’’مَیں نے اپنی والدہ کی جدوجہد سے بھرپور زندگی سے یہ سبق سیکھا کہ تعلیم ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔جب بے حد قریبی لوگ بھی ساتھ چھوڑ جائیں، تو اس کٹھن مرحلے پر تعلیم اور ہنر ہی ہمارا ساتھ دیتے ہیں‘‘۔اپنی والدہ کو رول ماڈل بنا کر شادی کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے والی، زینب صدیق نے بی اے میں 800 میں سے605 نمبرز لے کر یونی ورسٹی آف گجرات میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ دو بچّوں کی ماں ہیں۔
زینب صدیق کا تعلق اسلام آباد کے ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔والدین درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔2013ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور نتیجہ آنے سے پہلے ہی گجرات کے صحافی، عزیز الرحمان سے شادی کر دی گئی اور بیاہ کر کھاریاں کے قریب واقع گاوں، گلیانہ آ گئیں۔ پیا گھر میں پہلا قدم رکھتے وقت بھی مزید تعلیم حاصل کرنے کا سپنا اپنی پلکوں پر سجا رکھا تھا۔
وہ کہتی ہیں’’مَیں نے اِس عزم و ارادے کے ساتھ شادی کی کہ آگے پڑھنا ہے اور اسے حصولِ تعلیم میں رکاوٹ نہیں بننے دینا۔پہلے پرائیویٹ ایف اے اور بی اے کرنے کا سوچا، لیکن پھر خیال آیا کہ اِس طرح تو مَیں صرف ڈگری ہی حاصل کر پاؤں گی۔حقیقت یہ ہے کہ کسی تعلیمی ادارے میں جاکر پڑھنے ہی سے طالبِ علم کو شعورِ ذات اور آدابِ زندگی سے آگاہی حاصل ہوتی ہے‘‘۔
زینب کی خوش قسمتی رہی کہ شادی سے دو برس پہلے سُسرالی گاوں میں خواتین کا کالج قائم ہو چُکا تھا، اِس لیے ریگولر اسٹوڈنٹ کے طور پر پڑھنے کے لیے گاؤں سے باہر جانے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اصل مسئلہ گھر کے کام کاج سے وقت نکالنا، عزیز و اقارب اور آس پڑوس کی جانب سے طنزیہ باتوں کو برداشت کرنا تھا۔جب کالج جانے کا خیال آیا، اُس وقت تک وہ دو بچّوں کی ماں بن چُکی تھیں۔پڑھائی کے ساتھ بچّوں کو سنبھالنا ایک الگ مسئلہ تھا۔اِس موقعے پر زینب کی والدہ، سُسر، شوہر اور مقامی کالج کی پرنسپل نے اُن کا بہت حوصلہ بڑھایا۔ اُنہوں نے بتایا،’’شوہر عزیزالرحمان تو اوّل روز ہی سے میری پڑھائی کے حق میں تھے۔
جب والدہ اور اپنے سسر، اسلم بھٹّی صاحب سے بات کی، تو دونوں بھی بہت خوش ہوئے۔ میری والدہ فرّخ جبیں خود بھی معلمہ ہیں اور اسلام آباد کے ایک مقامی سرکاری مِڈل اسکول میںپڑھاتی ہیں، جب کہ سُسر بھی ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے۔اِس لیے دونوں ہی نے اپنے تعاون کا بھرپور یقین دِلایا۔کالج پرنسپل، میڈم طیّبہ حمید بھی اِس حق میں تھیں کہ مجھے کالج میں باقاعدہ داخلہ لے کر پڑھنا چاہیے۔لہٰذا، مَیں نے2016 ء میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لے لیا۔اُس وقت میری بیٹی، امامہ ڈھائی برس کی اور بیٹا محمّد احمد صرف چھے ماہ کا تھا‘‘۔ زینب نے جب کالج جانا شروع کیا، تو اُنہیں اپنا بچپن یاد آنے لگا۔اُن کی والدہ نے بھی اپنی شادی کے بعد ہی بی اے، بی ایڈ کیا تھا۔
جب وہ بی ایڈ کی ورکشاپس اٹینڈ کرنے جاتیں، تو ننّھی زینب کو اُس کی نانی کے پاس چھوڑ جاتیں۔اِسی طرح وہ بھی کالج جاتے وقت دونوں بچّوں کو اُن کے دادا، دادی کے پاس چھوڑ جاتیں۔ کہتی ہیں’’ سچّی بات تو یہ ہے کہ کالج میں داخلہ لینے کے بعد زندگی گھن چکر بن کر رہ گئی تھی۔ کالج جانے سے پہلے گھر والوں کو ناشتا کرواتی، برتن دھوتی، یونی فارم پہنے پہنے جھاڑو دیتی اور پھر بھاگتے دوڑتے کالج پہنچ جاتی۔
میرا یونی فارم اکثر گردآلود ہی ہوتا۔پڑھنے کے لیے وقت کالج میں ملتا یا پھر رات کو کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر کتابیں دیکھ لیتی، لیکن اِس بھاگ دوڑ کے باوجود مَیں نے فرسٹ ائیر میں اپنے کالج میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔سیکنڈ ائیر شروع ہوتے ہی میرے سُسر بیمار ہو گئے، تو دیگر مصروفیات کے ساتھ اُن کی دیکھ بھال بھی میری ذمّے داریوں میں شامل ہوگئی، جس کے باعث باقاعدگی سے کالج جانا مشکل ہو گیا۔کئی بار خیال آیا کہ پڑھ لکھ کر کون سا تیر مار لوں گی۔
خواہ مخواہ زندگی مشکل میں ڈال رکھی ہے، بس اب پڑھائی چھوڑ دینی چاہیے، لیکن اِس موقعے پر پرنسپل اور ٹیچرز نے بہت تعاون کیا۔مجھے گھر ہی پر نوٹس مہیا کر دئیے جاتے۔یوں گرتے پڑتے منزل کی طرف بڑھنے کی جستجو جاری رکھی۔جب سیکنڈ ائیر کا رزلٹ آیا، تو ایک بار پھر کالج میں ٹاپ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔‘‘
زینب نے جب بی اے میں داخلہ لیا، تب اُن کے مشفق اور مہربان سُسر انتقال کر چُکے تھے۔ تو بچّوں کی دیکھ بھال کی ذمّے داری شوہر، عزیز الرحمان نے سنبھالی اور اپنے دفتر میں ایک کمرا بچّوں کے لیے مخصوص کر دیا۔بیگم کو کالج چھوڑنے کے بعد بچّوں کو اپنے ساتھ دفتر لے جاتے۔ اُنھیں کِھلاتے پلاتے، اُن کے پیمپرز تبدیل کرتے۔ زینب فورتھ ائیر میں تھیں، جب اُن کے دونوں بچّوں نے بھی اسکول جانا شروع کردیا۔
اِس ضمن میں اُنھوں نے بتایا’’وہ منظر بے حد خُوب صُورت ہوتا، جب ہم چاروں صبح سویرے گھر سے تیار ہو کر نکلتے۔بچّے’’ممّا خداحافظ ‘‘کہتے ہوئے مجھے کالج ڈراپ کرتے اور پھر پاپا کے ساتھ اپنے اسکول چلے جاتے۔واپسی پر مجھے کالج سے لیتے۔اس موقعے پر میری کلاس فیلوز کے چہروں پر پھیلی خوش گوار حیرت دیدنی ہوتی۔‘‘زینب تھرڈ ائیر میں تھیں، جب ایک روز کالج پرنسپل اُن کی کلاس میں آئیں اور دَورانِ گفتگو طالبات سے پوچھا کہ’’ کون سی طالبہ بی اے میں یونی ورسٹی میں ٹاپ کرنا چاہتی ہے؟‘‘
جواب میں پچھلی نشستوں پر بیٹھی زینب نے اپنا دایاں ہاتھ کھڑا دیا۔پوری کلاس نے گھوم کر اُن کی طرف دیکھا۔ کلاس فیلوز کی تمسخرانہ نگاہیں زینب کو اب تک یاد ہیں، لیکن یہی وہ خواب تھا، جس نے اُنھیں انتہائی کٹھن حالات میں بھی ٹوٹنے اور بکھرنے نہیں دیا۔وہ بتاتی ہیں’’ سُسر کے انتقال کے بعد ہمارے خانگی مسائل بڑھ چُکے تھے۔لوگوں کی فضول باتیں الگ پریشان کرتیں۔کئی بار سوچا کہ ایف اے ہوگیا، کالج میں ٹاپ بھی کر لیا، اب بس کر دوں،لیکن یونی ورسٹی میں ٹاپ کرنے کا خواب پڑھائی چھوڑنے نہیں دیتا تھا۔‘‘
مارچ 2020 ء میں ہونے والا بی اے کا امتحان لاک ڈاون کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا۔ یونی ورسٹی آف گجرات نے اکتوبر 2020 ء میں امتحان لیا، جس کے نتیجے کا اعلان 4 مئی 2021 ء کو کیا گیا۔اپنے گھر اور بچّوں میں مگن زینب صدیق تب تک اپنا رول نمبر بھی بھول چُکی تھیں۔امتحانی نتیجے سے متعلق اُنھوں نے یوں بتایا’’اُس روز دوپہر کے وقت عزیز الرحمان باہر سے آئے اور کمپیوٹر آن کرتے ہوئے مجھ سے میرا رول نمبر پوچھا۔وہ یونی ورسٹی کی ویب سائٹ پر میرا رزلٹ تلاش کر رہے تھے اور مَیں اپنا رول نمبر ڈھونڈ رہی تھی۔
اِتنے میں اُنہیں فون پر کالج سے میری کام یابی کی خبر دی گئی۔بیٹے نے میرے کان میں سرگوشی کی’’ ممّا! پاپا کہہ رہے ہیں کہ آپ یونی ورسٹی میں اوّل آئی ہیں۔‘‘مجھے لگا، جیسے میاں مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔مَیں نے اُن سے کچھ پوچھنے کی بجائے کالج پرنسپل کو کال کی، تو اُن کی چہکتی آواز سنائی دی۔ بولیں،’’بیٹا! ہم لوگ روزہ رکھ کر آپ سے جھوٹ کیوں بولیں گے۔‘‘ میڈم کی زبانی اپنی کام یابی کی خبر سُن کر اِتنی جذباتی ہو گئی کہ مجھ سے مزید کوئی بات ہی نہ ہوسکی اور مَیں نے فون بند کردیا۔میرا چہرہ آنسووں سے بھیگا ہوا تھا۔کچھ دیر بعد جب طبیعت سنبھلی، تو سب سے پہلے اپنی والدہ کو یہ خوش خبری سنائی اور پھر پرنسپل کو فون کر کے اُن کا شُکریہ ادا کیا۔اِس موقعے پر مجھے اپنے سُسر بہت یاد آئے۔اگر وہ زندہ ہوتے، تو خوشی سے پھولے نہ سماتے۔‘‘
زینب کو بچپن ہی سے مطالعے کا شوق ہے۔اپنے خواب کی تعبیر پانے میں اُن کا یہ شوق ممد و معاون ثابت ہوا۔وہ کہتی ہیں’’بچپن میں ہماری والدہ ہم بہن، بھائیوں کو کھلونوں کی بجائے کتابیں خرید کر دیتی تھیں۔اُن کے پاس لکڑی کی ایک صندوقچی تھی، جس میں نونہال، تعلیم و تربیت اور پھول جیسے بچّوں کے رسالے موجود ہوتے۔وہ صندوقچی ہمارے لیے کسی خزانے سے کم نہ تھی۔جب بڑے ہوئے تو محدود مالی وسائل کی وجہ سے منہگی کتابیں خریدنی مشکل ہو گئیں۔تب ہم نے راول پنڈی، اسلام آباد کی اولڈ بُک شاپس جانا شروع کر دیا۔والدہ سے منتقل ہونے والے مطالعے کے شوق نے پڑھائی میں میری بہت مدد کی۔‘‘
زینب صدیق کو نفسیات کے مضمون سے خاص لگاؤ ہے۔ایف اے اور بی اے میں بھی اُن کا میجر سبجیکٹ یہی تھا۔وہ اِسی مضمون میں ایم اے اور ڈاکٹریٹ کرنے کی خواہاں ہیں۔اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے’’ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے بہت گھٹن پائی جاتی ہے۔گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی خواتین کی بات سُننے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔اکثر خواتین اِس گھٹن کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں۔میری خواہش ہے کہ مَیں سائیکالوجسٹ بن کر ان پریشان حال خواتین کی خدمت کر سکوں۔‘‘
آخر میں اُنھوں نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا ’’ مَردوں کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ اگر آپ کے گھرانے کی خواتین میں کوئی ٹیلنٹ موجود ہے، تو اپنی اَنا کو آڑے نہ آنے دیں، بلکہ اُن کی ہمّت بڑھائیں تاکہ وہ کوئی نمایاں مقام حاصل کر سکیں۔دوسری طرف خواتین کو اپنی چُھپی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہیے۔ اگر پڑھ لکھ نہیں سکتیں، تو کوئی ہنر تو ضرور سیکھ سکتی ہیں۔آج کل فری لانسنگ نے بہت سے کام آسان کر دیے ہیں۔
خواتین گھر بیٹھ کر فروزن فوڈ آئٹمز کی تیاری، سلائی کڑھائی یا بیوٹیشن کا کام بخوبی کر سکتی ہیں۔‘‘یاد رہے،یونی ورسٹی آف گجرات کے پہلے وائس چانسلر، ڈاکٹر نظام الدّین اور پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے سی ای او، رائے منظور ناصر نے زینب صدیق کی اس شان دار کام یابی پر اُنہیں مبارک باد دیتے ہوئے مزید تعلیم کے حصول میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔
مزید تعلیم کی بھی حوصلہ افزائی کروں گا، شوہر عزیز الرحمان
زینب صدیق کے شوہر، عزیز الرحمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مَیں سب سے پہلے اپنے کریم ربّ کا شُکرگزار ہوں، جس نے ہمیں یہ عزّت بخشی۔ علاوہ ازیں، یہ زینب کی لگن اور آگے بڑھتے رہنے کا عزم تھا ،جس نےاُنہیں اِس شان دار کام یابی سے ہم کنار کیا۔ وہ نہ صرف ایک اچھی بیوی، اچھی بہو اور اچھی ماں ہیں، بلکہ ایک اچھی طالبہ بھی ہیں، جنہوں نے بے پناہ گھریلو مصروفیات کے باوجود اپنی تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ اُنہوں نے ثابت کیا کہ اگر عورت زندگی کے سفر میں آگے بڑھنا چاہے، تو شادی اور بچّے اُس کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بنتے۔
بس ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حوصلہ افزائی کے ساتھ اُسے سازگار ماحول فراہم کیا جائے اور اُس کی کام یابیوں کی راہ میں اپنی اَنا حائل نہ ہونے دی جائے۔ زینب مزید پڑھنا چاہتی ہیں اور مَیں اپنے محدود وسائل کے باوجود اُن کے ساتھ کھڑا ہوں۔مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ میرے بچّوں کی ماں ایک پڑھی لکھی ماں ہے، جس کی وجہ سے اُن کا مستقبل محفوظ ہے۔ہمارے والدِ محترم نے، جو خود ماہرِ تعلیم تھے، زینب کی حصولِ تعلیم کے لیے تڑپ دیکھ کر اُنہیں کالج میں داخل کروانے کی ہدایت کی۔
مَیں نے اہلیہ کو کالج میں داخل ہی نہیں کروایا، بلکہ ہر قدم پر عملی تعاون بھی فراہم کیا۔روزگار کے معاملات دیکھنے کے ساتھ بچّوں کو بھی سنبھالا۔اِس دَوران لوگوں کے طعنے تشنے اور کڑوی کسیلی باتیں بھی سُنیں، لیکن اُن کے ساتھ جم کر کھڑا رہا۔اہلیہ ، بچّوں کے یونی فارم پریس کرنا، بچّوں کے پیمپرز تبدیل کرنا، دودھ بنا کر دینا اور برتن دھونے جیسے کاموں کو کبھی معیوب نہیں سمجھا۔ زینب نے سائیکالوجی میں گریجویشن کی ہے، تو میری خواہش ہے کہ وہ اِسی مضمون میں پی ایچ ڈی بھی کرے۔‘‘