پاکستان میں بننے والی زیادہ ترفلموں کی کہانیاں فارمولا،عام روٹین پر مبنی رہی ہیں، بہت کم ہدایت کار اور مصنفین ہیں، جنہوں نےعام ڈگر سے ہٹ کرکچھ مختلف کام کرنے کی کوشش کی۔ ہدایت کار نذرالاسلام کا شمار بھی چند ایسے ہی ہدایت کاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی شان دار فلموں میں نئے رجحانات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ زیر تبصرہ فلم’’ نہیں ابھی نہیں‘‘ ان کی ایک ایسی ہی کاوش میں شمار کی جاتی ہے۔
فلم کی کہانی کا مرکزی خیال مشہور انگریزی فلم’’ سمر آف42‘‘ سےلیا گیا، کہانی نویس سیدنور نے انگریزی فلم کو اردو کے قالب میں ڈھالنے میں بے حد عمدہ انداز اپنایا ہے۔ فلم کا خُوب صورت اور دل کش منظر نامہ بشیر نیاز نے بہت لاجواب تحریر کیا، جس نے فلم کی کشش کو دیکھنے والوں میں نمایاں کیا اور ایک سے زائد بار دیکھنے کے لیے مجبور کردیا۔ مکالمے بھی بہت برجستہ اور کرداروں کو سامنے رکھ کر لکھے، جس سے فلم کے حُسن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ افضل چوہدری کی فوٹو گرافی کے کیا کہنے ہیں، نذرالسلام کے ساتھ ان کا اشتراک ہمیشہ کام یاب رہا ہے ۔
کراچی کی آوٹ ڈور لوکیشن کو نہایت خُوب صورتی سے فلمایا گیا۔ تدوین کار ارشاد دُرانی کاکام بھی قابل تعریف ہے، سین ٹو سین ایک عمدہ ٹیمپو کے ساتھ پیش کرکے انہوں نے ایک اعلیٰ ایڈیٹر کا ثبوت دیا ہے۔ ضرورت کے مطابق فلم کا ٹیمپو تیز رکھنے میں کام یاب رہے۔ معاونڈ ریکارڈسٹ سہیل نے پس منظر موسیقی اور مکالموں کی صدابندی میں بہت ہی معیاری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
فلم کی زیادہ تر شوٹنگ کراچی کے آوٹ ڈور مقامات پرکی گئی۔ اس کے باوجود جہاں سیٹ لگائے گئے ، وہاں آرٹ ڈائریکٹر سرور غوری اپنی ذہانت کا اعلیٰ ثبوت دیا۔ اس فلم کی موسیقی کا شعبہ بہت ہی اعلیٰ ہے روبن گھوش کی دھنیں بے حد سُریلی اور نئے انداز کی ہیں، جس پر سرور بارہ بنکوی، ریاض الرحمن ساغر اور سعید گیلانی کے لکھے ہوئے نغمات نے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا اور فلم کے گانے مقبول عام ہوئے،خاص طور پر فلم کے یہ گیت ؎سماں وہ خواب کا سماں؎ جسے اخلاق احمد نے گایا، جو اس فلم کا سب سے سپرہٹ نغمہ ثابت ہوا ۔
فلم کی کہانی ٹین ایجز نوجوان نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ انسانی عمر کا سولہواں سال بہت اہم ہوتا ہے، جب انسان کسی اسے تجربات سے گزرتا ہے، جو اس کی زندگی کے اگلے سفر کو متعین کرتی ہے۔ گاؤں کا رہنے والا ایک نوجوان ارمان کو اس کے غریب ماں باپ اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر بھیجتے ہیں۔ اسکول کے ہاسٹل میں وہ ایک نئے ماحول سےمتعارف ہوتا ہے۔ اس کے روم میٹ لڑکے جو ہر طرح کے ہوتے ہیں، اوباش ٹائپ ملتے ہیں، اسے ایاز نام کا ایک لڑکا، جو بے حد تیز اور اوباش ہوتا ہے، وہ ارمان جسے سیدھے سادھے دیہاتی لڑکے کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔
ارمان کی ملاقات ایک اور روز لیڈی شبنم سے ہوئی، جو بے حد موڈرن اور پرکشش تھی، اس کے حُسن نے ارمان کو اپنی طرف مبذول کیا، وہ شبنم کی بے تکلفی اور والہانہ محبت کو کچھ اور ہی سمجھنے لگا، اب دن رات وہ اس لیڈی کی تلاش اور خیالات میں رہتا، پڑھائی سے بالکل دور ہوتا گیا۔ اس کے دوست ایاز نے اسے شبنم کے حوالے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا کردیا۔
ایک روز وہ شبنم کے فلیٹ جا پہنچا، جہاں اس کی ملاقات ایک نو عمر حسینہ آرزو سے ہوئی ، آرزو، ارمان کو پسند کرنے لگی، مگر ارمان، شبنم کی محبت میں گرفتار ہوتا گیا، آرزو نے اسے ایک خط کے ذریعے سمجھایا کہ تم ایک نوعمر لڑکے ہو، جب کہ شبنم کی عمر تم سے بہت زیادہ ہے، لہذا تم شبنم کا خیال ذہن سے نکال دو، لیکن ارمان دنیا ومافیا سے بے نیاز ہوکر شبنم کے خواب دیکھتا رہا، گاؤں میں موجود جب اس کے باپ کو اس کی غیر اخلاقی حرکات کا پتہ چلا تو وہ شہر آتا ہے، اسے ڈانٹتا ہے۔
ارمان اپنے باپ سے ایسا نہ کرنا کا وعدہ کرتا ہے، لیکن اس کا شرارتی اوباش دوست ایاز پھر اسے شبنم سے عشق کرنے پر مجبور کرتا ہے، ایک روز ارمان شبنم کے پاس جاتا ہے اور اظہار عشق کرتے ہوئے اسے شادی کی آفر کرتا ہے، یہ سن کر شبنم حیران اور غصے سے بے قابو ہوکر اسے برابھلا کہتی ہے اور بتاتی ہے کہ تمہاری شکل میرے مرحوم بھائی سے ملتی ہے، میں تم سے محبت اسی لیے کرتی تھی کہ تمہیں بھائی کی طرح چاہتی تھی، مگر تم نے اس کا غلط مطلب لیا، مجھے تم سے نفرت ہوگئی ہے، یہ سُن کر ارمان اسکول کی لیبارٹری میں آکر زہر پیتا لیتا ہے، ڈاکٹرز نے بڑی مشکل سے اس کی زندگی بچائی، گاؤں سے اس کے والدین سب آجاتے ہیں ، ارمان ان سے وعدہ کرتا ہےکہ وہ اب پڑھنے کی طرف توجہ دے گا اور ایک روز بڑا آدمی بن کر دکھائے گا۔
ایک روز اسے آرزو دوبار ملتی ہے اور اس سے اظہار محبت کرتے ہوئے سیب کھانے کو دیتی ہے، ارمان اسے سیب کھاتے واپس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اس پھل کو ایک دن ضرور کھاؤں گا، لیکن ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ اس پر فلم کا اختتام ہوتا ہے۔ اس فلم میں نذرالاسلام نے ارمان جو بعد میں فیصل کے نام سے بے حد کام یاب اور مقبول اداکار ثابت ہوئے، پہلی بار اس فلم میں متعارف کروایا۔ ارمان کے ساتھ ایاز اور آرزو کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔
ان تینوں اداکاروں نے اپنے کرداروں میں بھرپور اداکاری کا مظاہرہ کیا، جب کہ شبنم کا کردار بہت اہم تھا، جس پر پُوری کہانی کی بنیاد تھی۔ شبنم نے اپنے کردار کوبڑی خوبی اور نئے انداز سے پلے کیا۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں قوی، دیبا،رنگیلا،ننھا، علاوالدین، خالد سلیم موٹا، ساقی، الیاس کاشمیری، مرزاشاہی، ریحان، شیزاز،گرج بابو، نینا، ابرہیم راز، ارشاد درانی کے نام شامل تھے۔ یہ یاد گار کام یاب فلم1980میں کراچی کے پلازہ سینما پر ریلیز ہوئی تھی۔
فلم’’نہیں ابھی نہیں‘‘ جب افتتاحی مراحل میں تھی، تو اس کا نام ’’ابھی نہیں‘‘،تھا، جو بعد میں ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ ہوا ،منفرد موضوع اور دل کش منظر نگاری اور مسحور کن موسیقی کی بدولت اس فلم کو شائقین نے بے حد پسند کیا، فلم بینوں کی ایک بڑی مقدار نے اس فلم کو ایک سےزائد بار دیکھا اور بار بار پسند کیا، فلم کے پروڈیوسر نعیم الدین اور ہدایت کار نذرالاسلام نے نئی کاسٹ کے ساتھ ایک معیاری کام یاب فلم بناکر یہ ثابت کردیا کہ اسٹار سسٹم فلم کی کام یابی کے لیے کوئی ضروری نہیں، اگر ہدایت کار، باصلاحیت اور ذہین ہوتو وہ بالکل نئے اداکاروں سے بے حد اعلیٰ کام لے سکتا تھے، نذرالسلام نے اپنی اس فلم سے یہ بات کرکے دکھائی۔