• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برٹش پاکستانی حجاب پوش باکسنگ کوچ حسینہ عبداللہ ہوم ٹائون ہیرو قرار دیدی گئیں

برمنگھم (عمران منور/صائمہ ہارون) پہلی حجاب پوش برٹش پاکستانی باکسنگ کوچ حسیبہ عبداللہ اگلے سال برمنگھم میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز کیلئے ہوم ٹائون ہیرو قرار دیدی گئیں، حسیبہ، جنھیں خواتین کے کھیلوں کی سفیر کہا جاتا ہے، اسمیتھ وک کے ونڈمل باکسنگ جم میں کوچنگ کرتی ہیں، نے جنگ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اوائل میں عمری ہی اسکول کی مصروفیات کے بعد سے باکسنگ میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی۔ انھوں نے کہا کہ بہت سی فیملیز خواتین کی کھیلوں میں شرکت کو پسند نہیں کرتیں لیکن اب صورت حال تبدیل ہورہی ہے، لوگوں کے ذہن کھل رہے ہیں اور اب لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ یہ منفی چیز نہیں ہے بلکہ خواتین کیلئے فائدہ مند ہے۔ حسیبہ، جن کے والدین کاتعلق پاکستان کے علاقے گجرات سے ہے، کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی فیملی کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے، میری فیملی میری سب سے بڑی سپورٹر تھی، میرے والدین مجھے بہت زیادہ سپورٹ کرتے تھے۔ میرے بھائی میں، جن کی بھی ساتھ ساتھ کوچنگ کرتی ہوں، ایک شاندار ٹیم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب وہ واقعی مقابلے کرنا اور کھیلوں میں ترقی کرنا چاہتی تھیں لیکن حجاب پہننے کی وجہ سے انھیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا، کیونکہ اس دور میں باکسنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں تھی، ایک روایتی مسلمان خاندان سے تعلق کی بنا پر وہ باکسنگ کٹ بھی نہیں پہن سکتی تھیں اور یہ پاکستانی اور جنوبی ایشیائی کمیونٹیز میں نوجوان خواتین کے باکسنگ میں حصہ لینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ 2019 میں انٹرنیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن نے باکسنگ کا ڈریس کوڈ تبدیل کردیا ہے اور اب ہم پوری آستین کے کپڑے پہن سکتے ہیں، اپنے پیروں کو بھی ڈھک سکتے ہیں اور ضروری ہو تو حجاب بھی پہنچ سکتے ہیں، خواتین کیلئے یہ بڑی اور حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ اس دور میں کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ نہ لے سکنے کے باوجود چونکہ انھیں کھیل سے بہت زیادہ دلچسپی تھی، اس لئے انھوں نے دوسری خواتین کی کوچنگ کرنے اور اتھارٹیز کو یونیفارم تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ برمنگھم کامن ویلتھ گیمز کے پیج کے مطابق دیگر کمیونٹی لیڈرز کے ساتھ حسیبہ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے، انھوں نے کھیلوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے، انھوں نے سرکاری ڈریس کوڈ کے قوانین تبدیل کرنے میں مدد دی اور خواتین کو تربیت اور مقابلوں کے دوران پورے کپڑے پہننے اورسر پر اسکارف باندھنے کی اجازت دلوائی، اس طرح اب تمام لڑکیا ں کھیلوں میں اس طرح حصہ لے سکتی ہیں، جس طرح وہ نہیں لے سکیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بیٹھ کر اپنا تمام کام جمع کیا اور ریسرچ کے بعد ایک اسٹڈی بھیجی، جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ حجاب پہننے یا جسم ڈھانکنے سے ایتھلٹک صلاحیت کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوتی، اس لئے ہمیں خواتین کو کھیلوں میں شرکت کا موقع دینے کیلئے لباس سے متعلق قانون تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ کوچنگ اختیار کرنا ہی کھیلوں میں موجود رہنے کا واحد راستہ تھا، کیونکہ میں اس وقت کے قانون کے تحت مقابلوں میں شریک نہیں ہوسکتی تھی، ہوم ٹائون ہیرو قرار دیئے جانے پر حسیبہ بہت زیادہ خوش تھیں اور ہر جگہ اپنی تصاویر دیکھ کر وہ سرشار ہو رہی تھیں۔ لوگ انہیں بڑی تعداد میں کال کررہے تھے، انہوں نے بتایا کہ کمیونٹی نے مجھے ووٹ دیا جو کہ میرے صبر کا پھل ہے۔پوری کمیونٹی نے میری تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ کامن ویلتھ گیمز میں برمنگھم سے زیادہ لڑکیوں کو حصہ لینے کی ترغیب دی جائے گی، کیونکہ یہ خود ان کے اپنے شہر میں ہو رہے ہیں اورانھیں ان کو دیکھنے اور والنٹیئر کی حیثیت سے حصہ لینے کاموقع ملے گا، کامن ویلتھ گیمز میں کمیونٹی کی پہچان بننے کے بعد اب حسیبہ اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لانا چاہتی ہیں، انہوں نے بہت سی لڑکیوں کو متاثر کیا ہے اور اب زیادہ لوگ خواتین کو باکسنگ میں کسی مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دوسرے کلب اور باکسنگ کوچز بھی خواتین کو تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب باکسنگ کو عروج ضرور ملے گا۔
تازہ ترین