• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آر تھری انکوائری میں ایف ڈبلیو اے کے کردار پر تحقیقات اور آڈٹ

اسلام آباد (انصار عباسی) راولپنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ پر کام کرنے والے پنجاب حکومت کے آڈیٹرز اور انسداد بدعنوانی محکمے کے تحقیقات کاروں، تفتیشی افسران کی توجہ کا مرکز فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کا کردار ہے، یہ ملک کا سرکردہ انجینئرنگ ادارہ ہے جو قومی تعمیر کے اہم منصوبوں پر کام کرتا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی آڈیٹرز نے ایک پیرا پر توجہ مرکوز کی ہے جس میں آر تھری پروجیکٹ کے کنسلٹنٹ میسرز زیرک پرائیوٹ لمیٹڈ کو مجوزہ الائنمنٹ، انجینئرنگ ڈیزائن اور ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے معلومات ایف ڈبلیو او کو فراہم کرنے پر رازداری کی شق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ اربوں روپے کے اس پروجیکٹ کا ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے ایف ڈبلیو او نے بھی بولی میں حصہ لیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیقات کے دوران انسداد بدعنوانی کے تحقیقات کاروں نے ایف ڈبلیو او کو ایک نجی فریق قرار دیا تھا۔ آڈٹ پیرا کے مطابق، آر تھری پروجیکٹ کے پی ایم یو (پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ) کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ ٹھیکے دار میسرز ایف ڈبلیو او نے 4؍ اپریل 2020ء کو آر تھری کی تعمیر کیلئے بے طلب تجویز پیش کی۔ 

اس تجویز میں انجینئرنگ کی وہی ڈرائنگز اور ماحولیات کی تجزیاتی رپورٹ شامل تھی جو میسرز زیرک نے جمع کرائی تھی۔ مزید برآں، الائنمنٹ کی تجویز بھی وہی تھی جو میسرز زیرک نے 4؍ جنوری 2020ء کو جمع کرائی تھی۔ اس میں اٹک لُوپ اور پسوال زگ زیگ شامل تھا۔ 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میسرز زیرک نے آر تھری کا مفصل ڈیزائن تیسرے فریق کو دیا تھا۔ آڈٹ پیرا میں کہا گیا تھا کہ ٹھیکے کے ضابطوں کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے رازداری کی شق کی خلاف ورزی ہوئی اور اس لئے آڈٹ میں کمپنی کیخلاف کارروائی کی تجویز دی گئی ہے۔ 

آڈیٹرز کے سوا، اینٹی کرپشن کے تحقیقات کار بھی ایف ڈبلیو او کو معاونت فراہم کرنے والے افسران کیخلاف تحقیقات کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، سابق کمشنر راولپنڈی کے ہمراہ ان افسران سے ایف ڈبلیو اے کے حوالے سے تین سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ 

۱) منصوبے کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ میں تبدیل کرنے اور ایف ڈبلیو او کی مدد کرنے میں آپ کا کیا مفاد تھا حالانکہ آر ڈی اے، پی ایس سی یا صوبائی حکومت نے کوئی ایسی تجویز پیش کی اور نہ اس کی اجازت دی؟ 

۲) کیا آپ جانتے ہیں کہ ایف ڈبلیو او کی جانب سے جو بے طلب تجویز پیش کی گئی ہے اس میں تمام تر اعداد و شمار اور تفصیلات زیرک کی استعمال کی گئی ہیں؟ ایسا کیسے ہوا؟ زیرک کو صوبائی فنڈز میں سے ادائیگی کی گئی تھی لیکن وہ ایک نجی کمپنی کی مدد کر رہی تھی؟ 

۳) ایف ڈبلیو او کی بے طلب تجویز پی پی پی پی اینڈ ایم بورڈ کے تیسرے اجلاس (مورخہ 3 جولائی 2020) میں پیش کی گئی تھی جس میں آپ نے پرجوش انداز سے منصوبے کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ موڈ میں تبدیل کرنے اور آر او ڈبلیو بینک کے ذریعے حاصل کرنے کی حمایت کی؟ 

پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے آپ نے بورڈ کو کیوں نہیں بتایا کہ منصوبے کو قرضے کے ذریعے پراسیس کیا جائے گا؟ اگر بینک کے ساتھ اُس وقت مذاکرات مکمل ہو جاتے اور بینک فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر دیتا تو کیا ہوتا؟ 

اگر نہیں تو پروجیکٹ کو آدھے میں کیسے چھوڑا جا سکتا ہے اور پروجیکٹ ڈائریکٹر اس کی حمایت اس وقت کیسے کر سکتے ہیں جب پروجیکٹ کو قرضے سے مکمل کرنے کیلئے رقم فزیبلٹی پر خرچ کی گئی ہو؟ 

باخبر ذرائع نے حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ اگر یہ سب پالیسی کی خلاف ورزی ہے تو صوبائی پالیسی بورڈ، جس کے سربراہ وزیراعلیٰ ہیں، اور اتنے وزیروں اور سیکریٹریوں کی موجودگی میں ایف ڈبلیو او کی بے طلب تجویز کا جائزہ کیوں لیا گیا؟ 

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف ڈبلیو او کی بے طلب تجویز کے بارے میں وزیراعلیٰ، مشیر سلمان شاہ، چیف سیکریٹری پی اینڈ ڈی اور صوبائی حکومت کے تمام متعلقہ عہدیداروں کو علم تھا۔ اسی بے طلب تجویز کی بناء پر پنجاب حکومت نے اے آئی آئی بی کے 400؍ ملین ڈالرز کے قرضے پر افسوس کا اظہار کیا تھا، یہ قرضہ نون لیگ کی حکومت نے 2018ء نے منظور کرایا تھا۔ 

کہا جاتا ہے کہ وفاقی سطح پر پلاننگ کمیشن اور اقتصادی امور ڈویژن یہ پروجیکٹ اے آئی آئی بی کے قرضے سے تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن پنجاب حکومت نے اسے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ موڈ کے تحت بنانے کا فیصلہ کیا۔ 

پنجاب میں جس ایف ڈبلیو او کو نجی کمپنی قرار دیا جا رہا ہے، اسے وفاقی حکومت نے بنا کسی مسابقتی بولی کے مرگلہ روڈ کا ٹھیکہ دیدیا ہے جبکہ پی پی آر اے رولز میں نرمی کرکے ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے خود اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ہے جسے ایف ڈبلیو او تعمیر کر رہی ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ طے شدہ طریقہ کار کے تحت اگر ملک کا سرکردہ ادارہ قومی پروجیکٹ کیلئے یو ایس بی دینا چاہتا ہے تو اس میں ادارے کی معاونت کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ یہ اسے پی پی پی موڈ کی قابل عمل تجویز بنا سکے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری ایجنسی کے پاس ہمارے ڈیٹا اور معلومات کی موجودگی سے پی پی پی کی بولی تیار کرنا ممکن نہیں۔ یو ایس بی کیلئے بولی میں حصہ لینے والا کوئی بھی خواہش مند ادارہ (یہاں سرکاری ایجنسی) معلومات اور ڈیٹا طلب کر سکتی ہے۔

تازہ ترین