• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے ان دنوں سیاست اور صحافت دونوں ’’میرامن کی کتاب ’’باغ و بہار‘‘ کا قصہ چہار درویش لگ رہی ہیں۔ہرکہانی میں کوئی اور کہانی کروٹیں لیتی نظر آتی ہے۔کھرب پتی درویش سیاست میں جلوہ گر ہیں اور ارب پتی درویش صحافت کی پہچان ہیں ۔ان کے عروج و زوال کی داستان وہی چہار درویشوں کی داستان ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بادشاہی سے درویشی تک ، یہاں لوگ درویشی سے بادشاہی تک پہنچے ۔بات سمجھانے کےلئے ضروری ہے کہ پہلے قصہ چہار درویش کو سمجھ لیں ۔

قصہ چہار درویش یعنی باغ و بہار کاسبحان اللہ، کیا اسلوب ہے۔ ایک ایک جملے میں کیا کیا کہانیاں اور دریا کی روانیاں موجود ہیں۔ باوجود کہ یہ اردو میں داستان کی پہلی اینٹ ہے انتہائی مضبوط بھی ہے اور چمکتی ہوئی۔ صدیوں زندہ رہنے والی داستان۔ کئی رنگ کی شکلیں نئی نئی سج دھج کے ساتھ۔ پڑھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ آسمان اس کہانی پر مہربان ہے۔ زمین اس کہانی کو آغوش میں لئے ہوئے ہے۔ وقت کے سمندر نےہزاروں طوفان اٹھائے مگر اس کا بال بیکا نہیں ہوسکا۔ منشا اس تحریر کا یہ ہے کہ سن ایک ہزار چارسو بیالیس برس ہجری اور سن دوہزار اکیس عیسوی سےعمران خان کے عہد میں کلاسیکی اور نوکلاسیکی تصنیفات عوام و خواص کیلئے عام کی جائیں ۔جن کی تعریف میں عقل وفہم حیران ہوں۔ جتنے وصف کسی نثریچے کو چاہئیں وہ ان میں تخلیق کار نے جمع کر دئیے ہوں۔ غرض، قسمت کی خوبی، میر امن کی جس نے باغ و بہار جیسی داستان تخلیق کی، جس کے فیض سے اردو میں ناول نگاری کا آغاز ہوا۔ مجال نہیں کوئی کسی سطر پر انگلی دھر سکے۔ وہاں مردانہ سارے کرداربرےشگون کے دائرے میں ہیں، وہی درویش ہیں جو بادشاہ یا شہزادے تھے۔ نسوانی کردار بھی شہزادیوں کے ہیں۔ نسوانی کرداروں کو جس باریکی کے ساتھ پیش کیا ہےوہ باریکی آسانی سے نہیں دیکھی جا سکتی۔ صاحبانِ ذی فہم سمجھتے ہیں کہ میر امن کے اعصاب پر عورت بری طرح سوار تھی۔ جو صاحبِ دانا ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قصہ چار درویش کوئی نئی چیز نہیں مگرمیر امن ، صاحبِ سحر، زبان خودجس کی قدردان ہے۔ اس نے جوسلیس اور سادہ اندازاختیار کیا، ایسی لکھت کاپہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ روزمرہ کی زبان لکھ دی ،اس زبان کو داستان بنادیا جو عام لوگ بولتے تھے ۔اردو نثر پہلی بار دربار کی سیڑھیوں سے اتر کر گلی کوچوں میں در آئی ۔

یہ عامی میر امن دلی والا ۔ اس کے آبا و اجداد خواص سے تعلق رکھتے تھے۔ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک بادشاہ کے ہم رکاب رہے ۔پشت بہ پشت، جاں فشانی بجا لاتے ہوئے دربار سے منسلک رہے ۔بادشاہوں نے بھی دل کھول کر قدر دانی کی ۔جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے نہال رکھا اورمالا مال رکھا ۔’’خانہ زاد موروثی، اور منصب دار قدیمی‘‘ کےلقب بادشاہی سے سرفراز رہے۔ جب ایسے گھر کی۔ وقت بدلا۔سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا۔احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کردیا۔بادشاہ کا وہ جہاز جس میں میرامن سوار تھا غارت ہو گیا۔بیچارہ بے کسی کے سمندر میں ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ملا اور عظیم آباد پہنچ گیا۔وہاں آب و دانہ کلکتے کھینچ لایا ۔ چندے بیکاری گزری۔دوسال اتالیقی کی۔ تب گلکرسٹ صاحب بہادر (دام اقبالہ) تک رسائی ہوئی۔ہیرے کو قدر دان مل گیا۔ بخت جاگ پڑا۔ زندگی آسودہ ہو گئی ۔

بارہ سو سترہ ہجری میں باغ و بہار مکمل ہوئی ۔اس بات میں ذرا بھر بھی شک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ میرامن نے داستان کا نام سن تاریخ کے مطابق رکھا تھا اور’’ باغ و بہار ‘‘کے اعداد بارہ سو سترہ بنتے ہیں۔ اس حوالے سے میرامن نے خود لکھا ہے

کرو سیر اب اس کی تم رات دن

کہ ہے نامِ تاریخ ’’ باغ و بہار ‘‘

خزاں کا نہیں اس میں آسیب کچھ

ہمیشہ تر و تازہ ہے یہ بہار

مرے خون ِ دل سے یہ سیراب ہے

اور لخت ِ جگر کے ہیں سب برگ و بار

مجھے بھول جاویں گے سب بعد مرگ

رہے گا مگر یہ سخن یادگار

میرامن نے اس داستان کے ماخذ کے متعلق لکھا ہے کہ میں نے امیر خسرو کی تحریر کردہ داستان کا ترجمہ کیا ہے مگر اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں مل سکاکہ امیر خسرو نے فارسی میں ایسی کوئی داستان لکھی تھی ۔ محمود شیرانی کے مطابق یہ قصہ پہلے فارسی میں لکھا تھااور اسے کئی لوگوں نے تحریر کیا۔وہ داستان جس کا ترجمہ میرامن نے کیا وہ میر احمدخلف شاہ محمد کی لکھی ہوئی تھی اور امیرخسرو کے نام سے منسوب تھی مگر نئی تحقیق کے مطابق یہ داستان حکیم محمد علی نے فارسی میں لکھی تھی۔ حکیم محمد علی نے اپنے دیباچہ میں لکھا ہے کہ میں نے یہ دریشوں کا قصہ ہندی زبان میں بادشاہ محمد شاہ کو سنایاتو اسے بہت پسند آیا ، بادشاہ نے مجھے حکم دیا کہ اسے فارسی زبان میں منتقل کرو۔

ہماری سیاست کے چہار درویش بھی اپنے قصے غیر ملکی زبانوں میں منتقل کراتے پھرتے ہیں ۔کوہسار مارکیٹ کی ایک ٹیبل پر یہ چاروں درویش بیٹھے ہوئے تھے اور کسی موضوع پر زور و شور سے بحث جاری تھی، میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ وہیں پر تھا۔ کوہسار مارکیٹ بڑے عرصے سے چہار درویشوں کےلئے کسی دلنواز غار سے کم نہیں۔ 2018سے پہلے یہاں پی ٹی آئی کے چہار درویش بیٹھتے تھے، ٹکٹوں کی خرید و فروخت کے معاملات پر بڑے زور و شور سے بحث ہوا کرتی تھی۔ نئے عہد کے چہار درویشوں کا موضوع اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مراسم ہے۔ سنا ہے نئے درویشوں کا باوا سات سمندر پار کہیں دھونی رامائے بیٹھا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ درویش تو سارے اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں گرنے کےلیے تیار ہیں۔ مگر باوا بھی بڑا ضدی ہے۔

تازہ ترین