محمد عبداللہ
آج کل جوانی بھی گویا سردیوں کی دوپہر بن کر رہ گئی ہیں۔ جس کے نا آنے کا پتہ چلتا ہے نا جانے کا۔ پیلا چہرہ، لاغر بدن، ڈھیلی کمر اور نڈھال آنکھیں۔ تھکن، کاہلی اور کام چوری ان کی زندگی کا شعار ہو گیا ہے۔ نوجوانوں کے معیار صحت کی موجودہ پستی کے بڑے اسباب ہیںسب سے پہلا اور اہم سبب یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل زیادہ تر کسی بھی موثر ذہنی قوت کی گرفت سے آزاد زندگی بسر کر رہی ہے، حالانکہ نوخیز ذہنوں کےلئے خاص طور پرایسی کوئی گرفت نہایت ضروری ہے، تاکہ وہ ان کے ناپختہ خیالات و افکار کو آوارہ بننے کے خطرے سے محفوظ رکھ سکے۔
نوخیز دماغ شاید ہی اس بات کو بطور امر واقعہ تسلیم کرنےکےلئے تیار ہوتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کھانے، پینے، سونے اور دولت جمع کرنے کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ وہ ایک بے قید اور بے لگام دوڑ ہی کو زندگی کی حقیقی دوڑ سمجھنے لگ جاتے ہیں اور ان کے اس احساس نے ان کی زندگی کو ایسی کشتی کی مانند بنا دیا ہے جو پتوار اور لنگر دونوں سے محروم اور انجانے پانیوں میں بے مقصد غوطے کھارہی ہو۔
ذہنی زندگی کا یہ مزاج بہر حال عام صحت پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فکری انتشار ایک ذہنی بیماری ہے اور ذہن اگر بیمار رہے تو جسم بھی تندرست نہیں رہ سکتا چنانچہ اس انتشار فکر نے ہمارے نوجوانوں کی عام صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان کے قویٰ میں وہ توانائی اور قوت نہیں پائی جاتی جو ایک صحت مند روح اور صحت مند ذہن کےلیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اخلاقی انحطاط نوجوانوں کی صحت کی عام کمزوری کا دوسرا بڑا سبب ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے خصوصاً روز افزوں ہے۔ نام نہاد جدید یت نوجوان نسل کو جو ذہنی غذا بہم پہنچا رہے ہیں وہ ان کے فکر و نظر میں زہر تو گھول سکتی ہے لیکن ان چیزوں کےلئے قوت اور توانائی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ ان کے بیمار ذہن ناگزیر طور پر ان کے بیشتر جسمانی امراض کا سبب بن جاتے ہیں جن میں سرفہرست اعصابی کمزوری ، گھبراہٹ، زودرنجی، نازک مزاجی، شدت احساس اور اسی قسم کی دیگر نفسیاتی اضمحلال کی علامات اس مرض میں نمودار ہو جاتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی جسم کی قوت مدافعت بھی بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔
تن آسانی کا رجحان نوجوانوں کے معیار صحت کی خرابی کا تیسرا بڑا سبب ہے،اگرچہ یہ رجحان بذات خود عہد جدید کی متعدد سائنسی ایجادات اور ترقیات کا ناگزیر نتیجہ ہے لیکن یہ تمام ترقیات اور ایجادات مل کر بھی اس حقیقت میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتیں کہ جب بھی فطرت کے اصولوں سے روگردانی کی جائے تو اس عمل کا ردعمل لازمی طور پر کسی نہ کسی فطری سزا کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
فطرت نے انسانی جسم کی مشین کچھ ایسے اصولوں کے ساتھ بنائی ہے کہ اس کی بقا اور اس کے استحکام کا راز اس کے ہر حصہ اور ہر جزو کی حرکت اور اس کے چالو رہنے میں مضمر ہے۔ حرکت گویا جسم انسانی کا طبعی وظیفہ ہے۔ نوجوانوں میں تن آسانی، آرام پسندی، محنت سے گریز کا رجحان گویا فطرت کے اصولوں سے نزاع اور جنگ کے مترادف ہے ، جس کے نتیجہ سے کسی کو چھٹکارا نہیں مل سکتا۔
آپ اگر اپنے جسم سے کام لینا چھوڑ دیں گے تو یہ بھی آپ کو کام دینا چھوڑ دے گا اور آپ کے لیے زندگی کا سامان بننے کے بجائے مختلف دکھوں اور بیماریوں کا مجموعہ بن کر رہ جائے گا۔اپنا کام اپنے ہاتھ سے نہ کرنا، ہر بات میں ملازم یا خوردگان کی امداد کی توقع رکھنا یا اپنا سامان یا بوجھ اٹھانے میں عار محسوس کرنا، صبح کو دیر تک لمبی تان کر سوتے رہنا اور روزمرہ کے کام سرانجام دینے کےلئے زیادہ سے زیادہ آرام دہ تدابیر اختیار کرنا حقیقت میں اپنے جسم اور اپنی صحت کو میٹھا اور آہستہ رو ،زہر پلانے کے مترادف ہے۔ پھر کیا خیال ہے، اپنی صحت کے بارے میں۔