
حکومت دوسرے عالمی اداروں سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوں اگلے سال جون تک پاکستان پر 11 ارب ڈالر کا مزید قرضہ ہوگا… جس کو اتارنے کیلئے ہم مزید قرضہ حاصل کریں گے!
یہ بیرونی قرضوں کی صورتحال ہے! اندرون ملک قرضوں کی ادائیگی کے لئے کچھ ایسی ہی صورتحال درپیش ہے!
ملک کے اندر حکومت بنکوں سے قرضہ ”ٹریژری بل“ جنہیں T-BILL بھی کہا جاتا ہے بیچ کرحاصل کرتی ہے۔ حکومت ان ٹی بلوں کو مارکیٹ میں مخصوص مدت کے لئے مخصوص منافع کی ضمانت کے ساتھ بیچتی ہے چونکہ ضمانت حکومت کی ہوتی ہے توبنک یہ بل دھڑا دھڑ خرید لیتے ہیں اور مخصوص مدت کے بعد حکومتی منافع ہڑپ کرجاتے ہیں (یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر صنعت، ہر ادارہ روبہ زوال ہے مگربنکنگ سیکٹرمسلسل فروغ پا رہا ہے۔)
ماضی میں حکومتوں نے ٹی بل بیچ کربنکوں سے جوقرضے حاصل کئے، ان میں سے 1ہزار 540ارب روپے کے قرضے بمعہ سود واپس کئے جانے ہیں۔ اس قرضے کی واپسی کیلئے حکومت ایک ہزار 600 ارب کے مزید T-BILL جولائی اورستمبر کے عرصے میں بیچے گی تاکہ پرانا قرضہ ادا کیا جاسکے۔ ان قرضوں پرگزشتہ برس حکومت نے 850ارب روپے بنکوں کو سودادا کیا جبکہ رواں سال 2013 میں عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے بنکوں کو 1000ارب روپیہ سود کی شکل میں دیا جائے گا! جون 2012 تک یہ اندرونی قرضے 2360 ارب کے تھے جون 2013تک یہ 3100 ارب تک پہنچ چکے ہوں گے!
یہ ہے آپ کی معیشت کی ایک ہلکی سی جھلک!
رواں بجٹ میں وزیرخزانہ نے دنیا کی ہر چیزپر جنرل سیلزٹیکس بڑھا دیا، پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ سی این جی مہنگی ہوگئی۔ ود ہولڈنگ (with holding) ٹیکس بڑھ گیا اور اب وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ IMF کے مطالبے پر کوئی ٹیکس نہیں لگائیں گے… ہاں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے!
IMFکے مزیدمطالبات میں شامل ہے کہ:
…مزید ٹیکس لگائے جائیں تاکہ حکومت 2ہزار 4سو 75 ارب ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف پورا کرسکے!
… بجلی کی قیمتوں میں دو تہائی اضافہ کیا جائے۔
… حکومت مارکیٹ میں ڈالر بیچ کرروپے کی قیمت مستحکم نہ کرے بلکہ ڈالر اوپن مارکیٹ سے خرید کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرے۔
… رعایتوں اور اعانتوں (Sub-sidies) کو مکمل ختم کیاجائے۔
IMF کی یہ سب شرائط عوام کے لئے مہنگائی کا فلڈ گیٹ کھولنے کے مترادف ہے۔ عام لوگ جو پہلے ہی معیشت کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں اس مہنگائی کی تاب نہیں لاسکیں گے۔ یہ مانا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پچھلی حکومت کی بدانتظامیوں اور بداعمالیوں کی سزا بھگت رہی ہے مگراسے اس سلسلے کوکہیں روکنا ہوگا۔ اس حکومت نے ”معیشت کی بحالی “ کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتا تھا مگر معیشت کی بحالی کے لئے اس نے صرف طبقہ امرا کے لئے corporate ٹیکس میں کمی ضرور کی ہے مگر طبقہ اسفل کو الٹی چھری سے ذبح کردیا ہے۔ حکومت نے اگرمہنگائی کا یہ طوفان نہ روکا تو پھر اس کے اکھڑتے قدم بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ نوشتہ ٴ دیوارہے، جو پڑھ سکتا ہے، پڑھ لے، جو نہیں پڑھنا چاہتا، اس کا اللہ بیلی!!
پاکستان جس بھیانک صورتحال سے دوچار ہے، اس سے نکلنے کے دو اوررستے بھی ہیں!
پہلا رستہ لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا کے مرحوم
صدر ہوگوشاویز نے اختیار کیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد امریکہ کے پچھواڑے میں بیٹھ کر انہوں نے سب امریکی سامراجی، سودخور اداروں کو ملک چھوڑنے کاحکم دیا اور یہ کہہ کر ان کا قرض ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ جتنا ہم نے تم لوگوں سے قرض لیا تھا اس سے زیادہ ادا کرچکے… چلو بھاگ جاؤ۔ یہ پالیسی اختیار کرنے کے بعد ہوگوشاویز نے ہیرو بن کر حکومت کی اور اپنی طبعی موت مرے!یہ رستہ اختیارکرنے کے لئے انقلابی روح اورآہنی ارادے کی ضرورت ہوتی ہے جو مسلم لیگ(ن) جیسی Status quo کی پارٹی میں توبہرحال موجود نہیں!دوسرا رستہ ہرنام سنگھ کا ہے۔ جس نے ایک دوست سے سوروپیہ قرض لیا۔ اسے لوٹانے کیلئے اس نے ایک اور دوست سے سو روپیہ پکڑا۔ اب وہ ہر باریہی کرتا کہ ایک سے قرض لے کردوسرے کوواپس کرتااوردوسرے سے قرض لے کر پہلے کو… ایک دن اس نے دونوں دوستوں کو بلایا… آمنے سامنے بٹھایا اور کہنے لگا: ”یار… یہ تم دونوں کے درمیا ن لین دین کا مسئلہ ہے، آئندہ سے تم لوگ ایک دوسرے سے خود ہی لین دین کیا کرو… براہ کرم مجھے آئندہ تکلیف نہ دینا۔“ تو جناب اسحق ڈارصاحب… آپ کون ساراستہ اختیار کریں گے پہلا، دوسرا یا تیسرا