ہماری شادی کو ابھی بمشکل ایک سال ہی ہوا تھا اور ہمارا بڑا بیٹا ابھی دو مہینے کا تھا کہ میرا چھوٹا دیور یعنی عباس حیدر زیدی، جسے گھر والے پیار سے بابو پکارتے تھے، اپنی ملازمت کی ٹریننگ کے سلسلے میں ہمارے پاس کراچی آگیا۔ اپنی ٹریننگ کے سلسلے میں ہفتے کے چھ دن تو وہ بھی مصروف رہتا اور ہم لوگ بھی اپنی اخباری مصروفیات میں جی جان سے جتے رہتے، لیکن ہفتے کی شام سے لے کر پیر کی صبح ہونے تک یہ سارا وقت ہم ایک ساتھ گزارتے اور آپ حیران ہوں گے کہ یہ سارا وقت ہم لوگ رمی یعنی تاش کا ایک کھیل، کھیلتے ہوئے گزارتے۔ ہماری اس محفل میں مختلف وقفوں سے کچھ دوسرے لوگ بھی شامل ہو جاتے۔ جن میں غازی صلاح الدین، کارٹونسٹ آئی ایچ زیدی (میرے بڑے دیور) غازی کے دوست مظہر حبیب رضوی، جنہیں سب بیٹا مظہر یا ناچیز کہہ کر بلاتے، بیٹا مظہر کا لقب میرے سسر کا عطا کردہ تھا، وہ جب کراچی آتے تو بے تکلف ہماری محفل کا حصہ بن جاتے اور ناچیز کا لقب خود مظہر کی کسی گفتگو سے اٹھایا گیا تھا۔
رمی کا حساب کتاب ایک ڈائری میں لکھا جاتا تھا، جس کی بعد میں ایک پیسہ پوائنٹ کے حساب سے ادائیگی ہوتی تھی۔ اس کھیل میں بچپن میں اپنے والد سے رمی کی ٹریننگ لینے کے باوجود، کھیل میں سب سے کمزور تھی اور بے تحاشا ہارتی تھی۔ اپنی ہار کو برابر کرنے کا میرے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ وقفے سے چائے کی طلب سے بے حال لوگوں کو فی پیالی سو پوائنٹ کے حساب سے فروخت کرتی تھی۔کیا اچھے دن تھے کسی بات کی پروا تھی نہ فکر۔ عباس نے زندگی میں بڑے اچھے اور خوشگوار دن گزارے مگر ٹریننگ کے اس سال کو ہمیشہ وہ ایک پکنک سے عبارت کرتا تھا لیکن پکنک کا یہ موسم ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر سے آگیا تھا۔ عباس کی جب شادی ہو گئی تو کچھ عرصے تک تو اس کی بیوی زہرہ نے چلتے پھرتے اور دور دور سے ہمارے اس شوق کودیکھا لیکن کھیل سے ناواقف ہونے اور کچھ اس خیال سے کہ شاید یہ مشغلہ عورتوں کا نہیں۔ کچھ لئے دیئے رہی لیکن پھر جلد ہی ہمارے گروپ کا حصہ بن گئی۔ اس گروپ میں اب میری ایک نند امتہ الزہرا جو کراچی میں ہمارے ہی ساتھ رہتی تھی، وہ بھی جی جان سے شریک ہوگئی لیکن یہ محفل اب صرف اسی وقت جمتی تھی جب عباس اور زہرہ موجود ہوتے تھے لیکن ان کی بیرون ملک پوسٹنگ سے یہ مواقع بہت کم ہوگئے تھے پھربھی جو موقع جب بھی میسر آتا، ہم لوگ باقی ساری دنیا کوبھول جاتے اور اماں (ساس) سے خوب ڈانٹ کھاتے کیونکہ انہیں ہماری مصروفیت سے زیادہ ابا (سسر) کے انہماک پر غصہ آتا تھا جو دنیا کے سارے کام بھول کر ہماری چوکڑی کا حصہ بن جاتے تھے۔
وقت نے کروٹ لی۔ نہ وہ ڈانٹنے والے بزرگ رہے اور نہ بچوں میں بچہ بن جانے والے باقی رہے لیکن ہمارے بچے بڑے ہوگئے اور جب موقع ملتا اور فرصت ہوتی وہ بھی اس شوق کا حصہ بن جاتے اور خوب خوب لڑائیاں ہوتیں اور اس کھیل میں جب تک لڑائی نہ ہو مزا ہی نہیں آتا۔
کئی ملکوں میں سفارت کاری اور طویل فارن سروس کے بعد عباس نے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد کو اپنا مسکن بنایا۔ تو اصلی پکنک ایک بار پھر شروع ہوئی۔ ہمیں جب اسلام آباد جانا ہوتا تو دوسرے بہن بھائیوں سے ملاقات صرف دن تک محدود رہتی، شامیں اور راتیں ہماری اپنی ہوتی تھیں بلکہ زہرہ کا بس چلتا تو وہ دن کو بھی ہمارا گھر سے نکلنا بند کروا دیتی۔ شوق کا یہ عالم تھا۔ اسی طرح جب کچھ دن زیادہ گزر جاتے تو ہم انہیں کراچی کا بلاوا اور مختلف لالچ دے دے کر بلاتے، سب جانتے تھے کہ یہ سب بہانے ہیں، اصل مقصد وہی ہے کیونکہ جیسے ہی ہم چاروں اکٹھے ہوتے، لاہور سے میری نند کا فون آجاتا۔ ”اچھا تو محفل جم گئی ہے“ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں اب کسی اور تفریح یا کمپنی کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہم چاروں اس کھیل میں اور ایک دوسرے کی محبت میں بہت خوش رہتے تھے۔ زہرہ نے سچ ہی کہا تھا کہ ہماری چاروں کی دوستی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔
عباس کو تو واقعی نظر لگ گئی تھی۔ اتنا خوش مزاج، اتنا طرح دار اور اتنا دوست نواز۔ عباس نے زندگی میں بہت دوست بنائے، لوگ اسے بہت عزیزرکھتے تھے لیکن میں سمجھتی ہوں ایک دیور اور بھابھی کے بیچ دوستی کا جو یہ رشتہ تھا وہ شاید ہی آپ کو کہیں نظر آئے۔ مجھے تو کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ میرا ماں جایا نہیں۔ پتہ نہیں لوگ سسرالی رشتوں کو کیوں الگ سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جہاں دوستی نہ ہو وہاں کوئی رشتہ بھی نہیں ہوتا اور یہ بھی سچ ہے کہ دوستی کے ساتھ اگر احترام شامل نہ ہو تو کوئی رشتہ پائیدار نہیں ہوتا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ دونوں چیزیں وافر مقدارمیں ملی ہیں پھر بھی عباس کی جگہ شاید کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔
مجھے اپنی نندوں یعنی عباس کی بہنوں کے غم کا بہت احساس ہے، جس نے اپنا کلیجہ ٹکڑے ہوتے دیکھا ہو، (میر ے ایک سگے بھائی عین اپنی جوانی میں ہمیں چھوڑ گئے تھے، وہ غم ابھی تک تازہ ہے) وہ اس دکھ کی شدت کا احساس کر سکتا ہے، بھائی تو بھائیوں کا بھی مان ہوتے ہیں، اپنے میاں اور دوسرے دیور کی کھوئی کھوئی اور اجڑی اجڑی صورتیں، دل ہولاتی ہیں، عباس کی بیٹی اور بیٹے کو تسلی اور دلاسا دینا۔ شاید دنیا کا مشکل ترین کام ہے، لیکن میرا دھیان تو مستقل اس نیک بخت میں اٹکا ہوا ہے وہ جو صرف ایک بیوی اور زندگی بھر کی ساتھی ہی نہیں، صحیح معنوں میں ایک ساتھی اور دوست تھی۔ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کیسے کاٹے گی۔ مانا کے یہ زندگی کا دستور ہے ہر کسی کو جانا ہے اور کوئی ہمیشہ ساتھ نہیں رہتا، کسی ایک کو پہلے اور دوسرے کو بعد میں جانا ہوتا ہے لیکن یہ سب کہنا بہت آسان ہے جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے۔
میں تو صرف عباس کی بھاوج ، بہن اور دوست تھی، جب مجھے دنیا اتنی خالی خالی لگنے لگی تو جس کا کوئی لمحہ عباس کے بغیر، اس کی سوچ کے بغیر نہیں گزرتا تھا، وہ زہرہ اب کس مدار میں گھومے گی۔ بس ایک ہی دعا ہے کہ خدا اسے ہمت اور حوصلہ دے۔ یہ زندگی بڑی ہی کٹھن اور آزمائش بھری ہے۔ یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتی ہوں کہ عباس اب دوسری دنیا میں آرام سے ہو گا۔ اس دنیا میں بیماری نے اسے آخری دنوں میں بہت تنگ کیا تھا حالانکہ جتنا میں جانتی ہوں، اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کا برا نہیں چاہا لیکن اوپر والے کے فیصلے اوپر والا جانے، ہم سوال کرنے والے کون؟؟؟
عباس زیدی کے پروفیشنل دوستوں اور ساتھیوں نے اس کے بارے میں بڑے ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن سے محفلوں میں جان پڑ جاتی ہے اور جو اپنے ذاتی اور گھریلو سرکل میں ایک مرکزی اور باغ و بہار شخصیت کے طور پر ہی تصور کئے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے جانے سے چمن ویران اور زندگی اداسی کا رنگ اختیار کر لیتی ہے، خدا اسے اگلے جہاں میں بھی ویسی ہی پربہار زندگی عطا کرے (آمین)