وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں۔ اس مقصد کے لئےانہیں سب سے پہلے ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہیں ملک کو درپیش اس چیلنج کا بخوبی ادرا ک ہے اور اس کے لئے وہ درست راستے پر گامزن بھی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں خوشحال معیشت کی بنیاد ایس ایم ای سیکٹر پر استوار کی گئی ہے۔ جرمنی، جاپان، چین، امریکہ، کوریا، اور ملایشیا سمیت تمام معاشی طاقت ایس ایم ایز ہی بنے ہوئے ہیں۔ وہاں کی حکومتوں نے اپنے تمام تر وسائل کا رخ ایس ایم ایز کی طرف موڑ کر ہی روزگار کے اس قدر کثیر مواقع پیدا کیے ہیں کہ اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے بے روزگاروں کی کھپت کا بھی وسیلہ بنے ہیں۔
بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت سیاسی ترجیحات کی وجہ سے معاشی محاذ کو نظر انداز کر رہی ہے، یا اسکی توجہ صرف بڑے صنعتی شعبوں تک محدود ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دراصل حکومت سیاسی چیلنجوں اور کورونا سے پیدا شدہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر اقتصادی ترقی سے متعلق اپنے اقدامات کو پوری طرح اجاگر نہیں کر سکی۔دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی اور یو ٹیلٹی ریٹس میں اضافے کی وجہ سے حکومت کی معاشی ناکامی کا تاثر پیدا ہوا ہے۔ حکومت کے مشیروں اور اقتصادی مینیجروں کو چاہیے کہ وہ وقتی معاشی اور معاشرتی بحرانوں کی وضاحتوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان کے دور رس اقتصادی وژن کو بھی اجاگر کریں۔
ہمارے ملک میں مالیاتی وسائل کی قلت اور حکومت کی عدم سرپرستی کی وجہ سے ایس ایم ایز، ٹیکنالوجی اور ماڈرنائزیشن کے حوالے سے پیچھے رہ گئی ہے۔ لیکن اس پسماندگی اور محرومی کے باوجود78 ایس ایم ایز روزگارکی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور زرعی شعبہ کے بعد کئی لوگوں کا روزگار اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ مالیاتی اداروں کو قومی مفاد میں یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ بڑی صنعت میں ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری سے اگر دس ہزار لوگوں کو روزگار ملتا ہے تو چھوٹی اور درمیانی صنعتوں میں اسی رقم سے دس گنا سے بھی زیادہ افراد کو روزگار کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت اس فلسفہ کو سمجھ چکی ہے اور ملازمتوں کی فراہمی کے اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسی سائنس کو بروئے کار لا رہی ہے۔
اس وقت وزیر اعظم پاکستان کی ہدایات کے مطابق وفاقی وزارت صنعت وپیداوار ایس ایم ایز کی ترقی پر خاص توجہ دے رہی ہے۔ اوریہ کام صرف باتوں تک محدود نہیں۔ نئی ایس ایم ای پالیسی بن چکی ہے جس پر پورے ملک میں یکساں عملدرآمد کے لئے تشکیل دی گئی نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلا س، وزیراعظم کی صدارت میں باقاعدگی سے منعقد ہو رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی اس جانب سنجیدگی کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے مذکورہ کمیٹی کے ابتدائی اجلاس میں ہی ایس ایم ای پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے ایک جامع ایکشن پلان کی منظوری دے دی تھی۔ 2007میں جو پہلی ایس ایم پالیسی بنی اس پر پوری طرح عمل نہیں ہو سکا تھا۔ اس لیے نئی پالیسی پر علمدرآمد یقینی بنانے کے لئے ایکشن پلان کے تحت متعلقہ وفاقی وزارتوں، محکموں اور صوبائی حکومتوں سے اشتراک عمل جاری ہے۔
اس سارے عمل میں سمیڈا وزارت صنعت و پیداوار کی نگرانی میں فعال ترین کردار انجام دے رہا ہے۔ متعلقہ نجی اور سرکاری سٹیک ہولڈرز سمیت میٹنگز ہوچکی ہیں اور سٹیٹ بنک آف پاکستان، ایف بی آراور بورڈ آف انویسٹمنٹ سمیت تمام اہم وفاقی اور صوبائی اداروں کو اعتماد میں لیا جا چکا ہے۔سٹیٹ بنک نے ایس ایم ایز کو قرضوں تک آسان رسائی کے لئے اور ایف بی آر نے ٹیکسوں کے بوجھ کو کم کرنے اور نظام کو سہل بنانے کے لئے اہم اقدامات وضع کر لیے ہیں۔
حالیہ وفاقی بجٹ بھی ا س کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کیلئے12ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں 900 ارب کے پی ایس ڈی پی پراجیکٹس میں بھی ایس ایم ای سیکٹر سے متعلقہ ترقیاتی منصوبوں کو خصوصی اہمیت دینے کافیصلہ کیاگیا ہے۔وفاقی وزارت صنعت نے گروتھ ریٹ اور ایمپلائمنٹ جنریشن کی شرح کا ہدف پوراکرنے کیلئے اپنے ادارے سمیڈا کو اعلیٰ گروتھ کے حامل منصوبوں کی ترقی پر توجہ دینے کی ہدایت کی ہے جس کے تحت ایس ایم ایز کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایمازون پر پاکستان کی شمولیت اور اس سلسلے میں ای کامرس کے فروغ کیلئے دی گئی ترغیات سے بھرپور استفادہ کیلئے ایک جامع پروگرام پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
سمیڈا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہاشم رضا نے ایک حالیہ ملاقات کے دوران بتا یا ہے کہ ای کامرس کے تمام ماہر اداروں کو اس پروگرام کا حصہ بنا کر ملک کی ایس ایم ایز کوای کامرس سے ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار کیا جائیگا۔ اس سلسلے کا آغاز گزشتہ ہفتے گورنر ہاؤس سندھ سے ہو ا جہاں سمیڈا اور ای کامرس کی صف اول کی کمپنی کے مابین افہام و تفہیم کا پہلا ’ایم او یو“ عمل میں آیا۔جس کے تحت دونوں ادارے ملکر ایس ایم ایز کو ڈیجیٹل بزنس کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ضروری تعلیم و تربیت بھی فراہم کریں گے تاکہ انہیں ایمازون پر رجسٹریشن کے طریق کار، انکے مطلوبہ معیار، مارکیٹنگ اور لین دین کے نظام کے بارے میں مکمل علم دیا جا سکے۔
ہاشم رضا نے بتا یا کہ اس ایم او یو کے تحت ایس ایم ایز کیلئے آن لائن اور آف لائن سیمیناروں اور ویبناروں کا سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے۔ ای کامرس کے شعبہ میں تربیت یافتہ افرادی قوت کے خلا ء کو پر کرنے کیلئے ایک سکل ڈویلپمنٹ پروگرام بھی اس ایم او یو کا حصہ ہے۔
ہاشم رضا کا کہنا ہے کہ سمیڈا، ایکسٹریم کامر س جیسے اداروں کے اشترک سے ایس ایم ایز کی مصنوعات اور خدمات کی آن لائن فروخت کو بڑھانے کیلئے انکی ہینڈہولڈنگ اور مسلسل مدد کا سلسلہ جاری رکھے گا تا کہ ملک کے زیادہ سے زیادہ ایس ایم ایز ای کامرس کو اپنے بزنس کا لازمی حصہ بنا لیں۔
انہوں نے امید کی کہ اس عمل سے ملک میں ای کامرس کے شعبہ کو بطور سیکٹر بھی فروغ ملے گا اور ملک میں کامرس کے اداروں کی صورت میں تقر یباًدس لاکھ نئی ایس ایم ایز جنم لے سکیں گی۔ اس مقصد کیلئے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے توسط سے طلبا و طالبات کو ای کامرس کے ادارے کھولنے کی ترغیب دی جائے گی۔
اس سلسلے میں حالیہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے چھوٹے کاروباروں کیلئے فراہم کردہ آسان قرضو ں کی سکیمیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی درمدآت پر دی جانی والی رعایتیںبے حد مددگار ثابت ہونگی۔ انہیں امید ہے کہ ای کامرس کے شعبہ کی ترقی سے اور ایمازون سے بھرپور استفادہ سے ملک میں دس لاکھ نئی ملازمتیں اور تقر باًایک ارب روپے کی برآمدات پیدا ہونگی۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار اور گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے ’سمیڈا‘ کے پروگرام کو سراہا ہے اور امید کی ہے کہ اس سے نہ صرف روزگار کے لاتعداد مواقع پید اہونگے بلکہ ملکی برآمدات میں بھی کثیر اضافہ ہو سکے گا۔ ہاشم رضا نے کہا کہ ای کامرس کے تحت پہلے بھی ایمازون اور اس جیسے دیگر پلیٹ فارمز کے توسط سے عالمی تجارت ہو رہی تھی مگر کورونا کی عالمی وبا ء نے اسے بین الاقوامی معیشت کا ایک لازمی حصہ بنا دیاہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ایس ایم ایز بھی جلد از جلد اس کی مہارت حا صل کرلیں ۔