وفاقی وزیر خزانہ، شوکت ترین نے جمعہ 11جون 2021ء کو قومی اسمبلی میں سال 2021-22ءکا بجٹ پیش کیا۔ بجٹ بحث کے دوران پارلیمان میں جو ہلڑ بازی، ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ، مار دھاڑ ہوئی، اس کی تو تاریخ میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔ مگر اس بدترین صورتِ حال میں بھی خوش آئند امر یہ ہے کہ نئے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے دو ہفتوں کے اندر اندر سخت مایوسی و ناامیدی کی فضا میں اُمید کی کچھ شمعیں جلائیں۔ پچھلے ڈھائی تین سال سے بدترین منہگائی کے ہاتھوں بے حال عوام ’’بجٹ‘‘ کے نام ہی سے کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے، مگر کسی حد تک متوازن بجٹ اور اس خوش خبری کے بعد کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا، سُکھ کا سانس لے پائے ہیں۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں اب تک کوئی بجٹ ایسا پیش نہیں کیا گیا، جس میں مجبوریوں میں جکڑے اس نظام کے لیے بھاری صنعتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہو۔ اور اس کی کئی وجوہ میں سے ایک مُلک کو آئی ایم ایف کے نسخوں کے تحت چلایا جانا اور طویل المیعاد منصوبہ بندیاں ہیں۔حالاں کہ بھاری صنعتوں کے قیام کے بغیر قومی دفاع سمیت ملکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ممکن ہے اور نہ ہی قدرتی وسائل سے استفادہ۔ نیز، انسانی وسائل اورروزگار میں وسعت بھی ممکن نہیں۔
یہاں تک کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادیں فراہم ہوسکتی ہیں، نہ سماجی، ثقافتی سطح بلند ہوسکتی ہیں، اور نہ ہی انجینئرنگ کے شعبے میں ترقی کے دروازے کُھل پاتے ہیں۔ قصّہ مختصر، بنیادی صنعتوں کے قیام کے بغیر جدید فلاحی مملکت کا حصول ناممکن ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھاری صنعتوں کے بغیر غیرملکی سرمائے کی یلغار سے بچنے کی کوئی صُورت نہیں رہ جاتی۔ماضی میں ٹیکسلا کے مقام پر ہیوی کمپلیکس اور کراچی میں اسٹیل مل لگائی گئی، مگر یہ دونوں بھاری صنعتیں کرپشن ہی کی نذر ہوگئیں۔
بہرحال، ماضی کی غلط پالیسیوں اور کووڈ۔19کے تناظر میں وزیر خزانہ شوکت ترین نےشرح ِنمو (گروتھ) کے مرکزی خیال کے ساتھ، قرضوں اور سود میں جکڑے، سرمایہ داری نظام میں رہتے ہوئے بھی نسبتاً بہتر بجٹ پیش کیا ہے، جس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی طرف سے عاید کردہ کڑی شرائط سے (بجلی، زرتلافی اور سود کی شرح کے ضمن میں) انخراف کیا، جو یقیناً قابلِ تحسین امر ہے۔
2021-22ء کے بجٹ میں صنعت کاروں، کاروباری حلقوں کے ساتھ آئی ٹی، ماحولیات، ٹورازم اور زراعت کے شعبوں پر خاص توجّہ دی گئی ہے، جب کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس ریونیو میں 24فی صد اضافے کا ہدف رکھا گیا ہے، جو تقریباً 506ارب روپے بنتا ہے اوراس کے حصول کے لیے مختلف اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، خاص طور پر نان فائلر اور انکم ٹیکس درست ادا نہ کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اعلان کیا گیا ہےلیکن پہلے سے درست ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ بدقسمتی سے بڑے طبقوں میں ٹیکس چوری کا رواج عام ہے، جس کے باعث بالواسطہ ٹیکس لگاکر عوام پر بوجھ ڈال دیاجاتا ہے۔
لہٰذا سیلز ٹیکس کی پکّی رسید کے اجراء پر انعام اورقانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا تجویز کی گئی ہے۔یاد رہے، گزشتہ حکومت بتیس ہزار ارب کا مُلکی قرضہ چھوڑ کر گئی تھی، جو سود کی اقساط کی ادائی کے بعد اب 38ہزار ارب تک جا پہنچا ہے۔ سال 2021-22ء کے بجٹ کا کُل حجم 8.487ٹریلین روپے(آٹھ ہزار چار سو87ارب روپے) ہے، جب کہ گراس ریونیو کا ہدف 7.909ٹریلین روپے مقرر کیا گیا ہے، بجٹ خسارہ ٹیکس نیٹ وسیع کرکے مقامی اور غیر ملکی قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔
دفاع کے لیے 1.37ٹریلین روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ برس سے 24 فی صد زیادہ اور پڑوسی ملک بھارت سے آٹھ گنا کم ہیں۔ اس حوالے سے اگر موازنہ کیا جائے، تو بھارت کے ریزروز350ارب ڈالرز اور پاکستان کے 16ارب ڈالرز تک جاپہنچے ہیں۔ 2019ء میں بھارت کی آئی ٹی کی برآمدات 60 ارب ڈالرز، جب کہ پاکستان کی کُل برآمدات 20ارب ڈالرز تھیں اور رواں مالی سال کے لیے ان کا ہدف 26ارب ڈالرز رکھا گیا ہے۔
چوں کہ پاکستان کی آمدنی برآمدات پر منحصر ہے،جب کہ اخراجات درآمدات کے زمرے میں آتے ہیںاور گزشتہ حکومت توازنِ ادائیگیوں کی مد میں40ارب ڈالرز چھوڑ کرگئی تھی۔ پھرکووِڈ 19کے ساتھ پاکستان کو دیگر متعدد چیلنجز کا بھی سامنا رہا۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق کے پاس دفاع اور سود کی ادائیگی کے بعد کچھ نہیں بچتا، اس لیے قرضوں ہی پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔
گرچہ منی لانڈرنگ کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سختی کی وجہ سے ترسیلات 26 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہیں، جو موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑا ریلیف ہے۔ نیز،گزشتہ دوبرس میں مینوفیکچرنگ جو منفی شرح پر چلی گئی تھی،رواں برس 12فی صداضافے کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس کے ساتھ سوشل سیفٹی بھی کسی غریب مُلک کے لیے انتہائی ضروری ہے، لہٰذا موجودہ بجٹ میں احساس پروگرام کے لیے272ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اسی طرح پی ایس ڈی پی سماجی ترقی کا پروگرام ہے، اس کے لیے 900ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ برس630ارب روپے تھے۔ اس میں خاص طور پر نوجوان پروگرام کو مدنظر رکھاگیا ہے۔ البتہ نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کا کوئی نیا منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ تاہم، وزیر خزانہ نے بجٹ کے بعد پریس کانفرنس میں ضرور کہا کہ وہ اسکلز بڑھانے کے لیے کئی اسکیموں پرکام کررہے ہیں، خصوصاً اس سلسلے میں آئی ٹی پر مربوط کام ہورہا ہے۔ تاہم، موبائل فونز اور آئی ٹی پر نافذ کیے گئے تقریباً100ارب روپے کے محصولات وزیر ِاعظم عمران خان کی ہدایت پر وزیرِ خزانہ نے واپس لینے کا اعلان کردیا۔
بجٹ میں کسٹم ڈیوٹیز میں بھی کافی تبدیلیاں لائی گئی ہیں، تاکہ انڈرانوائسنگ اوراوور انوائسنگ کی آڑ میں کسٹم ڈیوٹی چوری کی روک تھام کی جاسکے۔ اس ضمن میں ٹیکنالوجی بھی بروئے کار لائی جائے گی۔ مزید برآں، ٹیرف کو منطقی بنانے اور شرح نمو بڑھانے کے لیے مشینری اور خام مال درآمد کرنا بھی ضروری ہے۔اور یہ بھی لازم ہے کہ درآمدات وبرآمدات میں بہت زیادہ فرق نہ ہو، ورنہ کرنٹ اکائونٹ، جو بڑی مشکل سے خسارے سے نکل کر فاضل ہوا ہے، کہیں دوبارہ معاشی چکّر میں نہ پھنس جائے۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ میکرواکنامکس کے اشارے مثبت ہوئے ہیں۔ تاہم، اس کے اثرات افراطِ زر اور منہگائی پر کس طرح مرتب ہوں گے،عام صارف سال کے آخر ہی میں محسوس کرسکے گا۔ پاکستان کی آمدنی جو 2018ء میں20ارب ڈالرز اور اخراجات 60ارب ڈالرز تھے، حکومت کے حالیہ اقدامات سے ان میں کچھ کمی آئی ہے، لیکن مذکورہ کمی سے بھی منہگائی کی روک تھام ممکن نہیں، کیوں کہ تن خواہوں میں محض دس فی صداضافہ کیا گیا ہے،جو بہت کم ہے۔ چوں کہ18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس کافی زیادہ وسائل آگئے ہیں، اس لیے ان کا تن خواہوں میں زیادہ اضافہ کرنا فائق ہے۔ بہت شور مچایا جاتا ہے کہ کراچی 70 فی صد ٹیکس دیتا ہے۔
لیکن یاد رہے کہ کراچی کے عوام بالواسطہ ٹیکسوں کی مَد میں زیادہ رقم ادا کرتے ہیں، انکم ٹیکس سے بہت کم ریونیو جنریٹ ہوتا ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، تجارتی حلقوں اور سرداروں کے رہن سہن، گاڑیوں اور محلّات کو دیکھا جائے، تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اشرافیہ حساب کی دوکتابیں رکھتی ہے، اور انکم ٹیکس بہت معمولی ادا کرتی ہے۔ یہ اگر گرفتار بھی ہوجائیں، توعوام پر سے بوجھ کم نہیں ہوتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود بدقسمتی سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر دالیں، کھانے کا خام تیل اور دیگر زرعی اشیا درآمد کی جاتی ہیں اور یہ افسوس ناک صورتِ حال1947ء سے چلی آرہی ہے۔
قدرتی وسائل سے کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ ریکوڈیک کا منصوبہ دراصل سونے کی کان ہے، جسے سابق چیف جسٹس، چوہدری افتخار نے کالعدم قرار دیا تھا اور جس کے نتیجے میں6ارب ڈالر کا جرمانہ بھی ہوا، مگر صدشکر کہ بہرحال ہم نے یہ مقدمہ جیت لیا ہے اور آسٹریلوی کمپنی سے دوبارہ منصوبے پرکام کرنے اور جرمانہ ختم کرنے پر مذاکرات جاری ہیں۔ علاوہ ازیں، ایک بوجھ ایف اے ٹی ایف کابھی ہے۔پھر سی پیک کی وجہ سے جو انقلاب آرہا ہے، وہ بھی سامراجی ممالک کو پسند نہیں اور افغانستان کا مسئلہ تو ہر حکومت کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ہی ہے۔
درآمدات کےضمن میں کسٹم ڈیوٹیز میں تبدیلیاں لائی جارہی ہیں اور موجودہ بجٹ میں52 ارب روپے کا ریلیف دینے کے بعد، جس میں42ارب روپے کے ٹیکسز بھی ہیں، توقع ہے کہ کسٹم ڈیوٹیز کی مَد میں گزشتہ برس سے10ارب روپےزیادہ وصول ہوں گے۔ رجسٹرڈ تجارتی حلقوں کے لیے کاروبار میں مزید آسانیوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتی وکاروباری حلقے بجٹ کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ ریونیو کے فروغ کے لیے وفاقی ایکسائز ڈیوٹی اور سیلزٹیکس کی مَد میں215ارب روپے کا ہدف مقرر کیاگیا ہے، جب کہ بعض ضروری درآمدی اشیاء پر19 ارب روپے کا ریلیف بھی دیاگیا۔ آٹا، گھی، چینی اور دیگر اہم اشیاء پر682ارب روپے کی سسبڈی (زرِتلافی) دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے زرِتلافی کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ این ایف سی ایوارڈ کے لیے 1200ارب روپے کی زائد رقم مختص کرنے کے علاوہ انکم ٹیکس کی مد میں116ارب روپے رکھے گئے تھے، جس میں ردوبدل کرکے 158ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ٹیکس نیٹ وسیع کرکے264ارب روپے کا اضافی ٹیکس وصول کیاجائے گا۔ ٹیکس نظام میں تبدیلیوں اور ایف بی آر میں اصلاحات کی وجہ سے2021-22ء کے بجٹ میں محصولات کا حجم 487ٹریلین روپے رکھا گیا ہے۔
رواں سال ریونیو وصولی کاہدف 5.829ٹریلین روپے ہے، جب کہ جون2021ء تک ریونیو کی وصولی 4.691ٹریلین روپے ہوئی۔ امید ہے اگر اس بجٹ پر عمل درآمد ہوگیا، تو ملک معاشی طور پر چل پڑے گا۔آٹھ ہزار ارب روپے سے زیادہ کے ریونیو ہدف سے متعلق وزیرِ خزانہ کا کہنا ہےکہ 2.658ٹریلین کا فاضل ریونیو آئوٹ آف باکس جدّتوں کے ذریعے حاصل کیا جائے گا اور یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترکی اور کوریا کی گفٹ اسکیمز پر بھاری ڈیوٹی اور دیگر اقدامات کا بھی ذکر کیا۔
ٹیکس فائلر کا انتخاب کرکے تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کروایا جائے گا، تاکہ ایف بی آر کی دھونس، دھاندلی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ نیز، پی ٹی اے تھری جی اور فورجی لائسینسز کی نیلامی سے 45.4ارب روپے وصول ہوں گے، تو صوبوں سے مارک اَپ کی مَد میں 35.5 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ گیس انفرااسٹرکچر سیس سے 139 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ ڈیویڈنڈ سے 90.3ارب روپے اور اسٹیٹ بینک کے منافعے سے 650 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔
تاہم، اصل مسئلہ جو حل طلب رہے گا، وہ انرجی یعنی بجلی کا مسئلہ ہے۔ افسوس ناک امریہ ہے کہ یہ معاہدہ، بے نظیر دورِ حکومت میں آئی پی پی سے کیا گیا تھا، جو نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔سابقہ حکومت بجلی کی پیداوار 38 ہزار میگاواٹ تک تو لے گئی، لیکن تقسیم و ترسیل کا نظام درست نہ ہوسکا۔ نہ ہی بجلی چوری کاقلع قمع کیا جاسکا۔ گرمیوں کے عروج پر پاکستان کو 25 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت پڑتی ہے، جب کہ بجلی گھر 23 ہزار میگا واٹ فراہم کرتے ہیں اور ترسیل و تقسیم کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے آئی پی پی معاہدے کے تحت پاکستان کو 38 ہزار میگاواٹ بجلی کی رقم ادا کرنی پڑتی ہے، پھر 2 ہزار میگاواٹ کی لوڈشیڈنگ بھی ہوتی ہے۔ سردیوں میں بجلی کی ضرورت 10 ہزار میگاواٹ ہے،مگر ادائیگی 38ہزار میگاواٹ ہی کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گردشی قرضے 2700ارب ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ’’بجلی کے معاہدے کا سوچتا ہوں، تو نیند حرام ہوجاتی ہے۔ اس کا عارضی حل تو نکالا ہے، لیکن جب تک بیرونی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اس کا مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا، کوئی بجٹ بھی کارآمد نہیں ہوگا۔‘‘
موجودہ حکومت نے احساس پروگرام، نوجوان پروگرام، کسان کارڈ، جس میں براہِ راست زرِتلافی دی جائے گی۔صحت سہولت کارڈ اور لنگرخانے وغیرہ جیسے اقدامات متعارف کروائے ہیں۔ دس کے قریب ڈیمز بھی بن رہے ہیں،مگر ہمیں آبادی کی شرحِ نمو اور جی ڈی پی کی شرحِ نمو کو بھی زیرِغور لانا ہوگا۔ اسی طرح بچتوں اور جی ڈی پی کا موازنہ بھی کرنا ہوگا، کیوں کہ سرمایہ داری نظام میں اگر بے ایمانی بھی ایمان داری سے کی جائے، تو معاشی حالات سدھر جاتے ہیں۔
عدالتی انصاف اور طاقت ور ترین حلقے ساتھ ہوں، تو استحکام قائم ہوسکتا ہے کہ بجٹ تو گھر کی سالانہ آمدنی، خرچ، قرضوں اور سود کا کھاتہ ہے اور یہ سب عناصرکسی فوری انقلاب ہی سے درست ہو سکتے ہیں،جس کے لیے کوئی تیار نہیں۔