قرض خانے کا دروازے کھل چکا، حکومتی دریوزہ گر اپنا اپنا کشکول اٹھائے ڈالر، پونڈ، یورو، درہم و ریال… ہر قسم کی خیرات لینے کے لئے تیار کھڑے ہیں!
اس ملک کے بے خبر اورمقروض عوام کو علم ہونا چاہئے کہ ماضی میں حکومتوں نے اپنے اللوں، تللوں کے لئے عوام کے نام پر جو قرضے حاصل کئے تھے، ان کی قسطیں ادا کرنے کا وقت آچکا۔ پاکستان کو 3ارب 20کروڑ ڈالر IMF کو ادا کرنا ہے، جبکہ 3ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم دوسرے عالمی مہاجنوں کو اداکرنی ہے۔ خود حکومت کے پاس زرمبادلہ کی صورت میں 6ارب ڈالر کے لگ بھگ کی رقم پڑی ہے۔ اب حکومت ان عالمی مہاجنوں کو ان کا قرض واپس کرتی ہے تو اپنی جیب خالی… ہم جو دوسرے ملکوں سے اشیائے ضروریہ اور اشیائے تعیش منگواتے ہیں، اس پر سالانہ 40 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں، یعنی اس مد میں ہمیں ہر ماہ سوا تین ارب درکارہیں۔ اگر پاکستان ان عالمی سودخوروں کی رقم واپس نہیں کرتا تو دنیا کاکوئی ادارہ ہم سے ایک ٹکے کا لین دین بھی نہیں کرے گا ۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی وہی راستہ اپنایا ہے جو ماضی کی حکومتیں اختیار کرتی رہی ہیں۔ یعنی قرض اتارنے کے لئے مزید قرضہ لو… امید ہے IMF والے تھوڑے بہت مزید نخروں اور اپنی شرائط منوانے کے بعد حکومت کو ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے برابر قرضہ دے دیں گے۔ اتنا ہی قرضہ حکومت دوسرے عالمی اداروں سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوں اگلے سال جون تک پاکستان پر 11 ارب ڈالر کا مزید قرضہ ہوگا… جس کو اتارنے کیلئے ہم مزید قرضہ حاصل کریں گے!
یہ بیرونی قرضوں کی صورتحال ہے! اندرون ملک قرضوں کی ادائیگی کے لئے کچھ ایسی ہی صورتحال درپیش ہے!
ملک کے اندر حکومت بنکوں سے قرضہ ”ٹریژری بل“ جنہیں T-BILL بھی کہا جاتا ہے بیچ کرحاصل کرتی ہے۔ حکومت ان ٹی بلوں کو مارکیٹ میں مخصوص مدت کے لئے مخصوص منافع کی ضمانت کے ساتھ بیچتی ہے چونکہ ضمانت حکومت کی ہوتی ہے توبنک یہ بل دھڑا دھڑ خرید لیتے ہیں اور مخصوص مدت کے بعد حکومتی منافع ہڑپ کرجاتے ہیں (یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر صنعت، ہر ادارہ روبہ زوال ہے مگربنکنگ سیکٹرمسلسل فروغ پا رہا ہے۔)
ماضی میں حکومتوں نے ٹی بل بیچ کربنکوں سے جوقرضے حاصل کئے، ان میں سے 1ہزار 540ارب روپے کے قرضے بمعہ سود واپس کئے جانے ہیں۔ اس قرضے کی واپسی کیلئے حکومت ایک ہزار 600 ارب کے مزید T-BILL جولائی اورستمبر کے عرصے میں بیچے گی تاکہ پرانا قرضہ ادا کیا جاسکے۔ ان قرضوں پرگزشتہ برس حکومت نے 850ارب روپے بنکوں کو سودادا کیا جبکہ رواں سال 2013 میں عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے بنکوں کو 1000ارب روپیہ سود کی شکل میں دیا جائے گا! جون 2012 تک یہ اندرونی قرضے 2360 ارب کے تھے جون 2013تک یہ 3100 ارب تک پہنچ چکے ہوں گے!
یہ ہے آپ کی معیشت کی ایک ہلکی سی جھلک!
رواں بجٹ میں وزیرخزانہ نے دنیا کی ہر چیزپر جنرل سیلزٹیکس بڑھا دیا، پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ سی این جی مہنگی ہوگئی۔ ود ہولڈنگ (with holding) ٹیکس بڑھ گیا اور اب وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ IMF کے مطالبے پر کوئی ٹیکس نہیں لگائیں گے… ہاں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے!
IMFکے مزیدمطالبات میں شامل ہے کہ:
…مزید ٹیکس لگائے جائیں تاکہ حکومت 2ہزار 4سو 75 ارب ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف پورا کرسکے!
… بجلی کی قیمتوں میں دو تہائی اضافہ کیا جائے۔
… حکومت مارکیٹ میں ڈالر بیچ کرروپے کی قیمت مستحکم نہ کرے بلکہ ڈالر اوپن مارکیٹ سے خرید کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرے۔
… رعایتوں اور اعانتوں (Sub-sidies) کو مکمل ختم کیاجائے۔
IMF کی یہ سب شرائط عوام کے لئے مہنگائی کا فلڈ گیٹ کھولنے کے مترادف ہے۔ عام لوگ جو پہلے ہی معیشت کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں اس مہنگائی کی تاب نہیں لاسکیں گے۔ یہ مانا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پچھلی حکومت کی بدانتظامیوں اور بداعمالیوں کی سزا بھگت رہی ہے مگراسے اس سلسلے کوکہیں روکنا ہوگا۔ اس حکومت نے ”معیشت کی بحالی “ کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتا تھا مگر معیشت کی بحالی کے لئے اس نے صرف طبقہ امرا کے لئے corporate ٹیکس میں کمی ضرور کی ہے مگر طبقہ اسفل کو الٹی چھری سے ذبح کردیا ہے۔ حکومت نے اگرمہنگائی کا یہ طوفان نہ روکا تو پھر اس کے اکھڑتے قدم بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ نوشتہ ٴ دیوارہے، جو پڑھ سکتا ہے، پڑھ لے، جو نہیں پڑھنا چاہتا، اس کا اللہ بیلی!!
پاکستان جس بھیانک صورتحال سے دوچار ہے، اس سے نکلنے کے دو اوررستے بھی ہیں!
پہلا رستہ لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا کے مرحوم
صدر ہوگوشاویز نے اختیار کیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد امریکہ کے پچھواڑے میں بیٹھ کر انہوں نے سب امریکی سامراجی، سودخور اداروں کو ملک چھوڑنے کاحکم دیا اور یہ کہہ کر ان کا قرض ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ جتنا ہم نے تم لوگوں سے قرض لیا تھا اس سے زیادہ ادا کرچکے… چلو بھاگ جاؤ۔ یہ پالیسی اختیار کرنے کے بعد ہوگوشاویز نے ہیرو بن کر حکومت کی اور اپنی طبعی موت مرے!یہ رستہ اختیارکرنے کے لئے انقلابی روح اورآہنی ارادے کی ضرورت ہوتی ہے جو مسلم لیگ(ن) جیسی Status quo کی پارٹی میں توبہرحال موجود نہیں!دوسرا رستہ ہرنام سنگھ کا ہے۔ جس نے ایک دوست سے سوروپیہ قرض لیا۔ اسے لوٹانے کیلئے اس نے ایک اور دوست سے سو روپیہ پکڑا۔ اب وہ ہر باریہی کرتا کہ ایک سے قرض لے کردوسرے کوواپس کرتااوردوسرے سے قرض لے کر پہلے کو… ایک دن اس نے دونوں دوستوں کو بلایا… آمنے سامنے بٹھایا اور کہنے لگا: ”یار… یہ تم دونوں کے درمیا ن لین دین کا مسئلہ ہے، آئندہ سے تم لوگ ایک دوسرے سے خود ہی لین دین کیا کرو… براہ کرم مجھے آئندہ تکلیف نہ دینا۔“ تو جناب اسحق ڈارصاحب… آپ کون ساراستہ اختیار کریں گے پہلا، دوسرا یا تیسرا