• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریباً پوری دنیا گھومنے کے بعد اپنے تاثرات ضرور قلم بند کرنا چاہوں گا ۔ ہر ملک میں مختلف لوگوں سے ملنے کے بعد اب یہ بہت مشکل ہے کہ کس کو میں بہتر لکھوں ۔ 1967ء سے جب میں نے یہ سفر شروع کیا تھا تو دنیا بالکل مختلف تھی ۔ آج 2013ء میں تو دنیا کا نقشہ بھی تبدیل ہو چکا ہے ۔ کہاں ہمارا پاسپورٹ پوری دنیا میں چلتا تھا اور آج ہم کو ویزہ ملنا بھی دشوار ہو چکا ہے ۔ میں نے 1970ء میں پہلا گلوبل ٹور (World Tour) کیا تھا جب کراچی سے ہانگ کانگ ، جاپان، امریکہ ، یورپ، مڈل ایسٹ کا ٹکٹ صرف 14ہزار ہانک کانگ ڈالر کا تھا( جو 10ہزار پاکستانی روپوں کے برابر ہوتے تھے )۔ آج اگر آپ کوئی ٹکٹ خریدیں تو اتنے روپے بلکہ اس سے دگنے روپے ٹیکسوں میں خرچ ہو جائیں گے ۔ ٹکٹ کم از کم 4سے 5لاکھ روپے میں پڑے گا۔
وہ زمانہ تو اب خواب میں آ سکے گا۔ کمیونسٹ اور سوشلسٹ ممالک کے عوام آج آزادی سے پوری دنیا میں گھوم سکتے ہیں جبکہ ہم جیسے آزاد ممالک کے عوام کیلئے ویزہ نا ممکن نہیں بہت مشکل ضرور ہے ۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد اور 9/11کے واقعے کے بعد پوری دنیا کی سوچ اور جغرافیہ تبدیل ہو چکا ہے ۔ خصوصاً ہم دیگر قوموں کے عوام اور مسلمان عملی طور پر ترازو کے دو پلڑوں میں نظر آتے ہیں ۔ کل تک مسلمان بے ضرر، مہذب شہری نہ صرف مانے جاتے تھے بلکہ عملی طور پر قابل ِ قدر ہوتے تھے مگر آج دہشت گرد ، غیر مہذب سمجھے جاتے ہیں ۔ باوجود اس مسلمہ حقیقت کے کہ9/11میں پاکستان کا ایک باشندہ بھی ملوث نہیں ہوا ہے۔ افغانستان کی جنگ میں بھی کوئی ایک پاکستانی حتمی طور پر ملوث ثابت نہیں ہو سکا مگر پاکستان میں یورپی ممالک ، تجارتی افراد کو آنے کیلئے یورپین انشورنس دستیاب نہیں ہے گویا پاکستان دہشت گرد ملک ہے ۔ اس سے زیادہ کرائم تو خود امریکہ کی ایک ایک ریاست میں ہوتے رہتے ہیں اور یہی مغربی ممالک کے تاجر نیویارک جانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں مگر وہ ملک دہشت گرد نہیں سمجھا جاتا جہاں ہر سال 14سے16ہزار قتل ہوتے ہیں، ہزاروں ڈکیتیاں ہوتی ہیں اور لاکھوں خواتین کی عصمتیں دن دہاڑے لوٹی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ملک پاکستان کے اعداد و شمار میں 2 ڈھائی ہزار قتل پورے ملک میں ہوتے ہیں۔ ڈکیتیاں اور خواتین کی عصمتیں لوٹنے کا تناسب امریکہ کے مقابلے میں 10فیصد بھی نہیں ہے مگر پھر بھی ہم اتنے بدنام ہیں۔ بھارت کے پروپیگنڈہ پر جہاں ہم سے بڑھ کر غربت اور کرائم موجود ہیں اس کو جمہوریت کے نام پر بخش دیا جاتا ہے ۔ اس لئے ہم کو پوری دنیا کے سامنے غیر جمہوری ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ باوجود اس حقیقت کے خواہ جمہوری ممالک ہوں بھارت اور یورپ حکومتیں کیوں نہ ہوں انہوں نے ہمارے آمر حکمرانوں سے خود غیر جمہوری مراعات حاصل کیں ۔ ہمارے ملک سے اپنے دشمنوں پر حملے کئے ۔ ہمیں بغیر بتائے اور بغیر قانونی تقاضے پورے کئے اپنے دشمنوں کو راتوں رات اپنے جہازوں میں لے کر اپنے ملک چلے گئے اور مقدمات چلا کر انہیں سزائیں بھی دے دیں ۔ کسی بھی ہیومن رائٹ تنظیم نے اس پر نہ احتجاج کیا اور نہ ہی اس سزائے موت پر جلوس نکالے گئے ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہمارے آمر حکمران تھے، ان کے ادوار ان کو پسند ہیں مگر بظاہر وہ اس دور کے حکمرانوں کو خود نوازتے رہے ہیں اور جمہوریت کے لئے ڈراتے بھی رہے ہیں۔ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک آپ بڑوں کی ہاں میں ہاں ملائیں گے تو آپ ہی ان کے نمائندے ہیں اور جس دن آپ نے آنکھ دکھائی تو آپ کا انجام شاید خود آپ کو بھی نہیں معلوم کہ کیا ہو گا۔ ہمارے عوام ہمیشہ حکمرانوں کے سامنے خاموش رہتے ہیں ۔ سڑکوں پر آنا بھی اب آؤٹ آف فیشن ہو چکا ہے ۔ مہنگائی بھی اتنی بڑھ چکی ہے کہ روزمرہ اخراجات کے سامنے ڈیلی ویجز کے ملازمین اور ٹھیلے لگانے والے افراد حکومت کے سامنے مظاہرہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے البتہ وہ دل سے تو برا مانتے ہیں۔ آپس میں حکومت کے خلاف بولتے ہیں مگر اس سے آگے کر گزرنے کی ہمت نہیں کرتے ۔ وہ ویسے بھی سیاست دانوں کی ہڑتال کی اپیل سے خوش نہیں ہوتے مگر دکاندار اپنی دکانیں، صنعت کار اپنی فیکٹریاں ، تاجر اپنے دفاتر صرف اور صرف اس لئے بند کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کی دکانیں ، فیکٹریاں اور دفاتر کھولنے کی صورت میں اگر ہجوم نے شیشے توڑنے کی یا فیکٹری کو آگ لگانے کی کوشش کی تو حکومت کی طرف سے کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی جاتی اور بصورت ِ دیگر ان کی دکانیں ، دفتر اور فیکٹریاں غیر محفوظ ہو کر رہ جائیں گی، بھلا اتنا بڑا رسک کون لے گا ۔ سیاستدانوں پر الزام ہے کہ وہ کرپٹ ہوتے ہیں ۔ جمہوریت کے نام پر اپنی لیڈری چمکاتے ہیں مجھے اس سے اختلاف ہرگز نہیں ہے مگر اس ملک میں اگر جمہوریت کو پنپنے دیا جاتا تو آج یہ بگڑ کر سنبھل گئی ہوتی۔ صدر ایوب خان نے اقتدارغیر جمہوری طریقے سے حاصل کیا تھا مگر وہ اسے سیاست دانوں کے حوالے کر کے اپنی اس غلطی کا ازالہ کر سکتے تھے جس کی وجہ سے اس زمانے میں مشرقی پاکستان کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن نے بھرپور فائدہ اُٹھایا ۔ ان پر اگرتلہ سازش کا مقدمہ تھا خود مجیب الرحمن بھی معمولی سیاسی کردار رکھتے تھے مگر ان کی طویل اسیری نے ان کو بہت ہی بڑے سیاسی لیڈر کے طور پر اُبھار دیا ۔ جس کی آڑ میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کے سامنے ایسا ڈرامہ رچایا جو سقوط ِ ڈھاکہ پر ختم ہوا اور ہمارا پیارا ملک پاکستان دو لخت ہو گیا جس کا جتنا ماتم اور افسوس کیا جائے ،کم ہے ۔ خود مشرقی پاکستان کے بنگالی صرف سیاسی مساوات اور حکومت میں اپنا حصہ چاہتے تھے وہ ہرگز ملک توڑنے کے خواہشمند نہیں تھے مگر یحییٰ خان نے سیاستدانوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنا کام دکھایا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش بن گیا۔ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں اور تقسیم کو سیاستدانوں کی کارکردگی قرار دیتے ہیں۔ اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ اور ہاکی میں ہندوستان سے کھیلتا ہے تو بنگلہ دیشی عوام ہمیشہ پاکستانی ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں اور ہندوستانی ٹیم کو غیر ملکی ٹیم سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش بننے کے بعد 1971ء میں بنگلہ دیش کی تمام صنعتیں اور تمام مشینریاں نکال کر بھارت منتقل کر دی تھیں ۔ اس طرح بنگلہ دیش صنعتی طور پر 10سال تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتا رہا ۔ غربت ، معاشی بدحالی اور سیلاب کی تباہی بنگلہ دیش کو پنپنے نہیں دے رہی تھی پھر بھی بنگلہ دیشی تاجر اور صنعت کاروں نے بھارت کے مقابلے میں اپنی ساکھ بنائی ۔ گو کہ وہ آج بھی اس جنگ میں مصروف ہیں مگر یہ جنگ جس کو معاشی جنگ کہتے ہیں یہ اتنی آسان نہیں ۔ بھارت بنگلہ دیش کے مقابلے میں بہت بڑا ملک ہے پھر وہ مسلمان ملک سے بغض بھی رکھتا ہے۔
تازہ ترین