ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کادار ومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے۔ جس کی ہجرت دنیا کمانے یاکسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو، اس کی ہجرت (نیت کے مطابق) اسی کے لئے ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب بدء الوحی ۔ باب بدء الوحی)جس طرح بعض آیات کا شانِ نزول ہوتا ہے، اسی طرح بعض اوقات احادیث کا بھی شان ورود (سبب) ہوتا ہے۔ یعنی جس موقع پر آپﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔ مشہور عالم دین علامہ عینی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو ام قیس نے یہ شرط رکھی کہ اگر تم ہجرت کرلو تو تم سے نکاح کرلوں گی۔ چنانچہ انہوں نے نکاح کی خاطر ہجرت کی۔ انہیں مہاجر ام قیس سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے اپنے خطبہ کے دوران مذکورہ بالا حدیث بیان فرمائی۔
اس حدیث کے تین اجزاء ہیں:پہلا جزء (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ): ’’اِنَّمَا ‘‘ عربی زبان میں حصر کے لئے آتا ہے۔ ’’اعمال‘‘ عمل کی جمع ہے۔ ’’نیات‘‘ نیت کی جمع ہے۔ نیت کے معنی دل کے ارادے کے ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عبادت کے ارادے کو نیت کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس جملے کے معنی یہ ہیں: اعمال کادار ومدار نیت پر ہے، یعنی کسی بھی شخص کی جانب سے کئے گئے اعمال صالحہ پر بدلہ صرف اسی صورت میں ملے گا ،جب کہ نیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ جس طرح جسم میں روح کی حیثیت ہے، اسی طرح اعمال میں نیت کا درجہ ہے۔
اعمال صالحہ کی اسی صورت میں قیمت اور قدر ومنزلت ہے، جبکہ ان سے اللہ کی رضامندی مطلوب ہو، ورنہ روح کے بغیر جسم کی طرح اعمال صالحہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے تحریر کیا ہے کہ اعمال صالحہ کرنے سے قبل اپنی نیتوں کو خالص اللہ کے لئے کریں،اعمال صالحہ کی ادائیگی کے دوران بھی اپنی نیتوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اعمال صالحہ سے فراغت کے بعد بھی اپنے دلوں کے احوال کو ٹٹولتے رہیں کہ اللہ کی رضامندی کے حصول کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد تو نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہوکر صرف اسی کے لئے خالص رکھیں۔ (سورۃ البینہ ۵) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: اللہ کو نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے، اور نہ ان کا خون، لیکن ا س کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج ۳۷) غرضیکہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کی کیفیات کو دیکھتا ہے، لہٰذا ہمیں ہر نیک عمل صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے کرنا چاہئے۔
دوسرا جزء (وَاِنَّمَا لِکُلِّ اِمْرِیئٍ مَا نَوَی): یہ جملہ دراصل پہلے جملہ کی مزید تاکید اور وضاحت کے لئے ہے۔ یعنی نیت میں جتنا اخلاص اور جتنی نیت ہوگی، اتنا ہی اجروثواب ملے گا۔ مثلاً ایک شخص مسجد میں صرف نماز پڑھنے آتا ہے، جب کہ دوسرا شخص نفلی اعتکاف کی بھی نیت کرلیتا ہے تو پہلے کو ایک عمل اور دوسرے کو دو عمل کا ثواب ملے گا۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد (مسجد نبوی ) میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے، سوائے مسجد حرام کے۔ (صحیح مسلم) ابن ماجـہ کی روایت میں پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا ذکر ہے۔
جس خلوص کے ساتھ وہاں نماز پڑھی جائے گی، اسی کے مطابق اجروثواب ملے گا، ان شاء اللہ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کے لئے نواں حصہ، بعض کے لئے آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔ (ابوداود، نسائی، صحیح ابن حبان) جس قدر خلوص اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہوگی، اتنا ہی اجروثواب زیادہ ملے گا۔
تیسرا جزء (فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ ۔۔۔۔۔۔۔): تیسرا جملہ دراصل دوسرے جملے کی تفصیل ہے۔ ’’جس کی ہجرت دنیا کمانے یاکسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو، اس کی ہجرت (نیت کے مطابق) اسی کے لئے ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہے۔‘‘ اسے مثال سے اس طرح سمجھیں جیسے بیج، درخت اور پھل ہے۔ نیت بیج کی طرح ہے، اس بیج سے درخت کا پیدا ہونا عمل ہے اور اس پر مالک کی ہمہ تن مصروفیتوں سے کم وبیش سات سو دانے لگ گئے۔ اگربیج بونے کے بعد اس کی آبیاری اور نگہداشت نہ کی جائے تو ایک دانہ بھی نہ آتا۔ اس کے پھل کی حلاوت اور ترشی وغیرہ بیج کی حیثیت پر موقوف ہے، اسی طرح نیت صحیح نہیں تو پھل بھی کڑوا ہوگا اور ان شاء اللہ نیت ِ خیر پر اچھا ثمرہ ملے گا ۔
ہجرت کے معنی ہیں دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنا، جیساکہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے ہجرت کی گئی۔ فتح مکہ تک مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا واجب ،تھا کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرجائیں۔ البتہ ۲۰ رمضان ۸ ہجری کو فتح مکہ کے بعد مکہ مکرمہ دار الاسلام بن گیا تو پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔
ہجرت کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں، جیساکہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) غرضیکہ جن اعمال واقوال واخلاق سے قرآن وحدیث میں ہمیں منع کیا گیا ہے، جن چیزوں کے کھانے وپینے سے ہمیں روکا گیا ہے، اور جن چیزوں کو دیکھنے، سننے اور بولنے سے ہمیں دور رہنے کی تعلیم دی گئی ہے، ان امور سے بچنا بھی ہجرت کے مترادف ہے۔
اَوْ اِلَی اِمْرَأۃٍ یَنْکِحُہَا: دنیا کے ذکر کے بعد عورت کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ،کیونکہ عورت جہاں باعث رحمت ہے، بے شمار خوبیوں کی حامل ہے، وہیں اس امت کے لئے ایک فتنہ بھی ہے ، جیساکہ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔ نیز محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب النکاح ۔ باب ما یتقی من شؤم المرأۃ) نیز جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ مہاجر ام قیس کے واقعے کے بعد آپ ﷺ نے اپنے خطبہ کے دوران یہ حدیث بیان فرمائی تھی، لہٰذا عورت کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا۔
کیا اعمال صالحہ کے لئے زبان سے نیت کرنا ضروری ہے؟: قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کااتفاق ہے کہ نیت اصل میں دل کے ارادہ کا نام ہے اور زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص زبان سے بھی نیت کرلے تو بہتر ہے تاکہ زبان حال کے موافق بن جائے۔ مثلاً ایک شخص نے مغرب کی اذان کے وقت وضو کیا اور جماعت سے نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد کی طرف رخ کیا تو نیت جو اصل میں دل کے ارادہ کا نام ہے وہ مکمل ہوگیا، لیکن نماز شروع کرتے وقت زبان سے بھی یہ کہہ لے کہ میں مغرب کی تین رکعات نماز ادا کررہا ہوں تو بہتر ہے۔
روزہ رکھنے کے وقت بھی زبان سے نیت کرلیں تو بہتر ہے۔ حج کا احرام باندھتے وقت یہ نیت کرنی ہوگی کہ حج کی کون سی قسم کا انتخاب کیا ہے اور حجِ تمتع کا ارادہ کرنے پر، پہلے صرف عمرہ کا احرام باندھنا ہوگا، لہٰذا صرف عمرے کی ادائیگی کی نیت کریں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کے لئے ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: فَاِنِّیْ صَائِمٌ تو میں روزہ رکھنے والا ہوں۔ دیگر کتب حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اِنِّیْ اَصُوْمُ‘‘ یا ’’اِذاً اَصُوْمُ‘‘تو میں روزہ رکھنے والا ہوں۔ صحیح بخاری میں بعض صحابۂ کرامؓ سے فَاِنِّیْ صَائِمٌ یَوْمِی ہٰذا کے الفاظ مروی ہیں۔ غرضیکہ نیت اصل میں دل کے ارادے کا نام ہے، لیکن زبان سے اس کا اظہار کرنا بدعت نہیں ہے،بلکہ بعض مواقع پر حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرامؓ سے زبان سے نیت کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
ریاء اور شہرت اعمال کی بربادی کا سبب ہیں:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، اتنے میں رسول اللہﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کردوں؟ ہم نے عرض کیا: ضرور۔ یا رسول اللہﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا: شرک خفی‘ دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو اور نماز کو اس لئے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔ (ابن ماجہ ۔ باب الریاء والسمعہ) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ (مسند احمد۔ج۴، ص۱۲۵) حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ انہیں روزے کے ثمرات میں بجز وبھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (ابن ماجہ، نسائی)
مذکورہ بالا حدیث کے چند فوائد حسب ذیل ہیں:(۱) نیت اصل میں دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبان سے نیت کرنا شرط نہیں ہے، البتہ کرلیں تو بہتر ہے تاکہ زبان حال کے موافق ہوجائے۔ (۲) اعمال کے صحیح وخراب اور مکمل وناقص ہونے کا دارومدار نیت پر ہے۔ (۳) جیسی نیت ہوگی، ویسا ہی اجرو ثواب ملے گا، یعنی نیت میں جتنا خلوص ہوگا ،اتنا ہی بندہ اجروثواب کا مستحق ہوگا۔ (۴) عبادت اور عادت میں نیت کے ذریعہ فرق ہوتا ہے۔ (۵) نیت میں خلوص کی وجہ سے انسان عمل سے زیادہ اجروثواب حاصل کرسکتا ہے۔ (۶) ریا اور شہرت انسان کے اعمال کی بربادی کا سبب ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث کی روشنی میں زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔( آمین)