کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“میں میزبان سلیم صافی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےسراج الحق نے کہا کہ افغان مسئلے کو امریکا یا کسی اور کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے۔
ہمیں اس مسئلے کو 100 فیصد افغان عوام کے مفاد اور پھر پاکستان کے مفادات کی نظر سے دیکھناچاہئے، حقیقی اپوزیشن صرف جماعت اسلامی ہے ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جب بھی حکومت کو ضرورت پڑی پی پی اور ن لیگ نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا ۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں ،امن کے لئے دعا گو ہیں۔ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان ایک پر امن اسلامی افغانستان بنے گا۔
اس لئے کہ افغان عوام نے طویل لڑائیوں کے بعد یہ سیکھا ہے کہ اب اگر ہمیں بیرونی طاقتوں سے نجات پانا ہے تواس کے لئے مل جل کررہنا سیکھنا ہے۔ہمارا جس کے ساتھ جو بھی تعلق ہے ہم ہر کسی کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مل جل کر حکومت بنانا، چلانااور اپنے ملک کو ترقی دینا۔
زمینی حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغان طالبان نے ایک طویل جدوجہد کرکے امریکا کو مجبور کیا کہ وہ افغانستان چھوڑ دے۔ خود امریکن کہتے ہیں کہ شہروں پراشرف غنی کی حکومت ہے لیکن افغانستان کے ایک بڑے حصے پرطالبان موجود ہے۔
ان کا نظام موجود ہے اور ان کے ادارے وہاں پر موجود ہیں وہ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔طالبان تو نام ہے یہ تو اصل میں افغان عوام ہے اگر افغان عوام کے اعتماداور سپورٹ جس تنظیم کو حاصل ہے ۔
اس کی حیثیت کو اگر آپ تسلیم نہیں کریں گے وہ امریکا تسلیم نہ کرے وہ پاکستان تسلیم نہ کرے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ خانہ جنگی چاہتے ہیں۔آپ وہاں پر خون ریزی چاہتے ہیں کسی لحاظ سے پاکستان کے لئے بھی دنیا کے لئے مفیدنہیں ہے ۔
جائز اور ناجائز ایک جزوی مسئلہ ہے اصل میں ایک حقیقت کو تسلیم کرنا ہے ۔ اگر آپ نے ماضی کی طرح ایک بار پھرایک ڈمی اورجعلی قسم کا نظام بنایا۔ اصل حقیقت کواور عوام کی ایک بڑی منظم فورس کوسازش کرکے دیوارسے لگایا۔تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ خود وہاں پر امن نہیں چاہتے ہیں۔
ہماراتمام افغان تنظیموں کے جتنے ذمہ داروں سے ہمارا رابطہ ہے ان کو ہماری نصیحت مشورہ یہی ہے کہ مذاکرات کروایک میز پر بیٹھ جاؤ اور آئندہ کے لئے اتفاق رائے سے ایک نظام بناؤ۔
روسیوں کے خلاف جن دو بڑی جماعتوں جمعیت اسلامی افغانستان اور حزب اسلامی نے جدوجہد کی۔ایک کے لیڈر استاد برہان الدین ربانی تھے اور دوسری جماعت حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمت یار تھے۔لیکن جب پاکستان نے ان دونوں کو دیوار سے لگایا محروم رکھا۔ ایک جعلی قسم کی حکومت بناکر کابل پر مسلط کی ۔
نجیب انتظامیہ کے خاتمے کے بعد نواز شریف نے گورنر ہاؤس پشاور میں جو میٹنگ بلائی تھی اس میں خود قاضی حسین احمد بھی موجود تھے۔یہی مشاورت ہورہی تھی کہ کیسا نظام بنایا جائے افغان لیڈر بھی سب اس میں موجود تھے۔
اچانک نواز شریف نے ایک فون سن لیا تھااور واپس آکر انہوں نے فیصلہ سنایاکہ فلاں آدمی چھ آٹھ مہینوں کے لئے افغانستان کا سربراہ ہوگااس کے بعد آپ لوگوں کی اپنی مرضی ہوگی۔ہمیں افغان مسئلے کو امریکا یا کسی اور کے عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔ ہمیں اس مسئلے کو 100 فیصد افغان عوام کے مفاد اور پھر پاکستان کے مفادات کی نظر سے دیکھناچاہئے ۔
ان آخری لمحوں میں قطر مذاکرات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ کوئی اور کھیل شروع کیا جائے اور خانہ جنگی کے لئے ماحول بنایا جائے۔وہاں حقیقی حکمرانی اب افغان عوام کی ہے وہاں امریکا یا پاکستان یا روس یا کسی اور حکومت کا یہ کام نہیں کہ ان پر کوئی چیز مسلط کرے ،ہم نے مسلط کیا وہ ناکام ہوگا۔
اس وقت وہاں جنگ کا ماحول ہے پہلے وہاں امن قائم کرنے دیں پھر وہاں کہ لوگوں کو وہاں بیٹھنے دیں وہ خود اپنا ایک نظام بنائیں گے۔پاکستان کا حشر دیکھ کر وہ جمہوریت سے گھبرا گئے ہیں، اس جمہوریت سے تو لوگ یہاں بھی بیزار ہورہے ہیں۔
میرا یقین ہے کہ جب وہاں امن ہوجائے گا تو جو دس پندرہ لاکھ افغان یہاں ہیں وہ عزت کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ انہوں نے ہجرت طالبان کی وجہ سے نہیں روسیوں اور نیٹو افواج کی آمد کی وجہ سے کی تھی۔
جماعت اسلامی نے تو سب سے زیادہ مظاہرے ،کنونشن ، پروگرام افغانوں کے لئے کئے ہیں۔یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے کہ امریکا اور 46 ممالک کا ایک اتحادیہ شکست سے دوچار ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حقیقی اپوزیشن اس وقت جماعت اسلامی ہے ۔ماضی میں دیکھ کر جس کو آپ اپوزیشن کہتے ہیں انہوں نے پی ٹی آئی کو زبردست سپورٹ کیا۔
FATF پر آنکھیں بند کرکے باجماعت ان کا ساتھ دیاہمارے بارے میں تبصرہ دیا کہ ان کو قومی مفادات عزیز نہیں ہیں۔جبکہ ہم FATF قوانین کو قوم و ملک کے لئے ایک زہر قاتل سمجھتے تھے۔میں نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دیکھا ہے جب بھی ان کو ضرورت پڑی ہے ۔
ہمیشہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ان کا ساتھ دیا ہے یہ ایک کردار کے تین نام ہیں۔پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ اور پی ٹی آئی یہ جاگیرداروں ، سرمایہ داروں کاایک کلب ہے ۔ان کا خارجہ پالیسی،تعلیمی پالیسی، کشمیر پالیسی، داخلہ پالیسی ، زرعی پالیسی پر اختلاف نہیں ہے۔ ان کا اختلاف صرف نیب کے چند کیسوں اور کچھ اپنے مفادات پرہے۔
ہمارا اختلاف اسٹیٹس کو اور اس نظام کے خلاف ہے ۔یہ تو سب لوگ کہتے ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں تھے ۔مجھے اگر کسی پالیسی سے اختلاف ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں ضلع چھوڑوں، صوبہ چھوڑوں، ملک چھوڑوں، اسمبلی چھوڑوں۔ اسی اسمبلی میں جاکر سینیٹ میں جاکر ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہمیشہ موقع ملا ہے مگر انہوں نے اس اسٹیٹس کو کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔
ایم ایم اے کی حکومت مرکز میں نہیں تھی صوبے میں حکومت تھی یہاں پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ میں نے جب وزارت سے استعفیٰ دیاادھر عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تو ہم اس میں جیل میں گئے۔
اس وقت پرویز مشرف نے وعدہ کیا تھااپنے کالر کو ہاتھ لگا کرٹیلی ویژن پر کروڑوں عوام نے دیکھا تھاکہ فلاں تاریخ کومیں یہ وردی اتاروں گااس وعدے کی بنیاد پر 17 ویں ترمیم کا ساتھ دیا گیا۔اس الیکشن کے بعدہم نے مولانا فضل الرحمن سے یہ درخواست کی کہ آپ زرداری اور نواز شریف کو چھوڑ دیں ۔
ہمارے پاس جو لوگ آتے ہیں وہ اسلامی نظام کی طلب میں آتے ہیں اگر آپ ان ہی کا حصہ بنتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہمارا دینی مزاج رکھنے والا نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والا ووٹر کنفیوژ ہوجاتا ہے ۔ مگر ان کایہی خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ مجھے امام بناتا ہے تو پھر آپ کو کیا شکایت ہے اسی لئے ہم نے ان سے علیحدگی اختیار کی۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ چاہتی ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام ہی حکومت کا احتساب کرے۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کشمیر کے لئے ایک لائحہ عمل اختیار کریں۔