• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 2021-22کے لئے صوبے کا میزانیہ پیش کرتے ہوئے جہاں عام لوگوں کو کئی خوشخبریاں دیں وہاں وفاقی حکومت سے یہ شکوہ بھی ضروری سمجھا کہ مرکز کی طرف سے کم رقوم ملنے کے باعث صوبے کو مالی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے گیارہ ماہ کے دوران صوبے کو صرف 623.6ارب روپے کے فنڈز ملے جبکہ 696.9ارب ملنے چاہئیں تھے۔ منگل 15جون 2021کو سندھ اسمبلی میں پیش کئےگئے 1477ارب روپےکے ٹیکس فری بجٹ میں آمدنی کا تخمینہ 329ارب، خسارے کا اندازہ 25.73ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ بجٹ کے حجم میں 19.1فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20فیصد اضافے کی تجویز رکھی گئی ہے جو وفاقی میزانیے کی نسبت دگنی ہے۔ پنشن 10فیصد بڑھے گی۔ کم از کم اجرت بھی 25ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ یہ یقیناً ایک بڑی سہولت ہے۔ سرکاری ملازمین درحقیقت حکومتی مشینری کا وہ حصہ ہیں جو اعلیٰ ترین سطح پر بنائی گئی پالیسی کو عملی طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔ کسی حکومت کی کارکردگی کا تعین کرتے ہوئے ان ملازمین کا کردار نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اسلئے ان کے مسائل و مشکلات پرنظر رکھنا وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے مگر معاشرے کے کئی مسائل تمام ملازمت پیشہ لوگوں، خصوصاً کم آمدنی والے افراد میں مشترک ہوتے ہیں جو پالیسی سازی میں نظرانداز نہیں کئے جانے چاہئیں اور ایسے طریقے اختیار کئے جانے چاہئیں کہ افراطِ زر اور مہنگائی سمیت پورے معاشرے پراثرانداز ہونے والی منفی کیفیات سے تمام شعبوں کے افراد بالخصوص تنخواہ دار طبقے کو نکالنا ممکن ہو ۔ جہاں تک بنیادی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کی شرح کا تعلق ہے، سندھ میں برسراقتدار پارٹی پی پی پی کے پہلے سے کئے جانے والے بعض وعدوں کے بموجب ان میں نہ صرف خاصا، بلکہ وفاق سے دگنا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد وفاق پر یہ ذمہ داری آگئی ہے کہ وہ اس فرق کو دور کرنے کی تدابیر کرے۔ بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نوع کے کلیدی مسائل پر وفاق اور صوبے ابتدا میں ہی باہمی مشاورت سے بہترین ریلیف پیکیج بنالیا کریں اور ایسے طریقے وضع کریں جن کے ذریعے لوگوں کوخوش اسلوبی سے اچھی تنخواہیں بروقت دیتے ہوئے خسارے پر قابو پانا ممکن ہو۔ بجٹ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے ملازمین کیلئے (ماسوائے پولیس کانسٹیبلز گریڈ 01تا گریڈ05)ذاتی الائونس متعارف کرایا ہے۔ اس کیساتھ مستحق افراد کی معاونت اور معیشت کی بحالی کے ضمن میں 30.90ارب روپے کا غریب افراد کے سماجی تحفظ اور معاشی استحکام کا پیکیج دوبارہ بجٹ میں رکھا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی تقریر سے واضح ہے کہ نئے میزانیہ میں امن برقرار رکھنے کیلئے 105ارب، تعلیم کیلئےسب سے زیادہ (یعنی 240ارب روپے)، اسکے بعد صحت کیلئے (یعنی 172ارب روپے)اور بعد ازاں کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے 289ارب سمیت بلدیات کے لئے رقوم مختص کی ہیں ۔ جبکہ کورونا سےبچائو کیلئے 24ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جائداد کی خریدوفروخت ، کرائے نامے، پاور آف اٹارنی کیلئے اسٹیمپ ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ تخمینوں کے مطابق وفاقی ٹیکس وصولیاں 869ارب، غیر ترقیاتی اخراجات 760ارب روپے ہونے کی توقع ہے جبکہ اسمال اور میڈیم انٹرپرائزز کو آسان قرضوں کی صورت میں 300ارب روپے دیئے جائیں گے۔ کراچی کی لوکل کونسلوں کے لئے 5.2ارب روپے اور شہریوں کی فلاح وبہبود کے لئے بھی رقم رکھی گئی ہے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ صوبائی اسمبلی میں بحث کے دوران حزب اختلاف کی تجاویز کوسموتے ہوئے اس بجٹ کو زیادہ بہتر بنایا جاسکے گا۔

تازہ ترین