• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی نے راولپنڈی رنگ روڈ کو ایک بہت بڑا اسکینڈل قرار دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اربوں کی کرپشن ہونے سے پہلے ہی روک دی گئی۔ جس انکوائری رپورٹ کو بنیاد بنا کر اس پروجیکٹ کو کرپشن کا ایک بہت بڑا اسکینڈل بنایا گیا‘ اُس میں اگر سب سے بڑا کوئی ویلن دکھایا گیا تو وہ سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن ریٹائرڈ محمود ہیں۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے انکوائری کے لیے تین رُکنی کمیٹی بنائی تھی لیکن جو انکوائری رپورٹ لکھی اور منظور کی گئی‘ وہ یک رکنی تھی۔ موجودہ کمشنر راولپنڈی گلزار شاہ نے یہ رپورٹ لکھی اور خود ہی فیصلہ کیا کہ کمیٹی کے دوسرے دو ممبران کو وہ کمیٹی میں شامل نہیں کریں گے۔ گلزار شاہ اس سے پہلے گوجرانوالہ کے کمشنر تھے جہاں سے ڈسکہ الیکشن اسکینڈل کی وجہ سے انہیں لیکشن کمیشن کے حکم پر دوسرے کئی افسران کے ساتھ عہدے سے ہٹادیاگیاتھا۔ بغیرکسی بحث مباحثہ کے جو رپورٹ گلزار شاہ نے حکومت پنجاب کو پیش کی اور اُسے منظور بھی کر لیا گیا ‘ اس پر چیف سیکریٹری اور چیف منسٹر کی طرف سے کہا گیا کہ ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے تو پھر اس سارے ا سکینڈل کی اصل ذمہ دار تو پنجاب حکومت خود ہے کیوں کہ کمشنر نے جو جو مبینہ طور پر غلط کیا اُس سب کی منظوری تو حکومت پنجاب نے دی اور یہ منظوری دینے والوں میں چیف منسٹر، چیف سیکریٹری، سیکرٹری فنانس اور دوسرے کئی متعلقہ محکموں کے سیکریٹری شامل تھے۔ سابق کمشنر راولپنڈی پر سب سے بڑا الزام ہےکہ اُس نے رنگ روڈ کے روٹ‘ جس کی منظوری نہیں دی گئی تھی‘ کے لیے زمین ایکوائر کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اربوں روپیے کی زمینیں خریدی گئیں‘اُن کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟کیا کمشنر نے اتنا پیسہ اپنی جیب سے دیا یا اُس کے دفتر کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اربوں روپے کی خریدفروخت کسی کی منظوری کے بغیر کر سکتا ہے؟ دی نیوز کے سینئر صحافی طارق بٹ کی خبر کے مطابق یہ فیصلہ پنجاب حکومت نے کیا، زمین ایکوائر کرنے کے لیے سولہ ارب روپے سے کچھ زیادہ پیسہ مختص کرنے کے لیے باقاعدہ پہلے پنجاب حکومت اور پھر پنجاب اسمبلی کی طرف سے منظوری بھی دی گئی۔ اس کا پی سی ون بھی صوبے کی ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے منظور کیا۔ 140صفحات پرمشتمل پی سی ون کی دستاویز میں رنگ روڈ کا مکمل روٹ بھی دکھایا گیا، یہ بھی اس دستاویز میں لکھا تھا کہ رنگ روڈ کے لیے زمین کو کس قیمت پر ایکوائر کرنا ہے، اس روٹ پرکتنے درخت کٹنے ہیں، کتنے سٹرکچرز راستے میں آتے ہیں، اس روڈ پرممکنہ ٹریفک کتنی ہو گی، سفر پروقت کتنا لگے گا وغیرہ وغیرہ۔ رنگ روڈ کے لیے زمین ایکوائر کرنے کے لیے پی سی ون میں یہ تفصیلات بھی شامل تھیں کہ کس گائوں اورکس خسرہ نمبر کی زمینیں خریدنی ہیں۔ ڈسٹرکٹ پرائس اسیسمنٹ کمیٹی کی سفارش پر صوبائی پرائس اسیسمنٹ کمیٹی جس کی سربراہی ممبر سینئر بورڈ آف ریونیو اور جس میں دس محکموں کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں‘ اُن کی طرف سے ہر خسرہ سے متعلق قیمت کا بھی تعین اور منظوری اس پی سی ون میں شامل تھی۔ اس پی سی ون کے مطابق دوہزار دوسو پچھتر (2275) ایکڑ زمین ضلع راولپنڈی، اٹک اور اسلام آباد میں ایکوائر کرنی تھی۔ اس پی سی ون کے مطابق دوہزار سے زیادہ خاندان اور اُن کے گھر متاثرہوں گے۔ تقریباً 245 تعمیرات بھی متاثرہوں گی جبکہ کچھ مساجد اور قبرستان بھی اس روڈ کی زد میں آئیں گے جس کے لیے آر ڈی اے کا کہنا تھا کہ ان جگہوں سے روڈ کو Realign کر دیا جائے۔ پی سی ون کے مطابق سترہ ہزار سے زیادہ درخت اس روٹ میں آتے ہیں۔اسی پی سی ون کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری کی منظوری سے فنانس ڈیپارٹمنٹ نے پیسہ ریلیز کیا جس سے زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور کوئی دو تین ارب روپےکی زمینیں خرید بھی لی گئیں۔ اس سب کے باوجود ذمہ دار صرف اور صرف سابق کمشنر راولپنڈی کو قرار دے دیا گیا۔ منظوری دینے والے، پیسہ ریلیز کرنے والے، پی سی ون منظور کرنے والے، زمینوں کی خریداری کے لیے قیمت کا تعین کرنے والے سب کے سب کیا بیوقوف تھے یا سابق کمشنر کے جادو کے زیر اثر آگئے کہ آنکھیں بند کر کے اتنے بڑے بڑے فیصلہ کر ڈالے اور اب ذمہ داری اُس پر ڈال دی گئی جس کی کوئی اتھارٹی نہ تھی۔ چلیں مان لیا موجودہ کمشنر کی رپورٹ سچی ہے تو پھر منظوری دینے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جا رہا؟ یہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی منظوری کے بعد مبینہ کرپشن کا یہ اسکینڈل پنجاب حکومت نے پبلک کیا۔ عمران خان سے بہت کچھ چھیایا گیا۔ میں نے اس اسکینڈل کے سامنے آنے پر ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ یہ ا سکینڈل بذات خود ایک بہت بڑا اسکینڈل ہے۔ اگر وزیر اعظم کو سچ جاننا ہے تو اصل ا سکینڈل کی تحقیقات کروائیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین