوتے چلے گئے۔
آج جو نواز شریف کہہ رہے ہیں یہ کسی ایک پارٹی کا موقف نہیں، کسی ایک صوبے کا مطالبہ نہیں ہے۔ یہ سب کا مشترکہ مفاد ہے ، سب کا مشترکہ خواب ہے۔ ووٹ کی عزت دراصل بائیس کروڑ لوگوں کی عزت ہے اور ووٹ کی تذلیل بائیس کروڑ عوام کی تذلیل۔ اس موقع پر ہم متحد ہو کر یہ آواز اٹھاتے ہیں تو دہائیوں کی یہ شرمساری اور پژمردگی ختم ہو سکتی ہے۔ ہم فرد سے قوم بن سکتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم آج بھِی اس نظریئے سے نظر بچاتے ہیں تو قصور کسی آمر کسی ڈکٹیٹر کا نہیں بائیس کروڑ عوام کا ہو گا کیونکہ ان سے بڑی قوت اس نظام میں کوئی نہیں اور اصل المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنی قوت کا رتی بھر اندازہ ہی نہیں۔ اس نظام سے آزردہ بائیس کروڑعوام کو یہ احساس ہی نہیں کہ وہ ہی نظام ہیں، وہ ہی سماج ہیں، وہ ہی معاشرہ ہیں اور وہ ہی طاقت ہیں۔ صرف اتنی سی بات بتانا مقصود ہے کہ جو لوگ اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے انکا حق انہیں کبھی نہیں ملتا۔ جو اپنا ہی حق مانگنے پر شرمسار رہتے ہیں انہیں اپنی محرومی پر واویلا کرنے کا، اپنی کسمپرسی پر ترس کھانے کا، اپنی بے بسی کی داستان سنانے کا کوئی حق نہیں۔