• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر پر پاکستان سے بات کیلئے بھارت پر دباؤ، عالمی میڈیا

کراچی (رفیق مانگٹ) عالمی میڈیا نے مودی کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لئے بھارت پر دباؤ ہے ، پاکستان کے ساتھ بیک چینل مذاکرات کیلئے مقبوضہ کشمیر میں ایک منتخب حکومت کی بحالی بھارت کیلئے اہم ہے۔

مودی حکومت کا نیا مفاہمتی نقطہ نظر بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک دباؤ کی عکاسی ہے، نئی دہلی کو اب پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جلدی ہے، نئی دہلی کی سخت گیر کشمیری حکمت عملی پر نظرثانی دو محاذوں کے مشترکہ خطرے کے خوف اور امریکا کے دباؤ کی بھی عکاس ہے کیونکہ واشنگٹن نے بھارت سے کشمیر میں معاملات کومعمول پر لانے کی اپیل کی تھی، مودی ملاقات بھارت اور پاکستان کے مابین جاری تنازعات سے منسلک ہے، نئی دہلی میں یہ احساس موجود ہے کہ جب تک کشمیر گفتگو کا حصہ نہیں بن جاتا، اسلام آباد بات کرنے کو تیار نہیں ۔ 

تفصیلات کےمطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے عالمی میڈیا کہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پاکستان سے بات چیت کے لئے بھارت پر دباؤ ہے، نئی دہلی کو اب پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جلدی ہے،نئی دہلی میں یہ احساس موجود ہے کہ جب تک کشمیر گفتگو کا حصہ نہیں بن جاتا، اسلام آباد بات کرنے کو تیار نہیں۔ 

ملاقات پر برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری کو کالعدم قرار دینے کے 2 سال بعد مودی نے کشمیر قائدین سے ملاقات کی۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لئے بھارت پر دباؤ ہے۔ 

مودی نے کشمیری سیاستدانوں کے ساتھ مسلم اکثریتی خطے میں جمہوریت کی بحالی کے بارے میں بات چیت کی، کیونکہ وہ بھارت میں انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کو نظرانداز کرنے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔ 

ملاقات میں تین سابق وزرائے اعلیٰ شامل ہیں جنھیں 2019 کے کریک ڈاؤن میں جیل میں بند کردیا گیا یا نظربند رکھا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ ریاست کے خود مختاری کی واپسی کے لئے بشمول ہندوستان کے عدالتی نظام کے ذریعے اپنی جدوجہد کو برقرار رکھیں گے۔

بھارتی عہدے دار کا کہنا تھا کہ ایجنڈا یہ ہے کہ پہلے وہ ریاست کے مرکزی دھارے کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے کا ایک راستہ کھولیں تاکہ انہیں دوبارہ جمہوری حصے میں لایا جا سکے۔ پاکستان کے ساتھ بیک چینل مذاکرات کیلئے مقبوضہ کشمیر میں ایک منتخب حکومت کی بحالی کو ہندوستان کے لئے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، مودی حکومت کا نیا مفاہمتی نقطہ نظر بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک دباؤ کی عکاسی ہے، جس میں چین کے ساتھ تناؤ اور امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق، افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے بارے میں خدشات شامل ہیں۔ 

گزشتہ سال چینی فوج کے ساتھ سرحدی تصادم کے بعد سے بھارت کے لداخ میں پچاس ہزار سے زائد فوجی ہیں بیجنگ کے ساتھ باہمی دستوں کی واپسی کے بارے میں بات چیت میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے۔

سجواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر، ہیمپون جیکب نے کہا کہ نئی دہلی کو اب پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی زیادہ جلدی ہے، جس کی عکاسی فروری کشمیر میں ان کی بھاری بھرکم عسکری سرحد کے ساتھ جنگ بندی کے مشترکہ اعلان سے ہوئی ہے۔ 

سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئر فیلو سوشانت سنگھ نے کہا کہ نئی دہلی کی سخت گیر کشمیری حکمت عملی پر نظرثانی اس کے دو محاذوں کے مشترکہ خطرے کے خوف کی عکاسی ہے۔ یہ امریکہ کے دباؤ کی بھی عکاسی ہے، جو علاقائی تناؤ کو کم دیکھنے کے خواہاں ہے کیونکہ وہ افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے لئے تیار ہے۔سنگھ نے مزید کہا مودی کو عملی طور پر مجبور کیا گیا ہے۔ 

بھارت پر انسانی حقوق اور دیگر امور پر حقیقی دباؤ رہا ہے۔جنوبی ایشیا کے لئے قائم مقام امریکی معاون وزیر خارجہ، ڈین تھامسن نے رواں ماہ کانگریس کے سامنے کہاکہ واشنگٹن نے بھارت سے کشمیر میں جلد از جلد معمول پر آنے کی اپیل کی تھی۔

نئی دہلی نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر پر سیاسی ہلچل خطے میں ترقی لائے گی۔ لیکن کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک تعلیمی ماہر صدیق واحد نے کہا کہ رہائشیوں کو خوف ہے کہ مودی کا تازہ اقدام محض عوامی سطح پر مصالحت کی حقیقی کوشش کی بجائے محض عوامی رابطے کی مشق ہے۔ 

چینی میڈیا’ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ‘ نے لکھا کہ ماہرین کا خیال ہے کہ مودی کا یہ اقدام ملکی خدشات کی بجائے ہمسایہ جیو پولیٹیکل تحفظات ہیں واشنگٹن کے تھنک ٹینک کا کہنا کہ یہ پیشرفت بھارت اور پاکستان کے مابین جاری تنازعات سے منسلک ہے۔ 

فروری میں فائر بند معاہدہ، نئی دہلی اور اسلام آباد کا سفارتی عملے کے ویزے پر جاری تنازع کا حل ،کھیلوں کے دوروں کی اجازت، تین سال کے وقفے کے بعد پانی کی تقسیم پر بات چیت دونوں ممالک کا تعلقات کی بحالی کے اقدامات ہیں۔ 

عمران خان نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اسی شرط پر ہوگہ جب نئی دہلی کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے۔ یہ ملاقات کی کلید اسی مطالبے میں ہے۔

نئی دہلی میں یہ احساس موجود ہے کہ جب تک کشمیر گفتگو کا حصہ نہیں بن جاتا، اسلام آباد بات کرنے کو تیار نہیں،لہذا بھارت پاکستان کا اعتماد بڑھانے کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے، اور یہ پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ 

ماہرین کا کہنامودی کی بدلی ہوئی کشمیر پالیسی کا چینی زاویہ ہوسکتا ہے۔ کشمیر میں معمول کی بحالی کے لئے واشنگٹن کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔

تازہ ترین